بات سے بات: مکتبہ جامعہ میں سناٹا۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

06:53PM Wed 4 Nov, 2020

معصوم مرادآبادی منجھے ہوئے صحافی ہیں، ان کی تحریریں ملک وملت اور انکی ثقافت سے وابستہ امور سے آگاہی کا اہم ذریعہ ہیں، لیکن زیادہ تر جب ان کی تحریریں نظر سے گذرتی ہیں تو دل دکھی ہوجاتا ہے، آج آپ کے کالم جامعہ میں جشن مکتبہ جامعہ میں سناٹا نے ان دکھوں میں اور اضافہ کردیا۔

اردو کا کونسا قاری ہے جس کی یادیں مکتبہ جامعہ کی کتابوں سے وابستہ نہیں ہیں؟۔ ہماری نسل نے اس ادارے کی معیاری مطبوعات سے خوب خوب فائدہ اٹھایا ہے، ایک زمانہ تھا کہ بچپن میں جب اردو زبان سے کچھ شدھ بدھ ہوئی تو پیام تعلیم نظر سے گذرنے لگا، حسین حسان ندوی اس کے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے، پھر کتاب نما پر نظر پڑنے لگی، اس وقت کتاب نما میں ایسی کوئی جاذبیت نہیں تھی، کیونکہ اس میں زیادہ تر صفحات مکتبہ جامعہ کی فہرست مطبوعات کے لئے ہوا کرتے تھے، اس زمانے میں مکتبہ جامعہ کی مطبوعات بڑی معیاری ہوا کرتی تھی، اس کتابوں کا سائز ہاتھوں پر بوجھ نہیں بنتا تھا، بس پر آتے جاتے بھی انہیں بہ آسانی پڑھا جاسکتا تھا، اور اگر قمیص کی جیب بڑی ہو تو اس میں چھپایا جاسکتا تھا، کتابوں کاایک جیبی سائز بھی ہوتا تھا،یہ سب اب خواب کی باتیں ہیں، اسی زمانے میں معیاری ادب سیریز کے نام سے حکومت کشمیر کی مدد سے اردو کے ادب عالیہ کی کتابوں کی اشاعت شروع ہوئی تھی، جو سبھی ہماری نگاہوں سے گزرچکی تھیں، پھر ۱۹۸۰ کی دہائی میں شاہد علی خان نے اس ادارے سے وابستہ ہوکر اسے چار چاند لگادئے۔اور کتاب نما کو ایک ایسا معیاری پرچہ بنا دیا جس کا ہر ماہ انتظار رہتا تھا، اسی میں ″مانگے کا اجالا″ کے عنوان سے دوسرے مجلات سے منتخب مضامین کی اشاعت شروع ہوئی، مشفق خواجہ اس پرچے کو بہت عزیز رکھنے لگے، آپ کا کالم باقاعدگی سے اس مجلہ کی زینت بنتا تھا، اسی طرح مکتبہ جامعہ کے وقار کا یہ عالم بنا کہ پاکستانی مصنفین کی کئی ایک مقبول اور اہم کتابیں اپنے وطن سے پہلے یہاں سے شائع ہوئیں، ان میں سے ڈاکٹر طاہر مسعود کی کتاب ″یہ صورت گر کچھ خوابوں کے″ اور آصف جیلانی کی کتاب″ وسط ایشیاء کے مسلمان″ ہمارے ذہن میں اب بھی تازہ ہیں، رضاعلی عابدی کی کتابیں بھی ابتدا ہی میں یہاں سے شائع ہوکر مقبول ہوئیں،مشفق خواجہ کی وفات پر خاص نمبر کی اشاعت میں بھی اسے سبقت حاصل ہوئی، اس طرح پروفیسر رشید احمد صدیقی سمیت کونسے ایسے چوٹی کے ادیب اور افسانہ نگار نہیں تھے جنہیں مکتبہ جامعہ نے گھر گھر پہنچایا۔

یہ جان کر افسوس ہوا کہ اس کے مایہ ناز مینیجر شاہد علی خان کی اس ادارے سے علحدگی فطری نہیں تھی، اور یہ کہ ایک صدی گزرنے کے باوجود مکتبہ جامعہ جیسے ادارے کی اپنی کوئی عمارت نہیں ہے۔ اب جامعہ ملیہ جیسے اداروں میں اس کے لئے سرمایہ فخر اردو کے ادارے کی یہ بے قدری ہو تو وطن عزیز میں اردو زبان و ادب کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کیا معصوم مرادآبادی کی یہ آواز صدا بہ صحراء ثابت ہوگی؟

2020-11-04

https:/telegram.me/ilmokitab