بات سے بات: علامہ شبلی اور علامہ سید سلیمان ندوی۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Bat Say Bat

03:46PM Fri 23 Oct, 2020

*بات سے بات: علامہ شبلی نعمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کا کچھ تذکرہ*

*تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل*

 

محترم  مولانا خلیل الرحمن چشتی صاحب نے علامہ شبلی نعمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کی مرتب کردہ سیرت النبیﷺ اور ان کے بارے میں جو بات  کہی ہے اس سے اختلاف کی گنجائش کم ہی ہے۔

علامہ شبلیؒ سے تعارف ہماری عمر شعور کا ساتھ رہا ہے، ابھی دس گیارہ سال کی عمر تھی، ٹھیک سے اردو پڑھنی نہیں آتی تھی، اجلاس جامعہ ۱۹۶۷ء کے تقریری مقابلے کے لئے ہماری استاد مولانا اکبر علی ندوی مرحوم ایک طالب علم کو علامہ شبلیؒ کے سیرت النبی ﷺ کا مشہور دیباچہ ((چمنستان دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں،چرخ نادرہ کار نے کبھی کبھی بزم عالم اس سروسامان سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہوکر رہ گئی ہیں)) ازبر کروارہے تھے، اور اس کی عبارت کے رعب سے ہم محظوظ ہورہے تھے،  وہ  لہک لہک  کراپنی مخصوس لے میں شبلی کی یہ رباعی پڑھتے تھے۔

عجم کی مدح کی، عباسیوں کی داستاں لکھی

مجھے چندے مقیم آستان غیر ہونا تھا

مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتمﷺ

خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا

 

تو اسے سن کرہماری پلکیں بھی بھیگ جاتی تھیں، اس کے دوسرے سال ہمارے استاد مولانا حافظ رمضان ندوی مرحوم کی زبانی عالم اسلام  کے زوال پر شبلی کی ایک اور نظم شہر(( آشوب اسلام)) کے اشعار

حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشان کب تک چراغ کشۂ محفل سے اُٹھے گا دُھواں کب تک

قبائے سلطنت کے گر فلک نے کر دیے پرزے فضائے آسمانی میں اڑیں گی دھجیاں کب تک

مراکش جا چکا، فارس گیا اب دیکھنا یہ ہے کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریض سخت جاں کب تک

تو  گویا تن بدن میں آگ سی لگ گئی،،، آج شبلی اور ظفر علی خان کے اشعار کا ذکر کم ہی زبانوں پر آتا ہے، لیکن بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر میں اپنے اشعار کے ذریعے  امت جگانے والے یہی دو شاعر تھے، اقبال کا درجہ ان کے بعد آتا ہے۔

اور پھر تھوڑی صلاحیت بڑھی تو اگلے دو تین سال کے اندر اندر عربی چہارم تک پہنچتے پہنچتے شبلی کے مقالات کی ایک بڑی تعداد پر سے نگاہیں گزر چکی تھیں، یہ علامہ شبلی کے تعلیمی مقالات ہی کا اثر  تھے جنہوں نے  ندوۃ العلماء اور اس کے نصاب سے محبت ابتدائے شعور ہی میں جانگزیں کردیا تھا۔

آج ایک سوسال بعد کسی شخصیت پر مثبت یا منفی رائے قائم کرنا آسان ہے، لیکن ہماری رائے ہمیشہ یہ رہی ہے کہ صرف مصنف یا مفکر کی تحریروں کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہ کی جائے بلکہ کوئی حتمی  فیصلے سے قبل اس مصنف یا مفکر کے زمانہ اور اس کے پس منظر کے بارے میں بنیادی معلومات ضرور حاصل کی جائیں۔ کیونکہ ہر مصنف یا مفکر اپنے ماحول اور معاشرے کا اسیر ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی جو باتیں خلاف حقیقت نظر آتی ہیں انہیں قبول کیا جائے۔ بلکہ ان کی خدمات اور مجبوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے اختلاف رائے کیا جائے۔

اب آپ سرسید احمد خان ہی کولیجئے، ان کی باتیں اور تاویلات کتنی غلط ہیں، لیکن ان کے ساتھ محمد علی لاہوری جیسا معاملہ نہیں کیا جاسکتا، جنکی تفسیر بیان القرآن پر مولانا دریابادیؒ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس میں احمدیت سے زیادہ احمد خانیت غالب نظر آتی ہے۔

