بات سے بات : ملبار کا قصبہ پوننانی اور معبر کا کایل پٹن۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

07:51PM Tue 12 Jan, 2021

آج اکولہ کے محترم ریاض خان صاحب نے  ملبار میں اسلامی تہذیب کے ایک قدیم نشان پوننانی  کا تذکرہ کیا ہے، اور وہاں کی تاریخی جامع مسجد کی تصاویر شیر کی ہیں،آج سے دس سال قبل ۲۰۱۱ء میں ہمیں بھی اس قصبے کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔

ملبار کی اسلامی تاریخ کے سلسلے میں اردو میں مواد نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ مبلغین اسلام کا اولین قافلہ یہیں کے ساحلوں پر آکر اترا تھا، کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا دور سے یہ یمن کے تاجروں کا مرکز رہا ہے، یہاں کی ایک بندرگاہ ہے کوڈنگلور، یہ بندرگاہ مسلمانوں،ہندؤوں، عیسائیوں اور یہودیوں سبھوں کے لئے تاریخی اہمیت رکھتی ہے، اور اس کے ساتھ بہت ساری داستانیں وابستہ ہیں۔ جو صحابہ رضی اللہ عنہم اور حضرت عیسی علیہ کے ایک حواری تک سے منسوب کی جاتی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ داعیان اسلام کا اولین قافلہ عہد رسالت میں یہاں آکر اترا تھا، ممکن ہے اس بات کو تاریخی شواہد سے ثابت کرنا دشوار ہو، لیکن اس میں شک نہیں کہ عہد تابعین میں توحید کے علمبرداروں نے اس سرزمین کے قدم چھوئے تھے،اس سلسلے میں روایت مشہور ہے کہ مالک بن دینارؒ اور ان کے بھائی حبیب بن دینارؒ نے اس علاقے میں کوڈنگلور سے لے کر منگلور کے قریبی قصبے بارکور تک  گیارہ مساجد تعمیر کی تھیں، یہ مساجد اپنی اصلی حالت میں تو باقی نہیں رہیں،

لیکن چند ایک جو باقی ہیں انہیں دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ پانچ چھ سوسال سے بھی زیادہ پرانی ہیں

،ان کے طرز تعمیر اور ان میں استعمال ہونے والی اشیاء کو دیکھ  کر انہیں برصغیر کی قدیم ترین مساجد میں شمار کرنا خلاف حقیقت محسوس نہیں ہوتا۔

پوننانی یا فنان قصبے کو ملبار کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ احترام حاصل ہے، اور اس احترام کے پس پشت یہاں کے علماء کی دینی امور میں مرجعیت اور یہاں سے وسیع پیمانے پر دینی علوم کی اشاعت ہے۔

ہندوستان کے آخری جنوبی سرے پر کنیا کماری کے مشرق میں خلیج منار واقع ہے، جس کے ساحل پر ایک قدیم تاریخی قصبہ کایل پٹنم ایستادہ ہے، جزیرہ سری لنکا اسی کے بالمقابل واقع ہے،یہاں پر ایک زمانے میں خلجیوں سے پہلے مسلمانوں کی سلطنت قائم تھی، جس کے گیارہ بادشاہوں کے قبریں آج بھی جگہ جگہ تلاش کرنے پر نظرآتی ہیں، جن کے سرہانے لگے قدیم پتھر، اور ان کی تحریریں بتاتی ہیں کہ یہاں سے کبھی بہار گذری تھی۔

 اب یہاں پر ماضی کی تہذیبی رونقیں ماند پڑتی نظرآتی ہیں، لیکن تلچھٹ اب بھی باقی ہے، یہاں پر عرب دنیا میں رائج تصوف کے سلسلوں قادریہ اور شاذلیہ کی خانقاہیں اب بھی آباد ہیں، ذکرو اذکار کی مجلسیں اب بھی سجتی ہیں،لیکن شمالی ہند کے سجادہ نشینوں کا متکلفانہ طرز زندگی ان میں نظر نہیں آتا، ان میں عموما سادگی پائی جاتی ہے، یہ علاقہ تاریخ میں کرومنڈل یا معبر کے نام سے پہچانا جاتا ہے، اور عربوں کی تجارت کے عروج کے دور میں جب جنوبی ہند کے علماء و مشائخ کے روابط ارض حرمیں اور مصر سے وابستہ تھے تو قاہرہ کی نسبت سے اسے قاہر فتن کہا جاتا تھا، یہاں کے قدیم علماء کی تحریروں میں قاہری کی نسبت اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ ماضی میں یہاں کے بزرگان دین کا تعلق ہمارے بھٹکل سے بھی بڑا گہرا رہا ہے، یہاں کے بزرگ شیخ محمد صالح کی تکیہ محلہ میں واقع خانقاہ اور مزار کا تذکرہ کئی بار اس بزم میں آچکا ہے۔

