بات سے بات: قرآن پاک میں دوسری زبانوں کے الفاظ

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

06:45PM Fri 31 Dec, 2021

 ہمارے مولانا مفتی محمد حذیفہ وستانوی صاحب انٹرنٹ کے غواص ہیں، بے پناہ انتظامی ذمہ داریوں اور اسفار کے ساتھ ساتھ علم وادب سے اپنا تعلق باقی رکھے ہوئے ہیں، اور نت نئی چیزیں تلاش کرکے اس خوان میں پیش کرتے رہتے ہیں، آج انہوں نے کلمات قرآنیہ کے اشتقاق پر عرب دنیا سے شائع شدہ دو کتابوں  (التحقیق فی کلمات القرآن الکریم۔ حسن الموسوی ) اور ( المعجم الاشتقاقي المؤصل لألفاظ القرآن الكريم۔ محمد حسن جبل )

کے موازنہ پر مشتمل ایک مقالہ پوسٹ کیا ہے، التحقیق کے مصنف ایرانی نژاد شیعہ ہیں، اور المعجم الاشتقاقی کے مصنف ایک سنی ازہری عالم دین۔التحقیق  ( ۱۴ ) جلدوں پراور المعجم الاشتقاقی  ( ۲۴۱۷ ) صفحات پر۔ ان دونوں کتابوں کو لکھنے والوں نے بڑی محنت کی ہے، اور علوم قرآنیہ کے لٹریچر میں ایک اضافہ کیا ہے۔ مقالہ نگار نے ان میں المعجم الاشتقاقی کو اول الذکر پر ترجیح دی ہے۔

ہمارے خیال میں ان دونوں کتابوں کا منہج مختلف ہے، لہذا نتائج کی بنیاد پر تو ان میں سے کسی کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔لیکن منھج ایک نہ ہونے کی وجہ سے سو فیصد ترجیح شاید درست نہ ہو۔

التحقیق کے مصنف ایرانی نژاد عجمی  ہیں، انہوں نے اپنی کتاب میں قرآن کے مفردات کو اکٹھا کرکے ان کے سلسلے میں قدیم کتب لغت میں جو تشرح کی گئی ہے،انہیں نقل کرکے الفاظ کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے کتب لغت کی عبارتوں کو من وعن نقل کیا ہے، اورمفردات  آخر میں  (والتحقیق) کے تحت ان میں  موازنہ پیش کیا ہے، جس میں انہوں نے کہیں کہیں ڈنڈی ماری ہے، لیکن  المعجم الاشتقاقی میں عبارتیں مصنف کی ہیں، اور انہوں نے کتب لغت کی مفردات کی تشریح کو من وعن نہیں لیا ہے۔الٹحقیق کی ایک اور خامی یہ ہے کہ اس میں تاج العروس کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

اردو کے ایک معروف مفسر قرآن سے جب سوال کیا گیا کہ قرآن کریم کا کیسے مطالعہ کرنا چاہئے تو انہوں نے  اس سلسلے میں مندرجہ ذیل رہنمائی کی تھی۔

  1. ۔ایک طالب علم کو قرآن پاک کو بغیری تفسیر کے براہ راست بھی سمجھ کر قرآن پاک کو پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔
  2. ۔ قرآن کی زبان سے لطف اندوز ہونے اور الفاظ کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے، کتب لغت کے مراجع لسان العرب اور تاج العروس کے ذریعہ مفردات کے معانی کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے، دیگریہ کہ زمخشری کی کشاف کے مطالعہ کا التزام کرنا چاہئے، اس میں شک نہیں کہ صاحب کشاف معتزلی عقائد کے حامل تھے، لیکن کشاف کی عقائد میں کج روی سے بچنے کے لئے اس کے ایڈیشنوں کے ساتھ ابن المنیر کی الانصاف شائع ہوتی ہے، جس سے کشاف کی غلطیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔
  3. ۔ قرآن کا مطالعہ کرتے وقت ایک نوٹ بک میں آمنے سامنے دو صفحات میں سے ایک پر اللہ تعالی نے جن احکامات کا حکم دیا، اور دوسرے پر کن امور سے منع کیا ہے انہیں نقل کرنے کا اہتمام ہونا چاہئے۔
  4. ہمارے خیال میں مفردات کی گہرائی تک پہنچنے میں موسوی کی التحقیق ایک اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے، اور مصنف کی  ( والتحقیق ) کے بعد کی عبارت کو چھوڑ کر اس سے استفادہ کیا جائے تو شاید اس کا فائدہ ہوگا، اگر تاج العروس کو ملا کر اور مرتب کی اپنی عبارتوں کو حذف کرکے نئ ترتیب کے ساتھ کتاب کو از سر نو ایڈیٹ کیا جائے تو اس کا بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اب ہماری نسلیں سست ہوچکی ہیں، انہیں  تاج العروس اور لسان العرب سے  رجوع کرنے کی عادی نہیں رہی ، وہ القاموس الوحید ، مصباح اللغات اور المنجد پرکو دیکھ کر آگے بڑھ جاتی ہیں، اس سے عربی زبان کا ذوق پیدا ہونا اور معانی کی گہرائی تک پہنچنا ناممکنات میں سے ہے۔