دراصل عصر حاضر میں اسلام کا دفاع مختلف مرحلوں سے گذرا ہے، مغربی سامراج جب ہمارے یہاں آیا تو اپنے کاندھوں پر صلیب بھی اٹھاکر لایا، مغرب غالب تھا، اورمسلمان مغلوب ،ہر میدان میں مسلمان شکست سے دوچار تھا، یہ مغرب سے مرعوبیت کا دور تھا، اس دور نے اپنے ساتھ اسلام اور نبی اسلامﷺ کو بدنام کرنے کے لئے عیسائی مبلغین اور مستشرقین کی ایک نئی کھیپ تیار کی، اس مرعوبیت کے دور میں سرسید احمد خان پہلے شخص تھے جس نے نبی رحمت ﷺ کے دفاع میں اپنا مال ومتاع صرف کیا، اور حاکم وقت کی سیرت پاک ﷺ پر لکھی ایک زہریلی کتاب کے خلاف کتاب لکھی، یہ کتاب استشراق کے رد میں لکھی ہوئی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے۔ سر سید احمد خان کے خلاف جو بھی کہا جائے، لیکن ان سے یہ کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا۔ اس طبقہ کے مفکرین میں جسٹس امیر علی ، اور محمد چراغ علی وغیرہ کا نام آتاہے، جنہوں نےمغرب سے مرعوبیت کے عالم میں اسلام کے دفاع میں کتابیں لکھیں، اور اسلام کے حقائق کو سمجھانے میں ان سے بنیادی غلطیاں سرزد ہوئیں۔

شبلی کا دور اس کے معا بعد آتا ہے، جنہوں نے اسلام کے دفاع کے انداز کو ایک قدم آگے بڑھایا، اول الذکر طبقہ کے برخلاف آپ کا شمار روایتی علماء میں ہوتا ہے، ان کی دینی تعلیم وقت کے مشہورو معتمد علماء کے ہاتھوں پر ہوئی، لیکن انہیں سرسید احمد خان کی رفاقت بھی ملی تھی، انہوں نے ادب، تاریخ اور تحقیق میں نئی راہیں نکالیں، ان کے بعد اردو ادب وتاریخ آپ کا مرہون منت رہا ۔ اور ناقدین ادب نے انہیں چار ستونوں میں سے ایک ستون مانا، باوجود اس کے ابتدا میں  سرسید کے اثر  سے وہ مکمل نہ نکل سکے۔

آپ کی تصنیف الکلام کے مباحث پر ابھی کچھ کہنا مشکل ہے ، لیکن ہماری جب معلومات کچھ بڑھیں، شعور بڑھا تو ہیروز آف اسلام کے سلسلے میں الفاروق کے بعد المامون ایک پھانس کی طرح گلے میں اٹکی ہوئی ہے، ہماری ناقص رائے میں ہارون رشید کے بجائے المامون کا انتخاب کرکے شبلیؒ نے زیادتی کی ہے، غالبا یہی وجہ تھی جس  نے آپ کے ایک معاصر مولانا عبد الرزاق کانپوری سے الہارون لکھوائی۔

اسلام میں عجمی فکر داخل کرنے میں مامون کے دور کا بڑا ہاتھ رہا ہے، اختلاف رائے کی بنیاد پر امام شافعی کے شاگردان امام احمد بن حنبل ؒ پر ایسے ظلم توڑے گئے، کہ تاریخ میں آتا ہے کہ ان پر جو کوڑے برسائے گئے، ان میں سے ایک کوڑا ہاتھی پر پڑتا تو وہ بھی  بلک اٹھتا، اسی طرح امام شافعی کے دوسرے شاگردان محمد بن نوحؒ اور بویطیؒ کے ساتھ  اسی مسئلہ پر جو زیادتیاں اور ظلم ہوئے۔ انہیں کم اور برامکہ پر ہارون الرشید کے ظلم کو بڑا کرکے پیش کرنا اور ان ائمہ کرام پر ظلم کو ہلکا کرکے پیش کرنا تاریخی ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہارون الرشید عربی مزاج کا آخری خلیفہ تھا، مامون کے زمانے سے شیعہ فکر کا غلبہ شروع ہوا، بہت ممکن ہے برامکہ اگر ہارون الرشید پر غالب آجآتے تو پھر عجمی اسلام کی جڑیں معاشرے میں اور گہری ہوجاتیں، اور آئندہ یہی فکر سواد اعظم کی بن جاتی۔

