بات سے بات: مدارس میں شورائی نظام۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

07:13PM Sun 10 Jan, 2021

مولانا زین العابدین صاحب نے سہ ماہی المظاہر کوہاٹ سے ایک فکر انگیز تحریر″ مدارس میں شورائی نظام کی پامالی″ کے عنوان سے پوسٹ کی ہے۔اس پر بعض احباب نے تبصرہ کیا ہے کہ ((ماشاء اللہ، بھت خوب، اس نظام میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے علاوہ دیگر ہمارے ملک کے مرکزی اداروں میں بھی کوئی نظیر نھیں ملتی))۔

اور بعض احباب نے اس ناچیز سے فرمائش کی ہے کہ اس پر کچھ اظہار خیال کیا جائے۔

پہلی نظر میں خیال ہوا کہ اس کا کیا فائدہ؟ یہ تو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے، اور اس کی بڑی وجہ ہم یہ سمجھتے ہیں کے شخصیت پرستی اور خاندان پرستی ہمارے مسلم معاشرے کی سرشت میں داخل ہے، اس رویہ کوان میں قبولیت عامہ حاصل ہے، اور کئی ایک اداروں اور جماعتوں میں جب باپ کا وارث بیٹا بنتا ہے تو ان میں استحکام زیادہ نظر آتا ہے،بہت ممکن ہے تمام اداروں میں شوری کے اقتدار اعلی کو نافذ کرنے کی عمومی تحریک اٹھائی جائے

تو آج اس کی تحریک اٹھانے والے بعض اداروں اور شخصیات کے بارے میں چپ رہنے کی صلاح دے دیں، ہم نے گذشتہ نصف صدی کے دوران بعض ایسے اداروں میں منظم منصوبہ بندی سے شخصیت پرستی اورخاندانی نظام کو فروغ دیتے ہوئے دیکھا ہے، جن کے یہاں پہلے اس کا وجود نہیں تھا، اب یہ رویہ ان اداروں کی وسعت میں ممد ومعاون ثابت ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں نسبت ایک موثر فیکٹر رہا ہے۔

شورش کاشمیری نے لکھا ہے کہ مسلمان مردوں کی پوجا کرتے ہیں اور ہندو چڑھتے سورج کے پجاری ہیں، وہ  زندوں کی پوجا کرتے ہیں، لیکن  مرنے والے قائدین کو جلد بھول جاتے ہیں، گاندھی، اور نہرو کے ساتھ  ان کا جو رویہ بنتا جارہا ہے، اوریہ اپنے کتنے مجاہدین آزادی کو یاد کرتے ہیں اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔

دس پندرہ سال قبل ایک بڑے گجراتی ہندو تاجر سے ہمارا ملنا ہوا کرتا تھا، الخبر، سعودیہ میں بھٹکل اسٹور سے ان کے بڑے دیرینہ مراسم تھے، اور غذائی اجناس میں یہ وہاں پربہت بڑے ہندوستانی اکسپورٹر شمار ہوتے تھے، ان کی زندگی کا مقصد صرف پیسہ کمانا تھا، ہولی، دیوالی اور دیگر تہواروں میں بھی وہ کمپوٹر بیٹھےشیر کا کاروبار کررہے ہوتے تھے۔ ابھی مودی وزیر اعظم نہیں بنے تھے، تو وہ کہتے تھے کہ عوام کارکردگی کو دیکھتی ہے، ہندو مسلم مسئلہ کو نہیں دیکھتی، نریندر مودی برہمچاری ہے،اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں، اسے کرپشن کی ضرورت نہیں، اور گجرات میں اس نے اچھا اڈمنسٹریشن چلایا ہے، دنیا کو اس سے دلچسپی ہے۔

یہ بھی دیکھئے آر یس یس پرچالک بھی پرہمچاری ہوا کرتے ہیں، جب عہدے پر ہوتے ہیں تو ان کی باتوں کا وزن ہوتا ہے، پھر تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دئے جاتے، کوئی انہیں یاد بھی نہیں کرتا، ان کے بارے میں بھی یہی تاثر ہوتا ہے کہ ان کے مادی مفادات نہیں ہوا کرتے، یہ جماعت اور وطن کے لئے مخلص ہوتے ہیں۔

