بات سے بات: ملیشیا کا عالمی مقابلہ حسن قراءت۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

12:33PM Wed 12 May, 2021

اب تو لوگ بھول بھال گئے ہیں، حیدرآباد دکن کے پرانے لوگوں کو بھی شاید یاد نہ ہو کہ یہاں پر ایک قاری ہوا کرتے تھے، اپنے دور کے بہت ہی مشہور، قاری عبد الباری مرحوم، نظام کے دور میں آپ کی تلاوت سے ریڈیو حیدراباد سننے والوں کی صبحیں روشن ہوا کرتی تھیں، ہم نے انہیں ۱۹۷۱ء میں دیکھا تھا، اس وقت آپ نے قرآن مجید کا ترجمہ مکمل کیا تھا، اور اس کی اشاعت کی فکر میں ہمارے مولانا سید عبد الوہاب بخاری علیہ الرحمۃ کے پاس آئے تھے۔

بخاری صاحب شخصیت بڑی عظیم تھی، فجر بعد طلبہ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرنے بیٹھتے، اور مغرب بعد بردہ شریف پڑھنے، آپ نے زندگی کا بڑا حصہ مدراس یونیورسٹی، پریزڈنسی کالج اور نیو کالج میں گذارا تھا، ان کے شاگردوں کی تعداد لاتعداد تھی،جن میں ایک بڑی تعداد بڑے بڑے اعلی منصبوں تک پہنچی ہوئی تھی، ان میں صاحب ثروت لوگ بھی تھے،لیکن آپ کا پورا کنبہ صرف میاں بیوی پر مشتمل تھا، اور زندگی بڑی زاہدانہ تھی، ان سے ملنے صبح وشام بڑے صاحب حیثیت اور چھوٹے ضرورت مند سبھی آتے، مولانا کسی کو واپس نہیں بھیجتے تھے، ضرورت پڑتی تو اپنے نیازمندوں کی جیب میں ہاتھ ڈال کر لوگوں کی ضرورتیں پوری کیا کرتے تھے، مولانا کی آنکھوں میں جو کشش تھی، اور آپ کی زبان میں جو اثر تھا، شاذ ونادر ہی کہیں نظر آیا۔

حیدرآباد دکن ایک زمانے میں اہل علم اور ہنر مندوں کا شہر تھا، اس نے قرطبہ اور غرناطہ کی یاد تازہ کی تھی، یہاں پر حفظ قرآن اور علم قراءت کا اہتمام بھی بہت پایا جاتا تھا، قراءت عشرہ کے جید اساتذہ یہاں موجود تھے۔

اس علاقے کے مرزا بسم اللہ بیگ نے تذکرہ قاریان ہند کے عنوان سے اچھی خاصی کتاب یاد گار چھوڑی ہے، اس وقت تک ان میں سے چند ایک ہی بڑے اساتذہ رہ گئے تھے، انہیں دیکھنے اور سننے کا ہمیں بھی موقع نصیب ہواتھا، لیکن اس وقت ہمارے شعور کی تکمیل کہاں ہوئی تھی؟

قاری عبد الباری حیدرآبادی مرحوم سے اس وقت پہلی مرتبہ معلوم ہوا تھا، کہ ملیشیا کے پایہ تخت کوالالمپور میں  یوم آزادی کی تقریبات میں عالمی حسن قراءت کا مقابلہ شامل ہے، اور اس میں شرکت کے لئے دنیا بھر سے جانے مانے قاری شریک ہوتے ہیں، اور قاری عبد الباری صاحب بھی اس کے ایک  موقرممتحن کی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں، انہی دنوں جامعہ سبیل الرشاد بنگلور کے بانی حضرت مولانا ابوالسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ کے منجھلے فرزند قاری امداد اللہ  کی ملیشیا سے اس مسابقہ میں شرکت سے واپسی پر ملاقات ہوئی تھی، اللہ تعالی نے  قاری امداد اللہ صاحب کو عین جوانی میں اٹھا لیا، ورنہ فن قراءت میں بڑا نام پاتے، اللہ نے لحن داؤدی سے انہیں نوازا تھا۔

ملیشیاء کی حکومت کی جانب سے مردیکا( یوم آزادی) کی تقریبات میں مقابلہ حسن قراءت کو اہمیت دینا، وہاں کے خاص وعام میں قرآن سے محبت کو اجاگر کرتی ہے۔ اور واقعتا اللہ تعالی نے یہاں کے لوگوں کو مرد ہوں یا عورت حسن صوت سے نوازا ہے، ہمارے ساتھی طلبہ اس زمانے میں قرءات کی سی ڈیز لاکر سنا تے تھے۔ آج نصف صدی گزرنے کے باوجود ملیشین قاریہ حاجۃ رحمس کی آواز میں پہلی مرتبہ سنی آیت (شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن) کی تلاوت کا اثر آج بھی ذہن سے تازہ ہے۔ ہم جائز ناجائز کی بحثوں میں پڑے بغیریہ ضرور چاہیں گے کہ ہماری بچیوں میں جو قرآن حفظ کرنے اور قراءت کو جو شوق بڑھ گیا ہے، انہیں ملیشیا کی ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ریکارڈ شدہ ان تلاوتوں سے ضرور استفادہ کرنا چاہئے۔ وہاں کے قراء میں قاری اسماعیل ہاشم اور قاریہ رضیۃ عبد الرحمن کا مقام بہت بلند ہے۔

(انشاء اللہ آئندہ اس سے متعلق کوئی اور موضوع)

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/