اردو میں مولانا محمد صبغۃ اللہ مدراسی نائطی، قاضی بدرالدولۃ ؒ کی کتاب فوائد بدریہ اردو میں سیرت پر پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے، لیکن جیسا کہ ڈاکٹر محمود غازی مرحوم نے ذکر کیا ہے حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی کی کتاب مدارج النبوۃ برصغیر میں سیرت پر پہلی کتاب ہے، لیکن اس کی زبان فارسی ہے، اس کے بعد سے ۱۹۸۰کی دہائی شروع ہوتے ہوتے، اردو زبان نے سیرت پر اتنا بڑا اور قیمتی لٹریچر پیش کیا کہ اس دوران عربی زبان بھی ایسا وقیع لٹریچر تیار نہیں ہوسکا، لیکن اس کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔

علامہ شبلیؒ پہلے محقق ہیں جنہوں نے سیرت کے مصادر میں سیرت النبی پر لکھی کتابوں کے بجائے احادیث نبویہ کی سیرت نگاری میں اہمیت کو اجاگر کیا، اور اسی بنیاد پر سیرت النبی کا خاکہ تیار کیا، اگر اس وقت سیرت النبی کا  مقدمہ عرب دنیا میں متعارف ہوجاتا تو ہندوستان علماء کا امیج بہت بڑھ جاتا، اور شاید عالم عرب کے علماء کی شراکت کی وجہ سے سیرت پر مزید زیادہ وقیع لٹریچر تیار ہوتا، اور علمائے ہند کی مرجعیت اور زیادہ پختہ ہوتی، لیکن سیرت النبی کا عربی ترجمہ ابھی چند ایک سال قبل منظر عام پر آیا ہے، جبکہ علامہ شبلی کے اصولوں پردوسری معیاری کتابیں آچکی ہیں، اور شبلی کی تحقیقات پرانی ہوچکی ہیں۔اور اس کی وہ اہمیت نہیں رہی ہے جو بیسویں صدی کے آغاز میں تھی۔

علامہ شبلی نے اپنے دور میں جو کام کیا وہ وقت سے پہلے کا تھا، اس زمانے میں انہیں وہ کتابیں نہ مل سکیں جواس کے بعد منظر عام پر آئیں، وہ یہ حسرت دل میں لے کراس  دنیا سے اٹھ گئے کہ ابن کثیر کی البدایہ والنھایہ یورپ سے چھپنے کی اطلاع ہے، لیکن ابتک ان کی دسترس سے باہر ہے، اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی بے مایگی اور ضروری مراجع کی غیر موجودگی میں شبلی نے سیرت پر یہ وقیع کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس عظیم کارنامہ کی تکمیل میں سرسید احمد خان کی غیر مرئی شراکت کو نہیں بھولنا چاہئے، جس کا ذکر شیخ محمد اکرام نےکیا ہے کہ یورپ میں چھپنے والی کتابیں بہت مہنگی اور عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی تھی، سرسید یہ کتابیں منگواتے تھے، اوران کتابوں تک رسائی میں شبلی کو آزادی حاصل تھی۔

