بات سے بات: شیخ احمد دیدات۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

10:45AM Tue 11 May, 2021

مولانا بدر الحسن قاسمی صاحب نے اپنی یاداشتوں کی قسط نمبر ۱۳ میں مناظرہ کے موضوع پر  خوب اظہار خیال کیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے جن شخصیات کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے ہمیں شیخ احمد دیدات سے ملنے کا شرف نصیب ہوا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ وہ دینی و دعوتی شخصیات جو اپنے ملکوں یا ایک مخصوص حلقہ تک محدود تھیں، وہ دبی اور امارات سے عالمی افق پر مشہور ہوتے تھے، دبی کی حیثیت ہی کچھ ایسی ہے کہ یہ دنیا کا جنکشن  بن گیا ہے۔  ایسی کئی ایک شخصیات جنہیں بعد میں عالمی شہرت ملی، ان کی ابتدائی آمد کے موقعہ پر ہمیں اپنی برادری میں پروگرام رکھنے اور ملنے جلنے کے مواقع نصیب ہوئے، سادگی کا زمانہ تھا، دو منزلہ عمارتوں کے ٹیرس پر تین چار سو کا مجمع اطمئنان سے اکٹھا کیا جاسکتا تھا۔

شیخ احمد دیدات بڑے دھیمے مزاج کے آدمی تھے، جنوبی افریقہ میں کیرانہ کی دکان چلاتے تھے، جب جنوبی افریقہ پر گوروں کا راج تھا، اور دنیا کا بد ترین نسلی تفریق کا نظام وہاں پر رائج تھا، تو آپ نے متعصب عیسائی ماحول میں اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کی ضرورت محسوس کی ،اور ذاتی محنت سے اس موضوع پر کمال حاصل کیا۔

جہاں تک مناظروں کا تعلق ہے تو ہر زمانے کی اپنی نفسیات اور مسائل ہوتے ہیں، بحث ومباحثہ میں منطق کے اصول بھی بدل جاتے ہیں، متکلمین اپنے زمانے میں زیر بحث موضوعات پر اپنی محنت مرکوز کرتے ہیں، مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی علیھم الرحمۃ نے اپنے دور میں اور معیار فہم کے مطابق دلائل پیش کرکے مخالف کو زیر کیا، لیکن اب جب کے زمانہ اور اسلوب بیان بدل گیا ہے تو پھر ان اکابر کی باتوں کو سمجھنا آج کے صاحب فہم علماء کو بھی نہ صرف مشکل ہوجاتا ہے ، بلکہ ان سے مخالف معنی بھی لینا عام سی بات بن گئی ہے، چہ جائے کہ کوئی غیر مسلم انہیں سمجھے۔

شیخ احمد دیدات سے جب ہم نے دریافت کیا کہ مسیحیت کے موضوع پر انہیں کس کتاب نے متاثر کیا، تو فرمایا کہ اس ماحول کے لحاظ سے مجھے کوئی مناسب کتاب نہیں ملی، مولانا کیرانوی کی اظہار الحق کی بڑی شہرت سنی تھی، لیکن مجھے اس ماحول میں اس کتاب سے کوئی خاطر خواہ فائدہ  نہیں ملا، لہذا مجھے خود سے محنت کرنی پڑی تھی۔ شیخ احمد دیدات نے ایک ایک موضوع کو منتخب کرکےاس پر عام فہم زبان میں چھوٹے چھوٹے رسالے لکھے ہیں، ان کی خوبی یہ تھی کہ اپنے میدان کو انہوں نے نہیں پھیلایا،انہیں کوئی فقہی اور فروعی مسائل میں الجھانے کی کوشش کرتا تو صاف کہتے کسی مفتی سے یہ مسئلہ پوچھئے، میرا موضوع مقارنہ ادیان ہے۔ وہ

 انہی محدود رسائل کے موضوعات پر لکچر دیتے اور مناظرے کرتے تھے، اللہ تعالی نے آپ کو ہر مناظرے میں کامیابی سے ہم کنار کیا تھا۔احمد دیدات قوت حافظہ کے درست استعمال پر مہارت رکھتے تھے۔

یہ ہنر ہم نے کسی زمانے میں جناب محمد پالن حقانی مرحوم کے بیانات میں دیکھا تھا، جب کوئی حوالہ کی ضرورت پیش آتی تو شروع کرتے، مظاہر حق، جلد نمبر چار، صفحہ نمبر ایک سو، سطر نمبر دس۔ اسی زمانے میں بریلوی مکتب فکر کے لوگوں نے اپنے مولویوں کو اسی نہج  پر تیار کرنا شروع کیا تھا، اس زمانے میں ہمیں بھنڈی بازار ان کے ایک جلسے میں شرکت کا موقعہ ملا تھا، جس کی صدارت مولانا احمد رضا خان کے جانشین مولانا مصطفی خان بریلوی کررہے تھے، جو مفتی اعظم ہند کے لقب سے  جانے جاتے تھے، اس اجلاس میں آپ کے نائب مفتی برہان الحق جبلپوری، اور مشتاق نظامی الہ آبادی ، اور مظفر حسین کچھوچھوی وغیرہ موجود تھے، اس میں ایک مولوی کو پیش کیا گیا تھا، جو عربی اور اردو کتابوں کی عبارتیں فرفر سنارہے تھے، اور یہ حضرات تعریف کے ڈونگرے بجارہے تھے کہ دیکھو کہ حقانی کو تو صرف اردو کی عبارتیں آتی ہیں، ہمارے شیر کو تو عربی کتابوں کی عبارتوں کی عبارتیں نوک زبان ہیں۔

احمد دیدات کو امارات کی میڈیا  نے پرموٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا، ابو ظبی ٹیلی ویژن نے بڑی محنت سے ان کے مناظروں کی عربی میں ڈببنگ اس طرح کی جیسے وہ خود عربی میں بول رہے ہوں ۔ یہ کام ان کے محاضرات سے زیادہ محنت اوروقت طلب تھا،کیونکہ پہلے انگریزی سے عربی میں ترجمہ کرنا، پھر دیدات کے ہونٹوں کے زیروبم کے مطابق اس کی ادائیگی کرنا، ایک ایک کیسٹ کی تیاری کے لئے کئی کئی ماہ لگتے تھے،اس کے بعد ہی شہرت کے بام عروج پر پہنچے تھے، اور آپ کو باوقار فیصل ایوارڈ بھی ملا تھا۔

وہ خود ساختہ فرد تھے، انہوں نے کئی ایک با صلاحیت شاگرد بھی تیار کئے تھے، لیکن پھر وہی ہوا جو ہمارے برصغیر کے مسلم معاشرے کا  عمومی مزاج ہے، جب اللہ نے دنیا کے وسائل کھولے،اور ان کا عالیشان مرکز قائم ہوا، تو جانشینی اپنے فرزند کو سونپ دی، ان کے ہونہارشاگرد بکھر گئے، اب اپنے وقت کے مشہور عالم دعوتی مرکز کا نام بھی سننے میں نہیں آتا۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/