بات سے بات: مولانا عبد المجید سالک کی نظم چند اچھوتی تشبیہیں۔۔۔ عبد المتین منیری

مولانا عبد المجید سالک کے رفیق مولانا غلام رسول مہر کے فرزند جناب احمد سلیم علوی صاحب نے چند روز قبل انقلاب لاہور کی ایک پرانی فائل سے مولانا عبد المجید سالک کی اس نظم کا عکس پوسٹ کیا تھا۔
*چند اچھوتی تشبیہیں*
(مدیر افکار وحوادث کے قلم سے)۔
سورج سے بھی رخشندہ تراک مطلع روشن کہوں
الحمد للہ الذی لم یتخذ ولدا کہوں
جاتی ہے پٹری ریل کی کانٹا ہیں جس کا مالوی
اور سوامی شردھانند کو اس ریل کا انجن کہوں
فطرت میں جس کی رچ گئی اسلامیوں کی دشمنی
پھر کیوں نہ اس بد بخت کو اس دیش کا دشمن کہوں
پیروں کی خلوت گاہ پر پڑجائے گر میری نظر
زانوئے فکر پیر کو میں کوک کا آسن کہوں
قابیں چنی جانے لگیں تنظیم اورتبلیغ کی
کچلو کی چٹنی کا بدل نیرنگ کا چورن کہوں
کیا کیا لقب دوں قادیاں، تیرے صلیبی کعبہ کو
روما کہوں؟ برلن کہوں؟ پیرس کہوں؟ لندن کہوں؟
یہ نظم ہم نے علم وکتاب گروپ پر فورورڈ کی تھی، مقصد اس کا مولانا سالک کے قادیانیت کے سلسلے میں موقف کی طرف ایک اشارہ تھا، کیونکہ یہ بحث کئی روز قبل گروپ پر آئی تھی، اور اس کی وضاحت اس وقت ہوچکی تھی، یہ اس کی توثیق کرتی تھی۔
بیسویں صدی کے آغاز سے تقسیم ہند تک متحدہ پنجاب مختلف ادبی دینی معرکوں کی رزم گاہ رہی ہے، ان معرکوں میں ارتداد ،آریہ سماجی تحریک، شدھی سنگھٹن، قادیانیت، اور اسلام کی حقانیت اہم موضوع رہے ہیں۔
ان معرکوں کی تاریخ اس وقت کے اخبارات کی فائلوں میں بند ہے، ابھی ان پر کوئی تحقیقی کام نظر سے نہیں گذرا، بس چھٹ پٹ تذکروں میں اس وقت کام کرنے والی شخصیات کے نام نظر سے گذرتے ہیں۔
یہ زمانہ اردو صحافت کے شباب کا زمانہ ہے، اس دور میں اردو کے چوٹی کے اخبارات نکلے، جو اپنے مدیران عظام کی وجہ سے پہچانے گئے، ان میں مولانا ابو الکلام کا الہلال، مولانا ظفر علی خان کا زمیندار، اور مہروسالک کا انقلاب بڑی شہرت کے حامل ہیں۔ چونکہ ان کے مدیر بہ یک وقت چوٹی کے ادیب و شاعر بھی تھے، لہذا یہ اخبارات ادبی صحافت کی بھی بہترین نمائندگی کرتے تھے، ان میں حالات حاضرہ پر چوٹی کی نظمیں شائع ہوتی تھی، جو دلوں کو گرماتی تھیں۔ آزادی کا سور پھونکنے اور عالم اسلام کے حالات پر ولولہ انگیری پیدا کرنے میں اس شاعری کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔
آج اس سلسلے میں لوگوں کو صرف علامہ اقبال کا نام یاد رہ گیا ہے، لیکن اس سلسلے میں علامہ شبلی ان کے پیشرو تھے، الہلال اور اس سے پہلے کے پرچوں میں علامہ شبلی ہی کی نظمیں دلوں کو گرمایا کرتی تھیں، ظفر علی خان بھی اس میدان میں ہماری یادداشت کے مطابق اقبال کے پیشرو ہیں۔ لیکن شبلی، ظفر علی خان ، شورش، عبد المجید سالک وغیرہ کے شاعری مرور زمانہ کے ساتھ گم ہوگئی، اس کا بڑا سبب اس شاعری کا وقتی حالات کے ساتھ مربوط ہونا تھا، اس سلسلے میں مسدس کے مولانا حالی کوان سب کا امام کہا جاسکتا تھا، لیکن حالی کے یہاں(( چلو تم وہاں کو، ہوا ہوجدھر کی)) نے ان سے یہ امامت چھین لی، کیونکہ شبلی، ظفر علی خان کے یہاں مرعوبیت نہیں تھی۔ یہ بلندی سے اپنی بات کرتے ہیں۔ اقبال سے پیش رو جن شاعروں نے برصغیر کو جگایا ہے، اور عالم اسلام کا درد ان کے دلوں میں پیدا کیا ہے، یہ ایک مستقل موضوع ہے، جس پر مستقل تحقیقی کاموں کا انتظار ہے۔
2021-08-21