۔((مسلم تاریخ کے روشن دور کا ایک سنہرا باب)) سے ایک مضمون گروپ میں پوسٹ ہوا ہے، اس سلسلے میں عرض ہے کہ:۔
یہ ماضی کا قصہ نہیں ہے اب بھی ہوسکتا ہے، قریبی دور میں اس کی مثالیں ملک شام میں دیکھی گئی ہیں، ۱۹۸۱ء میں یہاں کے حالات بہت زیادہ خراب ہونے شروع ہوئے، اور ایک اسلامی تحریک کے افراد اور علماء سے یہ ملک تقریبا خالی ہوگیا، تو عام طور پر لوگوں میں مشہور ہوا کہ دین اس ملک سے خالی ہوگیا ہے، لیکن حقیقت ایسی نہیں تھی، یہاں کے چند مخلص علماء نے سیاست سے بلند ہوکر علم دین کی ترویج پر اپنی توجہ مرکوز رکھی، اور احیاء دین کے لئے بڑی جدوجہد کی، ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ہم ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مجلس میں موجود تھے، تو انہوں نے فرمایا تھا کہ کون کہتا ہے کے ملک شام سے علم دین رخصت ہوگیا؟۔ آج مساجد میں ہمارے اور مختلف علمائے دین کے علمی دروس ہوتے ہیں، جن میں پانچ پانچ ہزار افراد کا شریک ہونا عام بات ہے، یہ بات پہلے کہاں تھی؟۔
ہمارے ایک عالم دین جو اس وقت اپنی اوٹ پٹانگ باتوں کی وجہ سے نکھٹو اورناپسندیدہ بن گئے ہیں، وہ کوئی پندرہ سال قبل دمشق اور شام ہوکر آئے تھے، انہوں نے واپسی پر بتایا تھا کہ حیرت ہوتی ہے، شیخ نور الدین عتر وغیرہ علماء نے یہاں پر اس دوران علم حدیث وغیرہ کو ترویج میں بڑی محنت کی ہے، انہوں نے ایک مدرسے کی زیارت کی جہاں ایک نہیں بیسیوں ایسی طالبات پائی جاتی تھیں، جنہیں صحاح ستہ ،اور اس کی کتابیں صحیح بخاری وغیرہ مکمل ازبر یاد تھیں،یہ بات ہمارے ڈپارٹمنٹ کے ایک وفد نے بھی وہاں کے مراکز تحفیظ کےایک سرکاری دورے کے بعد ہمیں بتائی تھی۔
لیکن کیا کہا جائے ان بے وقوفوں کے غلط تخمینوں کواور زمینی حقائق دیکھے بغیر کئے جانے والے تجزیوں کو، جنہوں نے سب کچھ خس وخاشاک میں ملا دیا۔
اس کے باوجود بھی ابھی ارض شام سے امیدیں کم نہیں ہوئی ہیں ، اب بھی وہاں پر ایسے اہل علم پائے جاتے ہیں جنہوں نے تعلیم دین کی مسندیں سجائی ہوئی ہیں ، انقلاب اور خون رزیزی کے ہنگاموں کے دوران بھی انہوں نے اپنا فریضہ نہیں بھلایا، جس قدر اس دوران علم دین کی درسی کتابوں کے معیاری دروس کی مجالس یہاں سے آن لائن نظر آئیں ، کہیں اور سے کم از کم ہمارے علم میں نہیں آئیں۔