بات سے بات: ارض دکن اور جنوبی ہند کے چند نامور خطیب۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Bat Say Bat

09:10PM Tue 29 Sep, 2020

کل ہم نے مولانا عاقل حسامی اور دکن کی خطابت پر جو اظہار خیال کیا تھا، اس پر دو تاثرات ہمارے سامنے ہیں، ایک ہمارے ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری صاحب کا ہے اور دوسرا ہماری ایک محترم شخصیت کا پرسنل پر، احباب سے ہماری گذارش ہے کہ اپنے تبصرے اور فرمائشیں گروپ ہی پرپوسٹ کرنے کو ترجیح دیں، اس کا فائدہ سبھی کو پہنچتا ہے، اور اس سے دوسروں کو تحریک بھی ہوتی ہے، اور نئے موضوعات کے لئے بھی ذہن کھلتا ہے، وقتا فوقتا ہم جو اظہار خیال کرتے ہیں اس کا مقصد صرف ایک تحریک پیدا کرنا ہے، ورنہ ہماری یہ بساط نہیں ہے آپ کے علم میں کچھ اضافہ کرسکیں۔ہر شخص اپنے مشاہدات اور تجربوں کا پابند ہوتا ہے، آپ کے مشاہدات مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔

گذشتہ کالم کو خطابت کے سلسلے میں اجمالی جائزہ تعبیر کرنا شاید درست نہیں ہے، ہماری حیثیت تو اس شخص کی ہے جو کسی باغ کی چہار دیواری کے قریب جاتا ہے تو باغ کے تمام دروازے بند پاتا ہے، اس میں جھانکنے کے لئے اسے ایک سوراخ  ملتا ہے، اسے اس میں سے باغ کے چند پھل پھول کے خوش نما درخت نظر آتے ہیں تو ان کے اوصاف بیان کرنے لگتا ہے، اب جن لوگوں نے باغ کا دوسرا حصہ دیکھا ہے ان کا کام  ہے کہ باغ کو انہوں نے جس رخ سے دیکھا ہے، اس کا حال بیان کریں، اور جہاں رنگ نہیں بھرا ہے وہاں رنگ بھر دیں۔

یوں تو ہم نے فن خطابت پر بات چھیڑدی ہے، اور ہم اس میدان میں نرے کورے ہیں، ڈرائیور کے قریب بیٹھے اس شخص کی طرح جو ڈرائیور کو  ڈرائیونگ  کے گر بتانے لگے ، جیسے اسے ڈرائیونگ آتی ہو،آج سے کوئی پینتالیس سال قبل جب ہمارا پہلا مضمون شائع ہوا تھا تو انجمن آرٹس کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر سید انور علی مرحوم نے اسے پڑھ کر ہمیں نصیحت کی تھی کہ آپ تقریر پر محنت نہ کریں، اس میں بڑھنے کے آپ کے مواقع ناپید ہیں۔ لیکن لکھنے پر محنت کروگے تو کچھ آگے بڑھ سکتے ہو، لیکن ہم تو ٹہرے بارش کی دھار میں چھوڑی جانے والی کاغذ کی ناؤ جیسے، جسے بچے  بنا کر پانی کے بہاؤ پر چھوڑدیتے ہیں، اور وہ کہیں گل سڑ کر پانی میں گم ہوجاتی ہے۔

گذشتہ زندگی میں کئی ایک اعلی سےا علی خطیبوں کو سننے اور سنوانے کا موقعہ ملا، لیکن سچی بات تو یہ ہے حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ کسی کی تقریر زیادہ دل کو پسند نہیں آئی، کبھی تقریر سننے کی خواہش ہوتی ہے تو صرف حضرت قاری صاحب ہی کی تقریر سنتے ہیں، کسی اور کی نہیں، یہ ذوق کی بات ہے، قاری صاحب اپنے ایک طرز خطابت کا اعلی ترین نمونہ تھا۔ لیکن ابتدا سے ہمارا ذوق ایسا نہیں تھا، ۱۹۷۱ء میں حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمۃ کو پہلے پہل پیریمیٹ مسجد ، چنئی میں سننے کا موقعہ ملا تھا، سچی بات تو یہ ہے، تقریر کچھ پلے نہیں پڑی،پھر کچھ سال بعدآپ کو سننے کا موقعہ ملا تو پھر صورت حال یہ تھی سلطانی مسجد بھٹکل میں ڈھائی گھنٹے ایک ہی نشست پر بیٹھ کر پوری تقریر سن ڈالی۔

