بات سے بات: پیر مرشد کی ضرورت۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

08:28PM Wed 16 Jun, 2021

آج بزرگوں کی صحبت اٹھانے کی بات کیا آئی کہ بحث کا رخ ہی مڑ گیا، ایک عام سی بات ،تصوف کی مخصوص اصطلاح  اور شیخ کی ضرورت تک جاپہنچی، چونکہ ہم اس میدان میں کورے ہیں، اور اگر اس سلسلے میں کچھ واقفیت ہے تو اتنی کہ ڈرائیور کا مصاحب خود کوڈرائیور سمجھ بیٹھے، اور کہنے لگے کہ مجھے بھی ڈرائیونگ آتی ہے۔

اس سلسلے میں ہم سمجھتے ہیں، کہ انسانی زندگی میں روحانی قبض، غمی خوشی ، اجتماعی اورانفرادی ایسے کئی معاملات آتے ہیں، جہاں اسے ایک ہمدرد، غمگسار، رہنما اور شریک کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا ہر شخص کی زندگی میں ایک ایسے انسان کی رفاقت ہونی چاہئے جو اس سے بڑا ہو، اپنی رائے کو اس کے سامنے سرنڈر کرسکے، اس کی بات بلا چون وچرا مان سکے، چاہے وہ اس میں خود کو کتنا ہی حق پر سمجھتا ہو، اس طرح وہ اپنی ہر قسم کی پریشانی کو بانٹ سکے، ورنہ زندگی میں ایسے مواقع آتے رہتے ہیں، جن میں انسان کا دل پھٹ پڑنے کو چاہتا ہے، جس کا نتیجہ کبھی بھیانک صورت میں نکلتا ہے، اس کی ایک شکل مفلوج ہونا بھی ہے، یہ باتیں ہمیں روز مرہ زندگی میں نظر آتے رہتی ہیں۔ صوفیہ کا اصطلاحی شیخ ومرشد اس ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ بعض ایسی چیزیں بھی نتھی ہوجاتی ہیں جو اس موضوع کو متنازع فیہ بنا دیتی ہیں۔

اپنے گاؤں کے بزرگوں میں ایسی کئی ایک مثالیں نظر آئیں، ایک بزرگ خالص تصوف وسلوک کی راہوں پر چلنے والے تھے، انہیں دیکھا کہ اپنے بزرگوں سے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں استفسار کرتے اور رہنمائی طلب کرتے تھے، بزرگوں کے سامنے اپنی رائے یا من کی بات کہنا اکابر کی شان سے فروتر سمجھتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ بزرگوں کو بتانے کی ضروت نہیں، وہ سبھی معاملات سمجھتے جانتے ہیں، ہمیں انہیں کوئی مشورہ یا رائے نہیں دینی چاہئے، بعض تنازعات میں بھی ان کا یہی رویہ رہا، انہوں نے جہاں ان کے بول کا انتظٓر تھا چپی سادھ لی۔

اس کے مقابلے میں ہم نے اپنے سرپرست جناب محی الدین منیری مرحوم کو بھی دیکھا، انہیں بھی برصغیر کے اپنے وقت کے سبھی اکابرین سے گہرا تعلق تھا، ان کا وہ بڑا احترام کرتے تھے، اور انکے عالی مقام کا بڑا خیال رکھتے تھے، ان کا تعلق ان اکابر سے نیازمندانہ سے زیادہ خادمانہ تھا، چونکہ انتظامی امور سے وابستگی تھی، اور بہتوں کے کام ان سے بنتے تھے، لہذا عموما اکابر ان سے برابری کا رویہ اپناتے تھے، اور ان کی جانب سے بیعت کے لئے ہاتھ بڑھانے پر انہیں اپنے سے  بڑے دوسروں کے پاس بھیجدیتے تھے،منیری صاحبہ اپنے ان بزرگوں کے ساتھ صراحت کا معاملہ رکھتے تھے، جو بات بتانے کی ہوتی تھی، وہاں یہ سوچ کر کہ انہیں یہ سب معلوم ہےسمجھ  کر خاموش نہیں بیٹھتے تھے، بلکہ اپنی بات ان کے سامنے رکھتے تھے۔ ہمیں ثانی الذکر کا طریقہ زیادہ پسند آیا۔

