بات سے بات: صحابہ کرام کی عزت۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

08:27PM Sat 19 Sep, 2020

  ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب نے ڈاکٹر مظہر یسین صدیقی مرحوم پر اپنے تاثراتی مضمون میں مولانا سید جلال الدین انصر عمری صاحب سابق امیر جماعت اسلامی ہند  کا ایک جملہ نقل کیا ہے جس میں آپ نے ڈاکٹر صدیقی مرحوم کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ *صحابۂ کرام کی عزّت ہمیں مولانا مودودی کی عزّت سے زیادہ عزیز ہے

بعض احباب نے اس قول کی نسبت سے مزید توثیق طلب کی ہے،لیکن ہماری رائے میں ڈاکٹررضی الاسلام صاحب کی روایت کے بعد مزید کسی ذریعہ سے توثیق کی ضرورت نہیں۔

دراصل کئی ایک ایسے موضوعات ہوتے ہیں جن میں جماعت کے سینیر علماء وغیرہ کی اپنی ایک ذاتی رائے ہوتی ہے، جوکثیر تعداد میں موجود ان ارکان جماعت کی آواز میں دب جاتی ہے، جن کی نگاہیں تنظیم جماعت اور ڈسپلن سے آگے نہیں دیکھ پاتیں۔ اور یہ اکابر بھی مصلحتا خاموش رہ جاتے ہیں، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ جماعت کی اکثریت کے تابع ہیں، جو ایک طرح سے تقلید ہی کی ایک قسم ہے، جدید دور میں جسے نظم کی اطاعت کا نام دیا گیا ہے۔ حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے، کہ پہلے زمانے میں اتباع شیخ ہوا کرتی تھی ، اب کے زمانے میں اسے بدل کر اتباع نظم، اور پارٹی ڈسپلن کا نام دیا گیا ہے۔

یہ بات ہمیں اس لئے یاد آئی کہ انقلاب ایران کے ابتدائی ایام میں مولانا خلیل احمد حامدی مرحوم نے خمینی صاحب کی کتاب ولایۃ الفقیہ کا اختصار ایک مختصر کتابچے میں کیا تھا، جس میں اصل کتاب کی قابل اعتراض عبارتوں کو حذف کردیا گیا تھا، اس کا تذکرہ ہمارے ایک گذشتہ کالم میں آچکا ہے، خلیج میں برسر روزگار ہونے کے بعد ہمیں خمینی ، انقلاب ایران ، او شیعیت کے تعلق سے ایسی اصل کتابیں ہاتھ لگیں جو مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اپنی مشہور کتاب لکھتے وقت نصیب نہیں ہوئی تھیں۔ جس کی وجہ سے اللہ نے اس سلسلے میں ایک حقیقت پر مبنی موقف اختیار کرنے کی توفیق دی۔

  اجتماع جماعت اسلامی ہند ۱۹۸۱ء کے بعد مولانا محمد یوسف صاحب سابق امیر جماعت اور مولانا حامدی مرحوم سے یکجا ملتے رہنے کے مواقعی ملے، ان حضرات سے ہماری بے تکلفی سی تھی، ہم نے مولانا حامدی سے کہا کہ آپ نے تو خواہ مخواہ ہمیں گمراہی کی راہ پر ڈال دیا، اور خمینی کی کتاب ولایۃ الفقیہ سے اپنے من پسند عبارتیں خوش نما انداز سے پیش کردیں، یہ تو خیانت ہوئی، تو مولانا نے معذرت پیش کی ، اور فرمایا کہ غلطی ہوئی ہے اور میں نے غلاف کعبہ پکڑ کر اللہ سے معافی مانگی ہے، اور اپنے کئے پر توبہ کی ہے،اور میاں طفیل محمد سے بھی کہ دیا ہے خمینی کے عقائد کفریہ ہیں۔ان کی کوئی تاویل نہیں ہوسکتی۔

