بات سے بات: امام غزالی کا مرتبہ ومقام۔۔۔ از: عبد المتین منیری۔۔۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

07:29PM Thu 15 Jul, 2021

سوال کئی طرح کے ہوتے ہیں، جب ان میں طلب شامل ہوتی ہے،تو یہ باعث برکت ہوتا ہے، اور اس کا فائدہ مستفسر اورسامع  دونوں کو ہوتا ہے، لیکن سوال کبھی خالی الذہن افراد کا ذہن پراگندہ کرنے کا باعث بنتا ہے اور کبھی کسی کی تشہیر کا۔ لہذا میڈیا میں میں ہم روز سنتے ہیں کہ فلان اینکر نے فلان انٹرویو میں فلان شخصیت سے فلان سوال پوچھنے کے لئے اتنے لاکھ روپئے لئے، اسی طرح بلا ضرورت معروضی انداز میں پیش ہونے والی بات بھی ذہنوں میں نئے اشکالات پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔

آج گروپ میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے عربی زبان پر عبورکے سلسلے میں بعض ممبران نے بات کی ہے،  یا یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ امام زمخشریؒ جیسی زبان پر انہیں قدرت حاصل نہیں تھی۔

ہمارے خیال میں یہ بات کچھ ایسی ہی ہے کہ کہا جائے کہ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ کو حضرت مولانا علی میاں ندویؒ جیسی عربی نہیں آتی تھی،یہ بات برسبیل تذکرہ اور بغیر کسی محل کے کہی جائے تو اکابر کی  شان میں گستاخی ہی  شمار ہوگی۔ چاہے اس کی حقیقت کچھ بھی ہو۔

امام غزالیؒ کی عظمت شان اور ان کے علمی کاموں کے مختلف پہلؤوں کو اجاگر کرنے کے لئے مزید علمی اور تحقیقی کاموں کی ضرورت اب بھی باقی ہے، مثلا خود ہمارے شوافع حضرات اس بات سے عموما ناواقف ہیں کہ امام غزالی کا مقام مذہب شافعی میں کیا ہے؟

شاید احباب کو تعجب ہو کہ تدوین مذہب کے بعد مذہب شافعی کے لٹریچر کا زیادہ تر دارو  مدار امام غزالیؒ کی کتابوں پر ہے، مثلا امام صاحب نے فقہ شافعی میں تین عظیم کتابیں چھوڑیں،البسیط، الوسیط، الوجیز اور خلاصۃ المختصر۔

امام صاحب کے بعد آنے والوں میں امام رافعیؒ اور امام نوویؒ کو شوافع کے یہاں ترجیح حاصل  رہی، امام رافعیؒ نے امام غزالیؒ کی کتاب الوجیز کی شرح العزیز لکھی، اور فقہی لٹریچر میں  العزیز کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی احادیث کی تخریج میں جتنی کتابیں لکھی گئیں کسی اور کتاب کی  تخریج میں نہیں لکھی گئیں، ان  میں امام ابن الملقنؒ کی البدر المنیر، اور پھر خلاصۃ البدر المنیر، اور الحوت کی مختصر البدر المنیر، امام بدر الدین الزرکشیؒ، اور حافظ ابن حجرؒ کی معرکۃ آراء التلخیص الحبیروغیرہ کتب تخریج جو احادیث احکام کی تخریج میں بنیادی مقام رکھتی ہیں۔اسی کتاب سے متعلق ہیں۔

امام نوویؒ  نے امام غزالیؒ اور امام رافعیؒ کے تفقہ کو اپنی کتاب روضۃ الطالبین اور پھر فقہ شافعی کے مشہورو معتمد ترین متن منھاج الطالبین میں سمو کران کی تنقیح کی، پھر آئندہ آنے والے  فقہاء نے منھاج  الطالبین کی اتنی شرحیں لکھیں کہ شاید ہی کسی فقہ کی کتاب کی اتنی شرحیں لکھی گئی ہوں، منھاج الطالبین کے اختصارات منھج الطالب اور شیخ الاسلام زکریا الانصاریؒ کی اس پر شرحیں وغیرہ آئیں، جو فقہ شافعی کی مفتی بہ کتابیں سمجھی جاتی ہیں، اور بعد میں مذیب شافعی کے فقھاء نےفقہ کی جو روشنی پھیلائی اس کا سرچشمہ امام غزالیؒ ہی کی ذات قرار پاتی ہے۔

بحث کے دوران شیخ اسماعیل حقی برسوی رحمۃ اللہ کا حوالہ بھی آیا ہے، آپ کی تفسیر روح البیان صوفیہ کے نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے، آپ نے اپنی تفسیر میں  حدیث( من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار) کی تشریح کرتے ہوئے، حضورﷺ پر جھوٹ بولنے اور آپ کے لئے جھوٹ بولنے میں فرق  کیا ہے، اور آپ ﷺ کے لئے جھوٹ بولنے کو بعض دفعہ جائز اور واجب قرار دیا ہے، جس نے موضوع احادیث کو ہمارے مذہبی لٹریچر میں گھسنے کا جو جواز پیدا کیا ہے اظہر من الشمس ہے،یہ ایک الگ بحث ہے، اس وقت اس کی گنجائش نہیں، لیکن اتنا ضرور کہ سکتے ہیں کہ حقی کا حوالہ لانے سے بات کا وزن بڑھنے کے بجائے گھٹتا ہے۔ واللہ ولی التوفیق

2021-07-14