بات سے بات: رضا علی عابدی نے اپنے پروگرام کتب خانہ سے آنے والوں کو ایک راہ دکھا دی ہے۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Bat Say Bat

08:07PM Mon 5 Oct, 2020

علم وکتاب گروپ پرممبران کی اکثریت چونکہ علمائے دین کی ہے تو  اس میں ابتدا سے خیال رکھا گیا کہ ایسا مواد پوسٹ ہو جو صاف اور شستہ زبان  اور مقبول عام اسالیب سے انہیں متعارف کرائے ، اس ضمن میں رضا علی عابدی کے ریڈیو پروگرام کتب  خانہ کو اس میں سلسلہ وار پیش کیا گیا تھا، اس پر مولانا  ناصر الدین مظاہری صاحب نے اپنے تاثرات سے نوازا ہے۔ اسی مناسبت سے عرض ہے کہ:۔

برصغیر کی زبانوں میں بی بی سی کے ریڈیو پروگرام جنگ عظیم کے زمانے میں مقبوضہ ملکوں کے عوام میں برطانیہ کی پبلسٹی کے لئے شروع کئے گئے تھے، لیکن اس میں ایسے باصلاحیت لوگوں کو لاکر بٹھایا گیا ، جنہوں نے اس کے ذریعہ مال ودولت اور دنیا کی آسائیشیں جمع کرنے سے زیادہ اپنے پروفیشن پر توجہ دی ، او ر اس کے پروگراموں کو اتنا معیاری اور مقبول بنایا کہ یہ آزادی کے بعد اپنے ملکوں کے ریڈیو  پروگراموں سے زیادہ مقبول ہوئے۔

جن لوگوں نے بی بی سی اردو کو آباد کیا ان میں  سے  ضمیر احمد، وقار احمد، عارف وقار، سارہ نقوی، ثریا شہاب، سحاب قزلباش ، آصف جیلانی، عبید صدیقی، رضاعلی عابدی ، علی احمد، آل حسن وغیرہ کو جنہوں نے سنا ہے وہ گواہی دیں گے  کہ بی بی سی نے آسمان صحافت کے آفتاب وماہتاب کو اپنے اسٹڈیو میں  یکجا کیا تھا، ان لوگوں نے اس دوران جو پروگرام پیش کئے ان  میں اپنے   پروگراموں سے ان کا خلوص چھلکتا ہے، رضا علی عابدی کے کتب خانہ، شیر دریا ، جرنیلی سڑک، نغمہ گر، ریل کہانی ، جہازی بھائی،  اور آصف جیلانی کے سویت یونین کے غلبہ کے دنوں میں پیش کردہ وسط ایشیا کے مسلمان ، وغیرہ ایسے پروگرام ہیں جنہیں کسی صورت وسائل کے معیار پر تولا نہیں جاسکتا۔

رضاعلی عابدی صاحب نے کتب خانہ کے ذریعہ آج سے تیس سال قبل ایک راہ  دکھائی ہے، اب اس پر مزید کام کی گنجائش موجود ہے، پہلے وسائل اتنے میسر نہیں تھے، لیکن اب وسائل کی بہتات ہے، علم وکتاب گروپ میں ایسے اہل علم اور کتاب دوست موجود ہیں، جو برصغیر اوردنیا کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں، وہ خود دلچسپی لے کر اپنے علاقوں میں محفوظ کتابوں کے ذخیروں ، کتب خانوں  کی معلومات اور کتابوں کے جانکاروں سے مصاحبات کے ذریعہ ان کے بارے میں بڑی قیمی معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔

گزشتہ دنوں مولانا ابن الحسن عباسی اور مولوی بشارت نواز کی توجہات اور محنتوں سے النخیل کا     (( یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ )) کی شکل میں ایک قیمتی علمی دستاویز   منظر عام پر آچکی ہے،  یہ ہماری خوش بختی ہے کہ اس میں علم وکتاب گروپ کے معزز ممبران نے اپنی بھرپور دلچسپی کا مظاہر ہ کیا ہے، مولانا ناصر الدین مظاہری صاحب کی اس تحریک کے بعد اب  کتب خانوں پر ایک اور دستاویز کا خواب دیکھنا خام خیالی ہرگز نہیں ہوگا۔  تعبیریں تو خوابوں کے دیکھنے کے بعد ہی نکلا کرتی ہیں۔

مفتی الہی بخش اکیڈمی کاندھلہ، کتب خانہ دارالعلوم دیوبند،کتب خانہ دارالعلوم وقف، کتب خانہ مظاہرعلوم وقف

کتب خانہ مظاہرعلوم جدید، ذاتی کتب خانہ شیخ محمدیونس، ذاتی کتب خانہ حضرت مولاناعلی میاں، وغیرہ بہت سارے  نادر کتابوں کے ذخیرے  اس خواب کی تعبیر کے انتطار میں ہیں۔

‏05‏/10‏/2020

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/