بات سے بات۔۔۔ عربی زبان کی مہارت کا مسئلہ۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

06:49PM Wed 12 Jan, 2022

آکسفورڈ سے ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صا حب کا ایک  مراسلہ نظر سے گذرا ، جس میں آپ نے  نئی زبان سیکھنے کے سلسلے میں مشوروں سے نوازا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں اپنے بھی کچھ تاثرات رکھےجائیں۔

۔   زبانیں کئی ایک مقاصد سے سیکھی جاتی ہیں، اور ہر مقصد کے لئے اسے  سیکھنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ   زبان جاننے کا مطلب یہ ہے  کہ اسے آسانی سے سمجھنے،   طلاقت کے ساتھ بولنے، سلاست کے ساتھ لکھنے کی صلاحیت اس طرح پیدا ہوا کہ اس میں قواعد کی غلطیاں سرزد نہ ہو،  اور زبان کی فصاحت و بلاغت سے آگاہی ہو، اور ادب ، مذہب ، مختلف علوم وفنون میں اس کی مناسبت سےاپنے خیالات کی درست تعبیر پر قدرت حاصل ہو۔

۔ ا س نقطہ نظر سے جب ہم دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ بہ نسبت کم محنت ہونے کے باوجود، انگریزی اداروں کے تعلیم یافتہ   افراد ایک حد تک ان مقاصد میں کامیاب نظر آتے ہیں، اس کے بالمقابل دینی مدارس کے فارغین    کئی گنا محنت کرنے کے باوجو د ان مقاصد کے حصول میں بہت پیچھے محسوس ہوتے ہیں ، اس کاکوئی حل نکالنا ہمارے دینی اداروں اور دارالعلوموں کی بڑی ذمہ داری ہے، ہماری معلومات کی حد تک اس سلسلے میں دعوے تو بہت نظر آتے ہیں، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی  کامیاب عملی پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے۔ پیر ڈھانکتے ہیں تو سر کھلتا ہے، سر ڈھانپتے ہیں تو پیر کھلتا ہے۔

۔ عربی زبان  دینی علوم وفنون کی کنجی ہے، عربی زبان میں مہارت جتنی کم ہوگی، اتنی ہی دین کے فہم سے دوری بڑھ جائے گی۔ زبان کا علم اپنا  ایک مستقل  مزاج رکھتا ہے، اسے تفسیر وحدیث کی طرح سکھایا  نہیں جاسکتا ، ہمارے مدارس کی مشکل  یہ ہے کہ ہم عربی زبان کو بھی دوسرے علوم وفنون کے انداز ہی میں سکھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہی ترجمہ اور تقریر۔ اس طرح  زبان پر ملکہ حاصل کرنا دور کی بات رہی۔

۔ زبانوں کے سیکھنے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ  ہر نئے لفظ کا جملوں میں کم از کم تین  مرتبہ مختلف انداز سے استعمال ہو، ہم جو مفردات کو یکائی سمجھ کر رٹواتے ہیں، تو اس طرح یہ مفردات ایک طالب علم کے الفاظ کے ذخیرے میں شامل نہیں ہوپاتے، نہ یہ بوقت ضرورت استعمال میں آپاتے ہیں، مفردات  کے بجائے آسان جملوں کو یاد کروانا زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

۔ درس نظامی کے بارے میں تو ہماری زیادہ معلومات محدود  ہیں، لیکن دوسرے بعض نصابوں کے سلسلے میں ہمارا مشاہدہ ہے کہ اس میں جب  طالب علم چھٹی جماعت  میں پہنچتا ہے تو اس پر نصاب کا اتنا بوجھ ڈالا جاتا ہے کہ بیچارہ اس میں دب کر رہ جاتا ہے، نصاب کو کچھ ہلکا کرنا چاہئے، اور بہت سی نصابی کتابیں جو مروّتا ًشامل کی گئی ہیں انہیں نکال کر صرف عربی زبان کی ایسی کتابیں شامل  کرنی چاہئے جن میں اسباق کے ساتھ مشقیں زیادہ سے زیادہ   شامل ہوں، اسباق سے علحدہ مشقوں کا زیادہ فائدہ نہیں ہوتا،   ابتدائی دو سال عربی زبان کے قواعد کی کتاب پڑھانے کے بجائے  اسباق  ہی کی مشقوں میں یہ قواعد شامل ہونے چاہئیں ، اس وقت ہمارے یہاں عربی زبان  کے نصابوں کی مشکل یہ ہے کہ جسے ہم جدید کہتے ہیں، اس پر بھی نظر ثانی کئے بغیر نصف صدی گذر چکی ہے،  اور یہ ریڈریں  اسباق کی مشقوں سے خالی ہیں۔