یہ بات اس لئے یاد آئی کہ کبھی ہم محسوس کرتے ہیں، کہ ہمارے وہ حضرات جن کو اللہ تعالی نے علم وفضل سے نوازا ہے، ایک بڑی عمر دین سیکھنے اور سکھانے اور اس کی خدمت میں گذاری ہے، لیکن عشرے گذرنے کے باوجود ان میں خود اعتمادی پیدا نہیں ہوتی، اور شیخ کی طرف سے رہنمائی کی ضرورت کے احساس سے مبالغہ کی حدوں کو پار کرتے ہیں۔

حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس دنیا میں تعلیم وتربیت کا ایک فطری نظام انسانوں کو دیا ہے، یہی دیکھئے ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے، تو پہلے ماں اپنے سینے سے لگا کر اسے دودھ پلاتی ہے، پھر جب وہ کچھ کھانے کے قابل بنتا ہے، لیکن ابھی دانت نہیں نکلے ہوتے ہیں تو پھر غذا چبا چبا کر اسے کھلاتی ہے، پھر اپنے ہاتھ سے نوالا بنا کر دیتی ہے، دو ڈھائی سال کے عرصے میں پہلے دودھ چھوڑ دیتی ہے، پھر چبا کر منہ میں ڈالنا بند کردیتی ہے، اور تین چار سال کے اندر اندر مکمل طور پربچہ اپنے ہاتھ سے کھانا پینا شروع کردیتا ہے، اور کون سی چیز کھانی ہے اور کون سی نہیں کھانی اس کا اسے پتہ چل جاتا ہے، لیکن ماں اس عمر کے بعد بھی چبا چبا کر منہ میں نوالے بنا کر کھلانا شروع کرے تو کیا  پھر جوانی میں پہنچنے پر بھی یہ بچہ سوجی او کھیر کے سوا کچھ نہ کھا سکے گا؟۔ اور اس کا معدہ کوئی بھی کھانا ہضم کرنے کی صلاحیت نہ پیدا کرسکے گا؟۔ بتانے کی ضروت نہیں، آپ سمجھدار ہیں۔

تعلیم وتربیت کے میدان میں بھی انہی مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، اطفال، مکتب، اعدادی، ثانوی، عالمیت ، فضیلت ، افتاء اور تخصص کے بعد ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ ایک فارغ التحصیل کو اپنے  حاصل کردہ علم اور صلاحیت پر اعتماد کئے بغیر چارہ نہیں، ہاں وقتا فوقتا دوسروں سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ضرور پیش آئے گی، لیکن ایسا کرنا کہ ہر چھوٹی بڑی بات میں مشورہ کرے،سالہاسال تک جس علم کے حصول کے لئے محنت کی ہے، یہ رویہ اس پر بے اعتمادی کا مظہر ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جب دورہ، تخصص اور افتاء کے فارغین چھوٹی موٹی اردو کتابوں کے سلسلے میں بھی مشورہ طلب کرتے ہیں کہ حضرت ہم اسے پڑھیں یا نہ پڑھیں،  اتنے برس دن رات ایک کرکے پڑھنے کے بعد بھی شک ہونے لگے کہ اچھے اور برے ، درست یا نادرست کا فرق ہم سمجھ سکے یا نہیں، تو پھر یہ رویہ ہمارے نظام تعلیم وتربیت پر کئی ایک سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے۔ خدا کرے یہ بات ہمارے اہل علم کو سمجھ آئے۔

2021-06-17

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/