بات سے بات۔۔۔ شورش کاشمیری اور مولانا آزاد۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

05:55PM Fri 25 Feb, 2022

مولانا آزاد کے یوم وفات کی مناسبت سے ہم نے شورش کاشمیری مرحوم کے قلم سے آپ کے جنازے کا آنکھوں دیکھا حال پوسٹ کیا تھا، جس پر اہل علم کی مختلف آراء سامنے آئی ہیں، جن میں سے ایک شورش کی جنازے کے منظر کے بیان میں حد درجہ مبالغہ آرائی ہے۔ اس کے علاوہ بھی مثبت اور منفی تبصرے موصول ہوئے ہیں۔

شورش کاشمیری مرحوم کی تقریبا جملہ کتابوں کو پڑھنے کا ہمیں موقعہ ملا ہے، آپ ہمارے چند چہیتے مصنفین میں سے ہیں، ہماری رائے میں شورش کی بوئے گل، پس دیوار زنداں، اور دوسری کئی ایک کتابوں کو پڑھے بغیر برصغیر میں بسنے والی اقوام کے  مزاج کو سمجھنا  بہت مشکل ہے، تحریک آزادی کے آخری مراحل کی جیسی تصویر کشی ان کتابوں میں آئی ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ شورش کی بڑی عمر جیل کی کوٹھریوں میں گزری، انہوں نے اعلی مقاصد کے لئے بڑی قربانیاں دیں، آپ نے خطابت، صحافت، ادب وشاعری ہر میدان میں جولانیاں دکھائیں۔ اور حق بات کہنے میں کوئی پرواہ نہیں کی، کہتے ہیں کہ بھٹو دور حکومت میں جب آمریت جمھوریت کا چولا اوڑھے ہوئے تھی، کلمہ حق کی پاداش میں اس وقت کے گورنر پنجاب نے انہیں آفس  بلا کرکہا  تھا کہ آپ کے گھر میں جوان بیٹیاں ہیں، اور آپ بوڑھے ہوچکے ہیں ، ان  حفاظت کا  خیال رکھیں، کہتے ہیں کہ پہاڑوں سے ٹکرانے والا دل  یہاں ہار گیا تھا، واپسی پر دل کا دورہ پڑا ، جو جان لیوا ثابت ہوا۔

شورش ایک انسان تھے، ان کی شخصیت  جذبات سے بنی تھی، جذبہ سے خالی انسان بہترین شاعر و ادیب وخطیب نہیں بن سکتا، لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جذباتی مزاج انسان کو یک رخا بنا دیتا ہے، شورش بھی مزاج کے یک رخے پن سے خالی نہیں تھے، اب ان کی تحریروں میں جذباتیت اور کسی شخصیت سے والہانہ محبت پائی جاتی ہے تو یہ ان کی تحریروں کا حسن ہے، لیکن ہر قسم کے حسن  کا معیار بننا ضروری نہیں ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پنجاب نے دو چوٹی کے صحافی دئے، جنہوں نے چومکھی لڑائی لڑی، ہفت روزہ ریاست کے ایڈیٹر دیوان سنگھ مفتون اور مدیر چٹان شورش کاشمیری، ان دونوں کو اردو میں تفتیشی صحافت کا باوا آدم کہا جاتا ہے، ان دونوں  کے فون کی آواز سن کرجواڑے اور نواب  ، سرمایہ دار اور زمیندار تھرا جاتے تھے، اور یہ دونوں ان کا مال لے کر مستحقین میں بانٹنا جائز سمجھتے تھے۔ مزید تفصیل آپ سمجھ لیں۔

شورش اپنے  محبین سے خوش ہوتے تو جان چھڑکتے ، لیکن جب ناراض ہوتے تو پھر مخالفت میں تمام حدوں کو پار کرجاتے، مولانا دریابادیؒ اور ماہر القادریؒ کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا تھا، یہ دونوں حضرات بنیادی طور پر علامہ سید سلیمان ندویؒ کے حلقے کے تھے، علامہ کو مولانا آزاد سے شکایتیں تھیں، جو انہوں نے کراچی میں اپنے دوست واحباب سے بیان کی تھیں، ان میں ایک بڑی شکایت  الہلا ل  کو مشہور کرنے والے مشہد اکبر جیسے  علامہ کے مضامین کی مولانا آزاد کی زندگی میں  اصل مضمون نگار کے بجائے مولانا آزاد کی طرف منسوب ہونا اور اس  پر مولانا کی خاموشی تھی۔ اگر ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری جیسے محققین یہ تحقیق کرتے کہ  کونسے مضامین آزاد کے ہیں کونسے منسوب ہیں تو اس سے آزاد کا مقام بہت بلند ہوجاتا،اور اس سے  تفسیر اور مضامین کے سلسلے  میں آزاد پر سرقہ کا الزام لگانے کا موقعہ کسی کو نہ ملتا ۔

مولانا آزاد، دریابادی، ماہر القادری اور شورش کاشمیری بڑے لوگ تھے، ایسے لوگ صدیوں میں پید ا ہوتے ہیں، ان کی علم وادب اور ملی خدمات کے لئے بڑی قربانیاں ہیں، ایک انسان ہونے کے ناطے ان کی لغزشوں کو فراموش کرنے  کی عادت اور اس کے لئے  مخلصانہ کوششیں ملت کو آگے کی طرف لے جانے میں مددگار ثابت ہونگی۔

2022-02-23