اس زمانے میں اس بزم میں اس ناچیز کا لکھنا  بہت کم تھا، زیادہ تر کتابیں اور صوتیات کی فراہمی پر توجہ مرکوز ہوا کرتی تھی، لہذا اس سفر کےتاثرات لکھنے کی تحریک نہیں ہوئی، ورنہ قارئین کویہاں کی کئی ایک باتیں نئی محسوس ہوتیں۔

کایل پٹن مسلم اکثریتی قصبہ ہے، اب بھی یہاں کے لبابین برادری سے وابستہ خاندانوں کو ٹامل ناڈو میں بہت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے،زمرد جیسے قیمتی پتھروں کی موجودگی  کے لئے یہ علاقہ شہرت رکھتا ہے، چونکہ قدیم زمانے میں یہ قصبہ سری لنکا میں واقع  مشہور قدم آدم کی زیارت کے لئے جانے والوں کے لئے پل کی حیثیت رکھتا تھا، لہذا سیاحتی نقطہ نظر سے اس کی اہمیت سیاحتی نقطہ نظر سے ملبار کی بعض بندرگاہوں سے بڑھی ہوئی تھی ۔

مشہور ملباری بزرگ شیخ احمد المعبری یمن سے یہیں کایل پٹن (معبر) آکر ٹہرے تھے، پھر یہاں سے جاکر کوچین میں اقامت پذیر ہوئے تھے۔ اوریہاں سے دعوت اور دینی علم عام کرنا شروع کیا تھا، آپ کے پوتے شیخ زین الدین بن علی بن احمد الشافعی المعبری رحمۃ اللہ علیہ نے کوچین سے پوننانی منتقل ہوکر اسے مرکزی مقام بنایا۔

کہا جاتا ہے کہ آپ کا نسبی تعلق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے،آپ کی پیدائش ۸۷۲ھ اور وفات ۹۲۸ھ کو ہوئی، روایت ہے کہ آپ نے ازہر شریف  جاکر اس زمانے کے مشہور فقہائے شافعیہ سے فیض اٹھایا، حرمین شریفین کے مشائخ سے بھی استفادہ کیا۔ جب واپس لوٹے تو پوننانی کی تاریخی جامع مسجد تعمیر کی، اور اسے علم کا مینار بنا دیا، جہاں سے دن و رات قال اللہ و قال الرسول کی  روشنی پھیلتی رہی ہے، ریاض خان نے جس تصویر کے بارے میں روشن دان کہا ہے یہ دراصل تاریخی شمع دان ہے،آج کل تو تحقیق کا موقعہ نہیں ملا، لیکن ایک سوسال قبل لکھی گئی  ایک انگریز مورخ کی کتاب میں پڑھا تھا کہ جس روز اس مسجد کا افتتاح ہوا تھا اس وقت سے آج تک اس شمع دان کی بتی نہیں بجھی، طلبہ دن و رات اس کی روشنی میں مسلسل درسیات اور دینی کتابیں پڑھتے آرہے ہیں۔ کبھی اسے بجھانے کی ضرورت نہیں پڑی، یہ مسجد ہمیشہ طلبہ علم سے آباد رہتی ہے۔

 یہ بات ذہن میں رہے کہ جنوبی ہند میں خاص طور پر مغربی ساحل پر ناریل کے تیل کا استعمال بہت عام ہے، ابھی جب بجلی نہیں آئی تھی تو مٹی کے تیل کے دیوں کو بدبو کی وجہ سے مسجدوں میں جلانا معیوب سمجھا جاتا تھا، اس کے لئے مسجدوں اور مزارات میں خاص طور پر شیشے کے شمعدانوں میں گلاس رکھے جاتے جو آدھے پانی سے بھر دئے جاتے، اور پانی پر ناریل کا تیل ڈالا جاتا جو گلاس کا پاؤ حصہ ہوتا،تیل پانی پر تیرتا، اس میں نہیں گھلتا، اس میں روئی کی ایک بتی ڈالی جاتی، جو تیل سے جلتی، ہمارے بچپن میں شب قدر، میلاد، عرس وغیرہ موقعوں  پر چندہ پیسوں کا نہیں تیل کا کیا جاتا تھا، اس وقت گھروں کی عورتوں کے پاس ریزگاری کہاں ہوتی تھی ؟ وافر تیل کو بیچ کر دوسرے اخراجات کےلئے پیسہ حاصل کیا جاتا،اب اگر چندے میں تیل دینے کا ذکر ہوتو شاید سننے والے کو تعجب ہونے لگے۔