کہا جاتا ہے کہ شیخ محمد رشید رضا اپنے استاد محمد عبدہ سے اور علامہ  سید سلیمان ندوی اپنے استاد علامہ شبلی سے زیادہ بڑے عالم تھے، بہت ممکن ہے ایسا ہی ہو، لیکن شیخ اکرام جیسے شبلی کے سوانح نگاروں نے اس رائے سے اختلاف کیا ہے، لیکن علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کے سلسلے میں ہم نے یہ رائے ۱۹۷۹ء ایک چوٹی کے عرب عالم اور خطیب شیخ محمد صواف کی زبانی سنی تھی، کہ ((علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کرہ ارضی پر اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم تھے))، شیخ صواف کا تعلق عراق سےتھا، علامہ امجد الزہاوی رحمۃ اللہ علیہ کے رفقاء میں اور وہاں کی اسلامی تحریک کے بانیوں میں تھے، لندن سے نکلنے والے ہفت روزہ المسلمون میں ان کی آب بیتی شائع ہونی شروع ہوئی تھی، عالم اسلام کے بارے میں ایسی موثر اور معلوماتی آب بیتی شاید ہی ہماری نظر سے گذری ہو، لیکن وہ سلسلہ درمیان ہی بند کردیا گیا، اور اس زمانے میں اسے محفوظ کرنے کا خیال بھی ذہن میں نہیں آیا، زندگی میں جن عرب خطیبوں نے بہت متاثر کیا ان میں شیخ صواف اور شیخ صلاح ابو اسماعیل کا جواب نہیں، اللہ مغفرت کرے،شیخ صواف کو ہم نے مئی ۱۹۷۹ء میں بنک دبی الاسلامی کے افتتاح کے موقعہ پر جو اسلامی بننکنگ پر عالمی سیمینار ہوا تھا، اس میں دیکھا تھا، اس میں استاد مصطفی الزرقاء، وغیرہ شریک ہوئے تھے، ڈاکٹر نور الدین عتر مرحوم ابھی جوان تھے، شارجہ میں شیخ عبد اللہ علی آل محمود مرحوم کے سمندر کنارے قدیم مکان پر ہمارے کرم فرما مرحوم صدیق محمد جعفری صاحب لے گئے تھے، وہیں ان شخصیات  سے پہلے پہل ملاقاتیں ہوئی تھیں، اللہ ان سب کی قبروں کو نور سے بھر دے، ابھی چند روز قبل بنک دبی الاسلامی کے بانی شیخ محمد سعید لوتاہ بھی اللہ کو پیارے ہوئے، ان کی شخصیت پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، جو ذہن سے نکل گیا، اور اب سید سعادت اللہ حسینی صاحب کے اردو میں سیرت کی کتابوں پر مضمون پر بھی کچھ باتیں ذہن میں آگئی ہیں، پھر کبھی یار زندہ صحبت باقی۔

2020-10-22

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/

 بات سے بات: علامہ شبلی نعمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کا کچھ تذکرہ

 تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

محترم  مولانا خلیل الرحمن چشتی صاحب نے علامہ شبلی نعمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کی مرتب کردہ سیرت النبیﷺ اور ان کے بارے میں جو بات  کہی ہے اس سے اختلاف کی گنجائش کم ہی ہے۔

علامہ شبلیؒ سے تعارف ہماری عمر شعور کا ساتھ رہا ہے، ابھی دس گیارہ سال کی عمر تھی، ٹھیک سے اردو پڑھنی نہیں آتی تھی، اجلاس جامعہ ۱۹۶۷ء کے تقریری مقابلے کے لئے ہماری استاد مولانا اکبر علی ندوی مرحوم ایک طالب علم کو علامہ شبلیؒ کے سیرت النبی ﷺ کا مشہور دیباچہ ((چمنستان دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں،چرخ نادرہ کار نے کبھی کبھی بزم عالم اس سروسامان سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہوکر رہ گئی ہیں)) ازبر کروارہے تھے، اور اس کی عبارت کے رعب سے ہم محظوظ ہورہے تھے،  وہ  لہک لہک  کراپنی مخصوس لے میں شبلی کی یہ رباعی پڑھتے تھے۔

عجم کی مدح کی، عباسیوں کی داستاں لکھی

مجھے چندے مقیم آستان غیر ہونا تھا

مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتمﷺ

خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا

 

تو اسے سن کرہماری پلکیں بھی بھیگ جاتی تھیں، اس کے دوسرے سال ہمارے استاد مولانا حافظ رمضان ندوی مرحوم کی زبانی عالم اسلام  کے زوال پر شبلی کی ایک اور نظم شہر(( آشوب اسلام)) کے اشعار

حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشان کب تک چراغ کشۂ محفل سے اُٹھے گا دُھواں کب تک

قبائے سلطنت کے گر فلک نے کر دیے پرزے فضائے آسمانی میں اڑیں گی دھجیاں کب تک

مراکش جا چکا، فارس گیا اب دیکھنا یہ ہے کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریض سخت جاں کب تک