مفتی صاحب نے التحقیق اور المعجم الاشتقاقی کے موازنہ میں ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ یہ کہ  مصطفوی قرآن کے  اکثرالفاظ کو عجمی زبان سے ماخوذ بتایا ہے۔ یہ موضوع بہت حساس ہے، اسے سنجیدگی سے لینے اور اطمئان بخش انداز سے حل کرنے کی ضرورت ہے، ہوتا یہ ہے کہ بچپن سے ہم جس ماحول میں تعلیم وتربیت حاصل کرتےہیں، تو بہت سی چیزیں ہمارے عقیدے کا حصہ بن جاتی ہیں، یہ کوئی غلط بات نہیں ہے، اور الحمد للہ اس گروپ میں جتنے اہل علم ہیں وہ صحیح العقیدۃ اور تدریس، اور افتاء اور تحقیق میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں، اب جب ایسی کوئی بحث آجائے تو پٹھے چڑھا کر، اور نتھنے پھلا کر کہنے لگیں کہ فلان بات ہماری جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں، تو بولنے کا یہ انداز اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آپ کے پاس دلیل وحجت ختم ہوگئی ہے، اب اس کے پاس بولنے کے لئے سخت الفاظ کے علاوہ کچھ رہ نہیں گیا ہے۔

ایک مسلمان کا عقیدہ ہے کہ قرآن کے نزول کے وقت  تک جو الفاظ عربی زبان میں شامل ہوگئے تھے تو یہ عربی زبان کا اثاثہ ہیں،کوئی انہیں عجمی نہیں کہ سکتا۔ لیکن کوئی ان الفاظ کی اصل دوسری زبانوں میں تلاش کرتا ہے، تو یہ فقہ و حدیث کا نہیں لسانیات کا مسئلہ ہے، اور یہ ایک مستقل فن ہے۔ موجودہ زمانے میں مدینہ منورہ میں مجمع الملک فھد بن عبد العزیز میں اجنبی تراجم قرآن کریم کے ہیڈ  ڈاکٹر ف عبد الرحیم صاحب  کو  اس موضوع پر مرجعیت حاصل ہے۔

عیسائی مستشرقین نے قرآن پاک پر سے اعتماد ختم کرنے اور یہ ثابت کرنے کی غرض سے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امی نہیں تھے، اور مکہ مکرمہ بعثت نبوی کے دنوں میں دنیا سے کٹا ہوا نہیں تھا، بلکہ یہ دنیا کی تہذیبوں کا مرکز تھا، لسانیات کے اس موضوع کو ہدف بنایا ہے۔ اور معروضی اور ٹھنڈے انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری خود بخود ان کی باتوں سے اثر لینے لگتا ہے، افسوس کہ ہمارے یہاں برصغیر میں خصوصا ان اسالیب سے استفادہ نہیں کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہم ایک بڑے تعلیم یافتہ حلقہ کو اپنے سے دور کررہے ہیں۔ اردو لٹریچر میں ہمیں پروفیسر الیاس برنی کی قادیانی مذہب ایک منفرد کوشش نظرآتی ہے، مصنف نے اس کتاب میں غلام احمد قادیانی کا رد کرنے میں اپنی توانائی صرف نہیں کی ہے، بلکہ وہ مولانا دریابادی کی طرح ایک سرخی باندھتے ہیں، پھر قادیانیوں اور حکیموں کی کتابوں سے اصل عبارتیں نقل کرتے ہیں، جنہیں پڑھ کر ایک قاری اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ غلام احمد قادیانی کو مالیخولیا ہوگیا تھا۔اور خود کو کبھی کچھ اور کچھ سمجھنے لگے تھے۔