ملبار کی معاشرتی اور دینی زندگی میں مسجد کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، مسجدیں ہی مدرسے اور دارالعلوم تھے، درسیات میں مکمل کتابیں پڑھائی جاتیں، اور سند کے لئے طلبہ آخری درجے کی سند لینے کے لئے  باقیات الصالحات ویلور چلے جاتے، ملبار میں بھی بدعات پائی جاتی تھیں جو مصر اور یمن سے منتقل ہوئی تھیں، لیکن ان کا مزاج  شمال سے کچھ مختلف تھا،ترکوں اور مغلوں سے جو بدعات ہمارے معاشرے میں داخل ہوئیں،ان میں شدت اور مبالغہ آرائی زیادہ تھی، مزارات اور قبریں ملبار میں بھی پائی جاتی ہیں، لیکن ترکوں اور مغلوں سے جوسنگ مرمر سے بنے پختہ اور اونچے اونچے مزارات مسلم معاشرے میں منتقل ہوئے، ملبار میں یہ نظر نہیں آتے، یہی دیکھئے پوننانی بھی خوش عقیدگی کا مرکز ہے، یہاں پر بھی عرس اور میلاد، پایا جاتا ہے، لیکن مخدومین کے مزارات پر ایک نظر دوڑائے، کتنا فرق نظر آئے گا، عجم اور عرب سے منتقل ہونے والی ثقافتوں میں،مزارات میں سنگ مرمرسے سجائی ہوئی قبریں ملبار میں ہم نے نہیں دیکھیں، زرا پوننانی کے مخدومین کے مزارات کی قبر کی ایک جھلک آپ بھی دیکھئے۔ اور فیصلہ کیجئے۔

مخدوم اول کے زمانے میں پہلے صلیبی سامراج نے برصغیر میں قدم رکھاتھا، اس خطرے کے خلاف آپ نے آواز اٹھائی ، آپ کی کتاب ((تحریض اھل الایمان علی جھاد عبدۃ الصلبان)) کو اس موضوع پر تاریخی سبقت حاصل ہے۔

اس سلسلے کے دوسرے بزرگ پوننانی کے مخدوم شیخ احمد زین الدین بن محمد الغزالی بن  زین الدین بن علی بن احمد المعبری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ نہ صرف پوننانی بلکہ پورے ملبار کے علاقے کے یہ سب سے مشہور عالم وفقیہ ہیں، ان کا شمار مذہب شافعی کے معتمد فقہاء میں ہوتا ہے، آپ کی کتاب فتح المعین شرح قرۃ العین کو ہمیشہ مرجعیت حاصل رہی ہے،اس کی شرحیں مصر اور حرمین کے قدیم علماء نے لکھی ہیں۔

 آپ کے زمانے میں پرتگالیوں نے اپنے قدم ہندوستان کے ساحلوں پر بہت مضبوط کئے، اور کوژی کوڈ اور دوسرے علاقوں میں تباہ کاری مچائی، آپ نے اس صلیبی یلغار کے خلاف اس وقت کی مسلم فرماں رواؤوں کو آگاہ کرنے کا بیڑا اٹھایا، آپ کی کتاب ((تحفۃ المجاہدین فی احوال البرتغالیین)) کو اس سلسلے میں ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے، یہ کتاب آپ نے سلطنت عادل شاہی کے فرماں رواں سلطان علی عادل شاہ کی خدمت میں پیش کی تھی، یہ ملبار میں اسلام کی تاریخ اور پرتغالی سامراج کے بارے میں اولین تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔

برصغیر میں اسلام کی اولین نقوش، ملبار اور کایل پٹن وغیرہ سے وابستہ تاریخ، امت کا قیمتی سرمایہ ہے، لیکن ان علاقوں میں تصنیف وتالیف، تحقیق، اورتاریخی تنقید کا ذوق عام نہ ہونے کی وجہ سے تاریخ کے بہت سے سنہرے اوراق وقت کی آندھیوں سے اڑ گئے ، یا پھرغبار نسیان میں چھپ گئے،جو باقی بچے ہیں انہیں محفوظ کرکے منظر عام پر لانا فرض کفایہ اور احسان شناسی کا مظہر ہے، لیکن اس فریضے کو کون ادا کرے؟ یہ کام محنت طلب ہے، اور چیونٹی کے منہ سے شکر کے دانے جمع کرنے کے برابر ہے۔ اور ہماری آرام طلبی اور سہل انگیزی مسلسل آڑے آرہی ہے۔ اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔

2021-01-12