تو  گویا تن بدن میں آگ سی لگ گئی،،، آج شبلی اور ظفر علی خان کے اشعار کا ذکر کم ہی زبانوں پر آتا ہے، لیکن بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر میں اپنے اشعار کے ذریعے  امت جگانے والے یہی دو شاعر تھے، اقبال کا درجہ ان کے بعد آتا ہے۔

اور پھر تھوڑی صلاحیت بڑھی تو اگلے دو تین سال کے اندر اندر عربی چہارم تک پہنچتے پہنچتے شبلی کے مقالات کی ایک بڑی تعداد پر سے نگاہیں گزر چکی تھیں، یہ علامہ شبلی کے تعلیمی مقالات ہی کا اثر  تھے جنہوں نے  ندوۃ العلماء اور اس کے نصاب سے محبت ابتدائے شعور ہی میں جانگزیں کردیا تھا۔

آج ایک سوسال بعد کسی شخصیت پر مثبت یا منفی رائے قائم کرنا آسان ہے، لیکن ہماری رائے ہمیشہ یہ رہی ہے کہ صرف مصنف یا مفکر کی تحریروں کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہ کی جائے بلکہ کوئی حتمی  فیصلے سے قبل اس مصنف یا مفکر کے زمانہ اور اس کے پس منظر کے بارے میں بنیادی معلومات ضرور حاصل کی جائیں۔ کیونکہ ہر مصنف یا مفکر اپنے ماحول اور معاشرے کا اسیر ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی جو باتیں خلاف حقیقت نظر آتی ہیں انہیں قبول کیا جائے۔ بلکہ ان کی خدمات اور مجبوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے اختلاف رائے کیا جائے۔

اب آپ سرسید احمد خان ہی کولیجئے، ان کی باتیں اور تاویلات کتنی غلط ہیں، لیکن ان کے ساتھ محمد علی لاہوری جیسا معاملہ نہیں کیا جاسکتا، جنکی تفسیر بیان القرآن پر مولانا دریابادیؒ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس میں احمدیت سے زیادہ احمد خانیت غالب نظر آتی ہے۔

دراصل عصر حاضر میں اسلام کا دفاع مختلف مرحلوں سے گذرا ہے، مغربی سامراج جب ہمارے یہاں آیا تو اپنے کاندھوں پر صلیب بھی اٹھاکر لایا، مغرب غالب تھا، اورمسلمان مغلوب ،ہر میدان میں مسلمان شکست سے دوچار تھا، یہ مغرب سے مرعوبیت کا دور تھا، اس دور نے اپنے ساتھ اسلام اور نبی اسلامﷺ کو بدنام کرنے کے لئے عیسائی مبلغین اور مستشرقین کی ایک نئی کھیپ تیار کی، اس مرعوبیت کے دور میں سرسید احمد خان پہلے شخص تھے جس نے نبی رحمت ﷺ کے دفاع میں اپنا مال ومتاع صرف کیا، اور حاکم وقت کی سیرت پاک ﷺ پر لکھی ایک زہریلی کتاب کے خلاف کتاب لکھی، یہ کتاب استشراق کے رد میں لکھی ہوئی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے۔ سر سید احمد خان کے خلاف جو بھی کہا جائے، لیکن ان سے یہ کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا۔ اس طبقہ کے مفکرین میں جسٹس امیر علی ، اور محمد چراغ علی وغیرہ کا نام آتاہے، جنہوں نےمغرب سے مرعوبیت کے عالم میں اسلام کے دفاع میں کتابیں لکھیں، اور اسلام کے حقائق کو سمجھانے میں ان سے بنیادی غلطیاں سرزد ہوئیں۔

شبلی کا دور اس کے معا بعد آتا ہے، جنہوں نے اسلام کے دفاع کے انداز کو ایک قدم آگے بڑھایا، اول الذکر طبقہ کے برخلاف آپ کا شمار روایتی علماء میں ہوتا ہے، ان کی دینی تعلیم وقت کے مشہورو معتمد علماء کے ہاتھوں پر ہوئی، لیکن انہیں سرسید احمد خان کی رفاقت بھی ملی تھی، انہوں نے ادب، تاریخ اور تحقیق میں نئی راہیں نکالیں، ان کے بعد اردو ادب وتاریخ آپ کا مرہون منت رہا ۔ اور ناقدین ادب نے انہیں چار ستونوں میں سے ایک ستون مانا، باوجود اس کے ابتدا میں  سرسید کے اثر  سے وہ مکمل نہ نکل سکے۔