یوسف صاحب سے ہم نے کہا کہ آپ نے بلاوجہ خامنائی کو حیدرآباد اجتماع میں خطبہ کا موقعہ دے کر انہیں تشہیر کا موقعہ دیا، تو آپ نے بھی غلطی کا اقرار کیا اور فرمایا کہ یہ جب خطبہ میں کتاب وسنت کہ رہے تھے تو ہم سنت سے مراد بخاری اورمسلم سمجھ رہے تھے، ہمیں کیا معلوم تھا کہ سنت سے مراد ہماری کتب حدیث نہیں ہیں بلکہ سنت ائمۃ المطہرین ہے۔

پھر فرمایا کہ انقلاب ایران کے بعد ہماری خواہش ایران اور اہل سنت میں افہام و تفہیم کی فضا بنانے کی تھی، لہذا رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں ہم لوگوں نے خمینی سے ملنے کے لئے رابطہ کے وفد کی تجویز پیش کی تھی، اور ہم قم وفد بنا خمینی سے ملنے گئے تھے، وہاں جاکر ہم نے محسوس کیا کہ یہ انقلاب خالص فارسی عجمی انقلاب ہے، کیونکہ خمینی صاحب اس سلسلے میں کٹر متعصب ہیں، ان کے تعصب کا یہ عالم ہے کہ عربی جانتے ہوئے ہمارے عربی میں کئے ہوئے سوالات کو ایک مترجم کے ذریعہ فارسی میں ترجمہ کروا کرسن رہے تھے، اور جوابات بھی مترجم ہی کے ذریعے دے رہے تھے، پھر فرمایا کہ خمینی صاحب کی کتابیں پڑھنے کے بعد ہماری رائے ہے کہ یہ صریحا کفر ہے، اور ہم  نے مولانا ابو اللیث ندوی ، اور مولانا صدر الدین اصلاحی، مولانا سید احمد عروج قادری، اور جملہ اکابرین جماعت کو اپنی اس رائے سے آگاہ کردیا ہے، اور وہ میری رائے سے متفق ہیں۔ ہم نے دریافت کیا کہ آپ اس کا اعلان کیوں نہیں کرتے، تو اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

کچھ یہی صورت حال مولانا نعیم صدیقی مدیر ترجمان القرآن و مصنف محسن انسانیت اور جناب اسعد گیلانی مرحوم کے درمیان پیش آئی جو ایک معرکہ کی صورت اختیار کرگئی، اول الذکر خمینی انقلاب کے ناقد اور آخر الذکر اس کے مداح تھے، دونوں کے درمیان سخت تحریروں کا تبادلہ بھی ہوا، لیکن نعیم صدیقی مرحوم کو اس وقت جماعت کا واضح سپورٹ نہ مل سکا۔

بعض بنیادی مسائل میں جماعت کی بزرگ شخصیات کا  واضح موقف، ان کے ذاتی موقف تک محدود رہا، خاص وعام کو اس کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوسکا، خوردوں کی غالب اکثریت حاوی رہی، انہیں واضح موقف بننے نہ دیا، جس کی وجہ سے جماعت کے اکابر وہ مقام نہ پاسکے جس کے وہ مستحق تھے۔ اور بدگمانیاں بھی دور نہ ہوسکیں، جس کا نقصان امت کو پہنچا۔

اس وقت ہمیں ممتاز دانشور الطاف گوہر مرحوم کی مولانا مودودی کے انتقال پر بی بی سی پر مورخہ ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء اپنی تاثراتی تقریر میں کہی ہوئی بات یاد آتی ہے کہ

((جماعت کا ہر فیصلہ مولانا کا فیصلہ سمجھا گیا،اور یوں بھی ہوا کہ کسی  معاملہ میں مولانا نے ایک رائے کا اظہار کیا اورجماعت نے فیصلہ اس سے مختلف کیا، مجبورا ہر تضاد پر سیاسی ضرورت کا پردہ ڈالنا پڑا، اور یہ پردہ اصولوں کی آنکھوں پر پٹی کی طرح نبٹتا رہا)۔  کاش ایسا نہ ہوتا۔

2020-09-20

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/