ہمارے ایک مشفق تھے جو بڑے اچھے شاعر تھے، بلکہ بھٹکل کے عظیم ترین شاعر محمد حسن معلم مرحوم، کلکتہ میں تھے تو انہیں حضرت قاری علیہ الرحمۃ اور مولانا ابو الوفا شاہجہاپوری وغیرہ بڑے مقررین کو سننے کا موقعہ ملا تھا، کہتے تھے کہ حضرت قاری علیہ الرحمۃ کے خطبات میں بڑے دقیق مسائل ہوتے ہیں، ان میں ہمیں کوئی خاص دلچسپی محسوس نہیں ہوئی، لیکن مولانا ابو الوفا شاہجہانپوری مرحوم کی خطابت کا رنگ ہی کچھ الگ تھا، ان کے موضوعات عام فہم ہوتے تھے، اور ان کی زبان بھی بہت ہی آسان اور سادہ ہوتی، ایسا لگتا جیسے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں۔ آپ کی خطابت کا جو مزہ تھا وہ کہیں اور نہیں ملا۔

فن خطابت میں کئی ایک کتابیں اردو میں لکھی گئی ہیں، ان میں ڈیل کارنیگی کی تقریر اور گفتگو کا فن، شورش کاشمیری کی فن خطابت وغیرہ، خطابت کا ملکہ تو اللہ کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے، یہ کسبی سے زیادہ وھبی ہوتا ہے، بس سننے والے میسر ہوں، اور ماحول مل جائے تو تقریر کا فن صیقل ہوجاتا ہے، اگر طبیعت میں خطابت کا مادہ موجود ہو تو پھر ان کتابوں سے فائدہ پہنچتا ہے، ورنہ ان کتابوں سے تقریر تو نہیں آتی،البتہ یہ کتابیں  دوسرے  بہت سارے فائدوں سے خالی نہیں ہوتیں، ہمیں اردو فن خطابت پر مولانا کوثر نیازی کی تقاریر کے مجموعے(( انداز بیان)) کا مقدمہ بہت پسند آیا، ستر کی دہائی میں جب موصوف وزیر اطلاعات اور اوقاف ہوا کرتے تھے ، تو غلام علی اینڈ سنز نے یہ مجموعہ بڑے شاندار انداز سے چھاپا تھا،اب تو لوگوں کو اس کا نام بھی یاد نہیں، شورش اور نیازی صاحب کی شہرت عظیم خطیبوں کی حیثیت سے ہے، ان کا قارورہ مجلس احرار کے خطیبوں سے ملتا ہے، لیکن ذاتی طور پر ہمیں ان کی تقاریر زیادہ پسند نہیں آئیں، کیونکہ ان کے انداز میں مٹھاس کے بجائے کرختگی اور آواز کی بلندی حد سے زیادہ ہے، ہم نے شورش کی بیس سے زیادہ تقاریر کی آڈیو فائلین بنا کر رکھی ہیں، اس محنت کے باوجود انہیں سننے کو جی نہیں چاہتا، سنا ہے کہ جب کوثر نیازی مرحوم وزیر اطلاعات تھے تو ان کی تقاریر ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوسکتی تھیں، کیونکہ ریڈیو کنڑولر ان کی فنی طور پر آواز کی بلندی کو ریڈیو کے لئے ناقابل قبول  اشاعت سمجھتے تھے۔ ممکن ہے شورش اور کوثر نیازی جب مجمع عام میں خطاب کرتے ہوں تو بالمشافہ انہیں سننے والوں کو مزہ آتا ہو۔

شورش کی تقاریر کے بارے میں ہماری ذاتی رائے ہے کہ ان کی دو چار گھنٹوں کی تقریر میں درمیان درمیان میں چند منٹ ایسے ہوتے تھے جن میں زبان سے نکلے ہوئے کلمات خطابت و ادب کا شہ پارہ ہوتے تھے، امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں جو پڑھا اور سنا ہے اس سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان کا اندازہ خطابت بھی  ان جیسا ہی تھا، بس اس فرق کے ساتھ کہ امیر شریعت چونکہ بہار کے تھے، لہذا آپ کی تقاریر پنجابی لہجے سے مخلوط ہونے کے باوجود بہار کے عظیم واعظین  مولانا شاہ سلیمان پھلواروی ؒ کی طرح ان کی آواز میں بھی فرشتوں کے بولنے کا احساس ہوتا تھا ، لیکن آپ کی خطابت کے موضوعات بھی عوامی اور کسی ایک محور پر مرکوز نہیں رہتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا احسان احمد شجاع آبادی مرحوم کی تقاریر اپنے اسلوب اور طرز ادا میں امیر شریعت کے خطبات کی ہوبہو کاپی تھیں، شورش اور مولانا شجاع آبادی کی تقاریر سن کر امیر شریعت کے خطبات کے سلسلے میں رائے قائم کرنا آسان ہوسکتا ہے۔