آپ کی تصنیف الکلام کے مباحث پر ابھی کچھ کہنا مشکل ہے ، لیکن ہماری جب معلومات کچھ بڑھیں، شعور بڑھا تو ہیروز آف اسلام کے سلسلے میں الفاروق کے بعد المامون ایک پھانس کی طرح گلے میں اٹکی ہوئی ہے، ہماری ناقص رائے میں ہارون رشید کے بجائے المامون کا انتخاب کرکے شبلیؒ نے زیادتی کی ہے، غالبا یہی وجہ تھی جس  نے آپ کے ایک معاصر مولانا عبد الرزاق کانپوری سے الہارون لکھوائی۔

اسلام میں عجمی فکر داخل کرنے میں مامون کے دور کا بڑا ہاتھ رہا ہے، اختلاف رائے کی بنیاد پر امام شافعی کے شاگردان امام احمد بن حنبل ؒ پر ایسے ظلم توڑے گئے، کہ تاریخ میں آتا ہے کہ ان پر جو کوڑے برسائے گئے، ان میں سے ایک کوڑا ہاتھی پر پڑتا تو وہ بھی  بلک اٹھتا، اسی طرح امام شافعی کے دوسرے شاگردان محمد بن نوحؒ اور بویطیؒ کے ساتھ  اسی مسئلہ پر جو زیادتیاں اور ظلم ہوئے۔ انہیں کم اور برامکہ پر ہارون الرشید کے ظلم کو بڑا کرکے پیش کرنا اور ان ائمہ کرام پر ظلم کو ہلکا کرکے پیش کرنا تاریخی ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہارون الرشید عربی مزاج کا آخری خلیفہ تھا، مامون کے زمانے سے شیعہ فکر کا غلبہ شروع ہوا، بہت ممکن ہے برامکہ اگر ہارون الرشید پر غالب آجآتے تو پھر عجمی اسلام کی جڑیں معاشرے میں اور گہری ہوجاتیں، اور آئندہ یہی فکر سواد اعظم کی بن جاتی۔

اردو میں مولانا محمد صبغۃ اللہ مدراسی نائطی، قاضی بدرالدولۃ ؒ کی کتاب فوائد بدریہ اردو میں سیرت پر پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے، لیکن جیسا کہ ڈاکٹر محمود غازی مرحوم نے ذکر کیا ہے حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی کی کتاب مدارج النبوۃ برصغیر میں سیرت پر پہلی کتاب ہے، لیکن اس کی زبان فارسی ہے، اس کے بعد سے ۱۹۸۰کی دہائی شروع ہوتے ہوتے، اردو زبان نے سیرت پر اتنا بڑا اور قیمتی لٹریچر پیش کیا کہ اس دوران عربی زبان بھی ایسا وقیع لٹریچر تیار نہیں ہوسکا، لیکن اس کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔

علامہ شبلیؒ پہلے محقق ہیں جنہوں نے سیرت کے مصادر میں سیرت النبی پر لکھی کتابوں کے بجائے احادیث نبویہ کی سیرت نگاری میں اہمیت کو اجاگر کیا، اور اسی بنیاد پر سیرت النبی کا خاکہ تیار کیا، اگر اس وقت سیرت النبی کا  مقدمہ عرب دنیا میں متعارف ہوجاتا تو ہندوستان علماء کا امیج بہت بڑھ جاتا، اور شاید عالم عرب کے علماء کی شراکت کی وجہ سے سیرت پر مزید زیادہ وقیع لٹریچر تیار ہوتا، اور علمائے ہند کی مرجعیت اور زیادہ پختہ ہوتی، لیکن سیرت النبی کا عربی ترجمہ ابھی چند ایک سال قبل منظر عام پر آیا ہے، جبکہ علامہ شبلی کے اصولوں پردوسری معیاری کتابیں آچکی ہیں، اور شبلی کی تحقیقات پرانی ہوچکی ہیں۔اور اس کی وہ اہمیت نہیں رہی ہے جو بیسویں صدی کے آغاز میں تھی۔