۔نصاب کی تیاری ماہر ین تعلیم کی کمیٹی کے ذریعہ اجتماعی انداز سے ہونی چاہئے، افراد کی تیار کردہ نصابی کتابیں ایک دو ریڈروں کے بعد دم توڑ دیتی ہیں۔ اور ان کے معیار میں بہت فرق آجاتا ہے۔ نصاب کی تیاری سے ہماری مراد  پرانی کتابوں کو من وعن رکھ کر  تعلیمی سال کو بڑھا نا نہیں ہے۔

۔   کوئی زبان بولنے پر عبور ضرورت  اور ماحول کے ماتحت ہوتا ہے، عربی زبان کی تعلیم کا میڈیم عربی ہونا چاہئے، چاہے دیگر علوم دوسری زبانوں میں سکھائے جائیں۔ اس کے لئے  بلیک بورڈ کا استعمال ، املاء وغیرہ کا اہتمام ہونا چاہئے، یہ جو  اساتذہ اپنے گاؤ تکیہ پر سے اٹھے بغیر جو طلبہ سے عربی ریڈروں کا ترجمہ کرواتے ہیں، یہ زبان سیکھانے کافطری طریقہ نہیں ہے، زبان سیکھنے کا فطری طریقہ وہی ہے جو ہم نے مکتب میں اردو سیکھتے وقت اپنا یا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ چار پانچ سال اردو سیکھ کر ہم بڑی بڑی اردو کی کتابیں پڑھنے کے قابل بن جاتے ہیں ،دراصل زبانیں سیاق وسباق سے سیکھی جاتی ہیں۔

۔ ہمارا عربی زبان سے تعلق قرآن پاک کی وجہ سے ہے،جہاں اس کے لئے اسلاف کی تفاسیر سے مدد لینا اور اس سے مراجعت کرنا ضروری  ہے، وہاں یہ نکتہ یاد رکھنا چاہئے   کہ  صرف تفسیروں میں غوطہ زنی دلوں پر قرآن کے اسلوب بیان کا مطلوبہ اثر نہیں ڈالتی،  قرآن کی بلاغت وفصاحت سےکما حقہ اثر لینے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کے الفاظ کی گہرائی تک پہنچیں، اس کے لئے ایسی تفاسیر جن میں قرآن کے مفردات کے معانی  پر توجہ دی جاتی ہے جیسے شیخ حسنین محمد مخلوف کی صفوۃ البیان ، اور ادب جاہلی پر عبور ، اور تاج العروس اور لسان العرب جیسی الفاظ کی گہرائی تک پہنچانے والی کتب لغت سے تعلق نہایت ضروری ہے۔  ہمیں ان لوگوں کا یہ رویہ اپیل نہیں کرتا  جو ہر مشورے میں نقص دکھا کر ہمیشہ  چند مخصوص کتابوں کو پڑھنے کا کہتے ہیں، پندرہ سو سالوں میں جو اسلامی لٹریچر تیار ہوا ہے، ان سے اہل علم کو جوڑنا ہمارا فرض ہے،  زبان وادب پر عبور اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لئے اسی فن کی کتابوں سے طلبہ اور اہل علم کو جوڑنا ہوگا، قدیم وجدیدہر دور میں جنہوں نے بھی علم وفہم کے قافلے کو آگے بڑھا یا ہے ان کی قدر کرنی ہوگی، اور حصول علم کے سرچشموں کو محدود نہیں کرنا ہوگا۔