بات سے بات: امام غزالیؒ اور مولانا گیلانی کی رائے۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

09:04PM Mon 8 Mar, 2021

مولانا عزیر فلاحی صاحب نے مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ کی یہ رائے پیش کی ہے کہ ((امام غزالیؒ کے بعد ہونے والے تمام دینی انقلابات کے پیچھے غزالیؒ ہی کا ہاتھ ہے))، جہاں تک اس سلسلے میں ناقدانہ رائے کا تعلق ہے تو ہمارے اکابر ہی کچھ بتائیں گے، لیکن امام غزالیؒ کے تعلق سے چند باتیں ہمارے ذہن میں بھی پھدکنے لگیں، تو انہیں پیش کرنا ہم نے مناسب سمجھا، واضح رہے کہ امام غزالیؒ جن علوم وفنون کے امام تھے، ا ن میداںوں میں اس ناچیز کو کوئی مہارت حاصل نہیں  ان ٹوٹی پھوٹی چند سطور کا مقصد صرف ایک تحریک پیدا کرنا ہے۔

اردو میں جو تاریخیں اور اکابر کی سوانح لکھی گئی ہیں، ان کے بارے میں ہمارا ذاتی تاثر یہ ہے کہ عموما مصنفین نے وہ بتانے کی کوشش نہیں کی جو واقعتا یہ ہیں، بلکہ وہ جیسا دکھانا چاہتے ہیں ویسا دکھانے پر ساری توجہ مرکوز رکھی ہے، ان میں امام غزالیؒ کی بھی شخصیت ہے جن کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن صحیح بات تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا، آج امت مسلمہ جن حالات سے گذر رہی ہے، امام غزالیؒ کے دور پر نظر دوڑائی جائے تو ایسا لگتا ہے، کہ آج عالم اسلام میں وہی دور لوٹ آیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس زمانے میں امام غزالی ؒ نے جو علمی وفکری کام سر انجام دیا، اور جو حکمت اپنائی،  اس کا بے لاگ تجزیہ کرکے ،ان سے رہنمائی حاصل کی جائے، اور جہاں اختلاف کی ضرورت ہو اس میں اندھی تقلید کئے بغیر آگے بڑھا جائے۔

۔ امام صاحب کے دور کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ صلیبی جنگوں کا دور عروج تھا، اور اس وقت تحریک جہاد کی ضرورت سب سے زیادہ محسوس ہوتی تھی۔

۔ امام صاحب ہی کے زمانے میں حشاشین کی باطنی تحریک نے زور پکڑا، یہ تاریخ کی پہلی دہشت گرد تحریک تھی، جس میں باطنیوں نے اختلاف فکر کو برداشت نہیں کیا، اور اپنی فکر سے اختلاف یا مزاحمت کرنے والوں کو آنکھوں پر پٹی پڑھے اندھے معتقدین کو قربان کرکے راستے سے ہٹا دیا۔

۔ امام غزالئ کی کتاب احیاء علوم الدین کا  شمار پندرہ سو سالہ اسلامی لٹریچر کی  تاریخ کی موثر ترین کتابوں میں شمار ہوتا ہے، لیکن اس میں امام صاحب نے تمام ارکان اسلام کا ذکر کیا ہے، لیکن یہ اہم کتاب جہاد کے باب سے خالی ہے۔ لیکن کتنی حیرت کی بات ہے کہ اس دور کے عظیم ترین مجاہد اور سلطنت مرابطین کے امیر یوسف بن تاشفین رحمۃ اللہ علیہ نے آپ ہی کی ہدایت اور مراسلت پر اندلس پر حملہ کرکے وہاں کے مسلمانوں کو صلیبیوں سے نجات دلائی۔ اور از سرنو اس پر مسلم تسلط کو مضبوط کیا۔

۔ امام صاحب کے نظر یہ شک کو یورپ کے محققیں نے حرز جان بنایا، اس نظریہ کو ڈیکارٹ نے اپنا کر نئی دنیا میں پھیلایا، اور اسی سے طہ حسین جیسے ادیبوں نے نقل کرکے عرب دنیا میں  اس فکر کوعام کیا۔ اور لبرل افکار کے حاملین نے امام صاحب کی تعریفوں نے اس کے لئے تعریفوں کے پل باندھ دئے۔

۔ دوسری جانب آج کے  لبرل فکر لوگوں نے امام صاحب پر مسلم دنیا کے عقلی و تحقیقی میدانوں میں پس ماندگی اور زوال کا ٹھیکرا پھوڑا،  اور آپ کو بدنام کرنے میں تمام اخلاقی حدیں پار کیں کہ امام صاحب نے وحی کے بالمقابل عقل کا انکار کرکے دنیا کو عہد جاہلیت میں ڈھکیل دیا۔

۔ امام صاحب عظیم اصولی اور فقیہ بھی تھے، آج  مذہب شافعی کا دارومدار آپ کی کتابوں البسیط، الوسیط۔الوجیز اور المختصر پر ہے،آپ کی کتاب الوجیز کی شرح امام عبد الکریم رافعیؒ نے العزیز کے نام سے (۲۳) جلدوں میں لکھی، اس کاخلاصہ امام نووی نے (12) جلدوں میں روضۃ الطالبین کے نام سے کیں، پھر اس کا خلاصہ منہاج الطالبین کے نام سے کیا، جس کی بیسیوں شرحیں ہیں، جن میں امام جلال الدین محلیؒ کی کنز الراغبین، خطیب شربینی کی مغنی المحتاج، ابن حجر مکی کی تحفۃ المحتاج، رملی کی نہایۃ المحتاج، پھرشیخ الاسلام زکریا الانصاری کا اس کتاب کا خلاصۃ منھیج الطلاب، اور اس کی مفتی بہ شرح ،صرف نام گنانے پر آئیں تو صفحات کے صفحات بھر جائیں، اور فہرست تمام نہ ہو۔ امام رافعی اور امام نووی جس رائے پر متفق ہوں، وہ رائے مذہب شافعی میں سب سے معتمد علیہ مانی جاتی ہے۔

 شرح الوجیز کی احادیث کی تخریج میں امام ابن الملقن، امام بدرالدین الزرکشی، امام ابن جماعۃ، ابو امامۃ ابن النقاش، اور حافظ ابن حجر جیسے حفاظ حدیث نے تخریج کی۔

ایسی شخصیت کے سلسلے میں صرف کتاب المناقب جیسی کتاب لکھ کر گزر جانا آپ کے ساتھ ایک بڑا ظلم ہے، ہمیں تاریخ نویسی کے رایج اسلوب کو بدلنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس سے کسی کی عظیم شخصیت کی زندگی کی صحیح عکاسی نہیں ہو پاتی، رہنمائی کے لئے سبھی پہلو سامنے نہیں آتے، ہماری تاریخ نویسی  میں جو رویہ اپنا یا گیا ہے اس کے نتیجے میں عموما یا قاری آنکھیں بند کرکے معتقد ہوجاتے ہیں، یا پھر شدید مخالف اور ناقد، رہنمائی اور سبق حاصل کرنے کا مقصد کہیں کھوجاتا ہے، اس کے لئے ٹھنڈے دل ودماغ سے  علمی و تحقیقی سفر کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔اللہ کرے وہ دن جلد لائے۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/