علامہ شبلی نے اپنے دور میں جو کام کیا وہ وقت سے پہلے کا تھا، اس زمانے میں انہیں وہ کتابیں نہ مل سکیں جواس کے بعد منظر عام پر آئیں، وہ یہ حسرت دل میں لے کراس  دنیا سے اٹھ گئے کہ ابن کثیر کی البدایہ والنھایہ یورپ سے چھپنے کی اطلاع ہے، لیکن ابتک ان کی دسترس سے باہر ہے، اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی بے مایگی اور ضروری مراجع کی غیر موجودگی میں شبلی نے سیرت پر یہ وقیع کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس عظیم کارنامہ کی تکمیل میں سرسید احمد خان کی غیر مرئی شراکت کو نہیں بھولنا چاہئے، جس کا ذکر شیخ محمد اکرام نےکیا ہے کہ یورپ میں چھپنے والی کتابیں بہت مہنگی اور عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی تھی، سرسید یہ کتابیں منگواتے تھے، اوران کتابوں تک رسائی میں شبلی کو آزادی حاصل تھی۔

کہا جاتا ہے کہ شیخ محمد رشید رضا اپنے استاد محمد عبدہ سے اور علامہ  سید سلیمان ندوی اپنے استاد علامہ شبلی سے زیادہ بڑے عالم تھے، بہت ممکن ہے ایسا ہی ہو، لیکن شیخ اکرام جیسے شبلی کے سوانح نگاروں نے اس رائے سے اختلاف کیا ہے، لیکن علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کے سلسلے میں ہم نے یہ رائے ۱۹۷۹ء ایک چوٹی کے عرب عالم اور خطیب شیخ محمد صواف کی زبانی سنی تھی، کہ ((علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کرہ ارضی پر اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم تھے))، شیخ صواف کا تعلق عراق سےتھا، علامہ امجد الزہاوی رحمۃ اللہ علیہ کے رفقاء میں اور وہاں کی اسلامی تحریک کے بانیوں میں تھے، لندن سے نکلنے والے ہفت روزہ المسلمون میں ان کی آب بیتی شائع ہونی شروع ہوئی تھی، عالم اسلام کے بارے میں ایسی موثر اور معلوماتی آب بیتی شاید ہی ہماری نظر سے گذری ہو، لیکن وہ سلسلہ درمیان ہی بند کردیا گیا، اور اس زمانے میں اسے محفوظ کرنے کا خیال بھی ذہن میں نہیں آیا، زندگی میں جن عرب خطیبوں نے بہت متاثر کیا ان میں شیخ صواف اور شیخ صلاح ابو اسماعیل کا جواب نہیں، اللہ مغفرت کرے،شیخ صواف کو ہم نے مئی ۱۹۷۹ء میں بنک دبی الاسلامی کے افتتاح کے موقعہ پر جو اسلامی بننکنگ پر عالمی سیمینار ہوا تھا، اس میں دیکھا تھا، اس میں استاد مصطفی الزرقاء، وغیرہ شریک ہوئے تھے، ڈاکٹر نور الدین عتر مرحوم ابھی جوان تھے، شارجہ میں شیخ عبد اللہ علی آل محمود مرحوم کے سمندر کنارے قدیم مکان پر ہمارے کرم فرما مرحوم صدیق محمد جعفری صاحب لے گئے تھے، وہیں ان شخصیات  سے پہلے پہل ملاقاتیں ہوئی تھیں، اللہ ان سب کی قبروں کو نور سے بھر دے، ابھی چند روز قبل بنک دبی الاسلامی کے بانی شیخ محمد سعید لوتاہ بھی اللہ کو پیارے ہوئے، ان کی شخصیت پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، جو ذہن سے نکل گیا، اور اب سید سعادت اللہ حسینی صاحب کے اردو میں سیرت کی کتابوں پر مضمون پر بھی کچھ باتیں ذہن میں آگئی ہیں، پھر کبھی یار زندہ صحبت باقی۔

2020-10-22

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/