یہ بات اس لئے یاد آئی کہ گجرات کے سفر میں محترم سید محی الدین بمبئی والا صاحب  نے ہمیں بتایا تھا کہ ان کے پاس سر ارتھر جفری کی مفردات قرآن پر ایک کتاب ہے جس میں انہوں نے  سریانی ، عبرانی ، فارسی اور دوسری کئی ساری زبانوں کے اصل الفاظ قرآن پاک میں پائے جانے کی نشاندہی کی ہے، اور ان زبانوں سے اصل الفاظ کے فوٹو دئے ہیں، کتاب پرانی ہے، لیکن انہیں عربی اور دوسری زبانیں نہ آنے کی وجہ سے اس سلسلے میں کوئی درست رائے قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔ لہذا علماء کے ایک بورڈ کو اس کتاب کی اشاعت کے بارے میں غور کرنا چاہئے، گزشتہ دنوں شارجہ معرض الکتاب میں ارتھر جفری کی اس کتاب کا ترجمہ  (معجم الالفاظ الغربیہ فی القرآن  ) دستیاب ہوا، یہ مستشرق آسٹریلیا میں پیدا ہوا، یورپی ملکوں میں رہا، اور ۱۹۵۹ء میں کینڈا میں وفات پائی،یہ کتاب تقسیم سے قبل بروڈا کے گائکواڑ راجہ نے شائع کیا تھا، کتاب پر سرسری طور پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوا کہ ٹھنڈے دماغ کا آدمی ہے، اور اس ایک کام کے لئے اس نے عمر قربان  کی ہے، کتاب دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ مصنف کا منشا یہ ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ قرآن کریم اللہ تعالی کی کتاب نہیں ہے، اور یہ کہ بعثت کے وقت مکہ مکرمہ میں یہودی، حبشی، عیسائی ، ایرانی سبھی قوموں کے لوگ پائے جاتے تھے، اور قریش کو دوسری اقوام سے اختلاط تھا، اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عبرانی، سیریانی ،حبشی اور دوسری زبانیں آتی تھیں، اورآپ ﷺ نے ان الفاظ کا قرآن میں استعمال کیا ہے، اس کی دلیل میں میری یہ پوری قرآن کی ڈکشنری حاضر ہے۔

ارتھر جفری کی ایک اور کتاب  ( موارد من اجل التاریخ النصی للقرآن  ) کا بھی عربی ایڈیشن ملا، اس کے مترجم نبیل فیاض عراقی ہیں۔ ثانی الذکر کتاب بنیادی طور امام ابن ابی داؤد کی کتاب المصاحف کا پہلا محققہ ایڈیشن ہے، اس میں اس مستشرق نے ابن ابی داؤد نے مختلف صحابہ اور تابعین کے مصاحف میں قرآنی آیات کا جو فرق پایا جاتا ہے، اس کو اجاگر کیا ہے، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مختلف مصاحف کے اختلاف اور تحریف  پر اس قدیم ترین کتاب میں شواہد موجود ہیں۔ اس کے لئے آپ کتاب المصاحف کو دیکھئے۔ ہماری چھٹی حس کہتی ہے کہ ان دونوں کتابوں کے مترجم کوئی شیعہ مسلک ہیں۔ اسے کہتے ہیں رائی کو پربت بنانا۔معرض میں ایک اور کتاب ( فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب۔ حسین النوری النورسی  ) کا محققہ نسخہ (۹۸۷صفحہ ) بھی اس کے مقدمہ کی وجہ سے خریدنا پڑا، قیمت چار پانچ گنا زیادہ تھی، لیکن یہ چیزیں  ملتی کہاں ہیں؟۔

 پہلے بھی ہم نے عرض کیا تھا، کہ معروضی انداز میں محنت سے تیار کیا گیا مواد نئی نسل کے دانشوراں کو متاثر کرتا ہے، پہنچے چڑھا کر ہم اپنے معدودے چند مریدین اور عقیدت مندوں کو تو سمجھا سکتے ہیں، لیکن انہیں سمجھانے کی کیا ضرورت؟یہ تو  خود پہلے سے سمجھے ہوئے ہیں،لیکن جنہیں مطمئن کرنا ہمارا فرض بنتا ہے، ان کے سلسلے میں ہم عموما مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ ان حالات میں کیا ہماری جواب دہی کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی؟۔ آپ بھی سوچئے، اور مجھے اجازت دیجئے۔