یہ بات ہمیں اس وجہ سے ذہن میں آئی کہ ہمارے ایک بزرگ نے مولا سلیمان سکندر مرحوم کی تقریر کے سلسلے میں دریافت کیا ہے، مولانا سلیمان سکندر دکنی مکتب خطابت کی نمائندگی کرتے ہیں، دکنی لہجے کا اہم خاصہ اس کا مزاحی مزاج ہے، اردو کا کوئی اور لہجہ حس مزاح میں دکنی کا مقابلہ نہیں کرتا، مولانا سلیمان سکندر، جناب عبد الرحیم قریشی وغیرہ مولانا سید خلیل اللہ حسینی کی قیادت میں مجلس تعمیر ملت کے ذریعہ خدمت خلق کیا کرتے تھے، ان کی ادارت میں ایک ہفتہ وار شعور حیدرآباد دکن سے نکلتا تھا، جسے ہم نے چار سال تک بڑی پابندی سے پڑھا ہے،اب لوگ اس پرچے سے واقف نہیں، ورنہ صحیح معنوں میں یہ ملت کے جذبات کا ترجمان تھا، سید خلیل اللہ حسینی کے ادارئے بڑے موثر اور دردمندانہ ہوا کرتے تھے، ہمیں اچھی طرح یاد ہے، ایک روز ہم جمالیہ میں نماز فجر کے بعد قرآن مجید کی اجتماعی تلاوت کررہے تھے، بنگلہ دیش کی جنگ چھڑ گئی، سید خلیل اللہ حسینی اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کی خبر آگئی، ہمارے مولانا عبد الوہاب بخاری رنجیدہ ہوگئے، کہنے لگے جب بھی کوئی جنگ یا ہنگامی صورت حال ہوتی ہے تو سرکار پہلے انہیں قید کردیتی ہے۔

۱۹۸۰ء میں جب ہم نے پیغام اسلام کیسٹ سیریز کے عنوان سے آڈیو اورویڈیو سیریز کا سلسلہ شروع کیا تھا تو محسوس ہوا کہ سبھی بڑے مقررین کی تقریریں کیسٹوں میں سننے میں مزہ نہیں دیتیں، مولانا سراج الحسن اور مولانا سلیمان سکندر ان مقررین میں سے ہیں، ان کی تقریریں سننے کے ساتھ ساتھ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، الفاظ کا اتارچڑھاؤ۔ اعضائے جسمانی کے تاثرات آڈیو کیسٹ نہیں دکھا سکتے، جگہ جگہ خاموشی اور حروف کٹ جانے سے مزہ کرکرا ہوجاتا ہے، اس زمانے میں ہم نے ملتان ، کراچی، لاہور وغیرہ سے مجلس احرار کے بڑے مشہور مقررین کے کیسٹ طلب کئے تھے، لیکن ان کا لب ولہجہ اور ریکارڈنگ ایسی نہیں تھی جو سننے میں مزہ دیتی۔ لہذا وہ ضائع ہوگئیں۔

مولانا سلیمان سکندرکی ایک مرتبہ دبی الجوہرہ میں تقریر رکھی گئی تھی، قریب سے ان کے حرکات وسکنات دیکھنے کا موقعہ ملا، باتیں سیدھی سادھی کوئی عالمانہ نہیں تھیِں، ہمارے ایک رفیق اس میں شریک تھے، اس رفیق کے بارے میں ہماری رائے ہے کہ معاشی مجبوریاں انہیں مرکز الدعوۃ سے منسلک ہونے پر مجبور نہ کرتیں، تو وہ ایک چوٹی کے خطیب بن سکتے تھے ، یہ ایک الگ موضوع ہے کہ سعودیہ کی جامعات میں برصغیرکے نونہالوں کی وابستگی سے برصغیر میں علم دین اور دعوت کا کیا فائدہ ہوا، اور کتنا نقصان؟۔ غیر جانبدارانہ اور معروضی انداز سے ابھی اس کا تجزیہ ہونا باقی ہے۔ اس تجزیہ اور سبق سے برصغیر کی کھوئی ہوئی علمی و تحقیقی ساکھ کی واپسی میں مدد مل سکتی ہے۔

تو ہمارے اس رفیق نے ہم سے کہا آپ نے دیکھا ان کے حرکات وسکنات، انکے ٹہراو ،اور اپنی بات پیش کرنے کے انداز کو، فن خطابت میں ایسا انداز پہلے کسی میں ہم نے نہیں دیکھا۔ مولانا سلیمان سکندر بڑے مخلص انسان تھے، ملت کے لئے ان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں، ان کے ایک اور ہم نام جنوب ہی کے جناب ابراہیم سلیمان سیٹھ مرحوم بھی اس وقت یاد آئے،ان کا اصل خاندان تو بنگلور کا تھا، لیکن رچے بسے کوچین کیرالا میں تھے، وہ بھی ایک عظیم خطیب اور مخلص قائد تھے۔ اور کس کس کا ذکر کریں؟ اللہ ان سب کی مغفرت کرے، امت مسلمہ ہندیہ کو جگانے میں ان لوگوں نے بڑی قربانیاں دیں۔ اللہ ان کی قبروں کو نور سے بھر دے۔ آمین۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/