معاشرے پر اداروں کے اثرات کو مضبوط اور پختہ کرنے کے لئے شورائی نظام ضروری ہے، کیونکہ یہ ادارے اللہ کی امانت ہیں، اور امانت میں خیانت کا احتساب فردی یا خاندانی نظام سے زیادہ شورائی نظام میں زیادہ شفاف رہتا ہے، اس سے معاشرے پر ذمہ داران کے وقار اور عزت میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ معاشرے کے سامنے یہ بات رہتی ہے کہ کسی ادارے کا ایک ذمہ دار ذمہ دار عالم دین جو معاشرے کا احتساب کرتا ہے، تو خود کو بھی وہ احتساب کے لئے پیش کرے، خود کو فردی یا خاندانی نظام کے تحت احتساب سے بالا تر نہ کرے، شوری معاشرے کو ادارے سے جڑے رکھنے اور اس کے اثر کو مضبوط کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتی ہے۔

مدارس میں شورائی نظام کو مضبوط کرنے اور معاشرے میں ان کے اثر کو وسعت صرف زبانی حساب خرچ سے نہیں ہوگی۔ اس کے لئے ہر ایک کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی ۔اس سلسلے میں مندرجہ ذیل امور پر بھی توجہ دینی لازمی ہوگی۔

۔ مدرسوں میں مقامی بچوں اور معتبر خاندانوں کے بچوں کو لانے پر خصوصی توجہ دی جائے، کمزور طبقات کے افراد عالم بن کر اپنی آخرت کو سدھاریں گے، لیکن جن طبقات کا معاشرے میں وزن ہے، وہ سو لوگوں کو بھی ساتھ لائیں گے۔

۔ مالی وسائل کی فراہمی کی مکمل ذمہ داری مجلس شوری کی ہو، جہاں ادارے کی تعلیمی ترقی وغیرہ کی بات بتانی ہو وہاں حسب ضرورت اساتذہ کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔

۔ فیصد پرعطیات کی وصولی کے نظام کو یکسر ختم کرنے پر توجہ دی جائے، جب شوری کے ممبران باوقار انداز سے وسائل کی فراہمی کی یہ ذمہ داری منظم کرے گی، تو علماء کے وقار کو زک پہنچانے والا یہ نظام دم توڑ دے گا۔ اسی طرح مالیات کے لئے مرکزی اتھارٹی ہو، کسی بھی عطیہ جمع کرنے والے کو اسے اجازت کے بغیر خرچ کرنے کا اختیار حاصل نہ ہو۔

۔ جس جگہ پر ادارہ قائم ہے، وہاں کے ہر فرد کو اپنی محنت کی کمائی ادارے پر لگانے کے لئے آمادہ کیا جائے، جب شوری کے ممبران یہ ذمہ داری لے کر جائیں گے، اور عطیہ دہندگان کو معلوم ہوگا کہ اس میں اس کے پاس آنے والے شخص کا کوئی دنیوی فائدہ نہیں تو وہ عزت واحترام کے ساتھ تعاون پیش کرے گا۔

یہ باتیں خیالی پلاؤ نہیں ہیں، ہمارے سامنے بعض ایسے ادارے ہیں جو ایک طویل عرصے سے اس پر عمل پیرا ہیں، اورمعاشرے پر ان کی پکڑ مضبوط بنتی جارہی ہے۔

کہا جاتا ہے ایک شخص قیمتی ریشمی رومال سے اپنی جوتی صاف کررہا تھا، دیکھنےوالوں نے اس سے پوچھا کہ سو روپئے کی رومال سے پانچ روپئے کا جوتا صاف کررہے ہو، تو اس نے جواب دیا کہ رومال وراثت میں مفت آیا ہے، اور جوتا میری گاڑھی کمائی کا ہے۔

جب کوئی اپنی محنت اور پسینے کی کمائی کسی کام میں لگاتا ہے تو اس کا دلی تعلق اس کام سے ہوجاتا ہے۔

 

ظاہری نظروں سے دیکھا جائے تو یہ کورونا بڑی مصیبت ہے، اس سے جو شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، ان میں دینی تعلیم کا شعبہ شاید سر فہرست ہے، اگر اس مصیبت کو رحمت میں بدلنے کا عزم مصمم کریں، اور ہمارے مدارس تنظیم نو کے ساتھ آگے بڑھیں، تو وہ دن دور نہیں جب کہ یہ دوسری قوموں کے اداروں کے لئے تنظیم نو اور شفافیت میں نمونہ بن جائیں، لیکن اس کے لئے عزم مصمم اورارادہ شرط ہے، جب یہ موجود ہوں، تو اخلاص اور توفیق الہی کے رفیق سفر ہونے میں دیر نہیں لگتی، اللہ حامی و ناصر ہو۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/