بات سے بات: علامہ اقبال اور علمائے کرام(۱)۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل ۔ کرناٹک

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

07:14PM Mon 21 Nov, 2022

چند روز قبل علم وکتاب گروپ میں جناب وارث مظہری کا ایک کالم نظر نواز ہوا تھا، جس کا عنوان تھا (راسخ العقیدہ اسلامی فکر سے اقبال کا اختلاف  )۔اس میں علامہ اقبال نے اہل سنت والجماعت کے عقائد میں سے جن اہم امور میں اختلاف کیا ہے ان کی نشاندہی کی  گئی تھی اور آخر میں  سوال کیا تھا کہ:۔

۔۔سوال یہ ہے کہ راسخ العقیدہ اسلامی فکر سے اس درجہ اہم اختلاف کے باوجود علما وعوام کے درمیان ان کی مقبولیت میں کوئی کمی کیوں نہیں آئی؟ وہ یکساں طورپرہرحلقے میں مقبول رہے۔

۔۔سوال یہ بھی ہے کہ یہ خوش نصیبی برصغیر کے دوسرے علما اور اسکالرس کے حصے میں کیوں نہیں آسکی؟

کالم نگار نے جن امور کی جانب اشارہ کیا ہے، اگر واقعی ان کی  علامہ اقبال کی طرف نسبت درست ہے، تو یہ مسائل بڑے گمبھیر ہیں، اس موضوع پر غالبا  پہلے پہل مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے ہفت روزہ سچ لکھنؤ کے شمارہ ۲۶ جون ۱۹۳۱ء میں مصر سے موصولہ ایک مراسلہ کے جواب کے ذریعہ توجہ دلائی تھی، ممکن ہے اس زمانے میں دوسرے علماء نے بھی ان خیالات پر تنقید اور مخالفت کی ہو، لیکن ان سے شاذ ونادر ہی اب لوگ واقف ہیں، اس سلسلے میں بڑی طاقتور تنقید مصر کے دانشور ڈاکٹر محمد البھی کی ہے جو انہوں نے اپنی معرکۃ آراء کتاب (الفکر الاسلامی الحدیث وصلتہ بالاستعمار الغربی ) میں کی ہے، مولانا سعید احمد اکبر آبادی نے اس کی وضاحت اپنی کتاب(خطبات اقبال پر ایک نظر ) میں کرنے کی کوشش کی ہے،جو کہ ۱۹۸۳ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے، ہمارا احساس ہے کہ مولانا اکبرآبادی نے جہاں جہاں ان مسائل میں علامہ کا دفاع کیا ہے ان میں آپ کا انداز معذرت خواہانہ  ہے، بعض جگہوں پر مولانا نے اقبال پر کئے جانے والی تنقید  کو درست بھی قرار دیا ہے۔اقبال کے عقیدہ آخرت ، موت وزیست کے سلسلے میں آپ نے جو دفاع کیا ہے، یہ جواب دو اور چار کی طرح نہیں لگتا، اقبال سے ہمدردی کا پہلو اس میں نمایاں لگتا ہے۔

آج سے کوئی چالیس سال قبل ہم نےانہی امور کے بارے میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے گستاخانہ استفسارات کئے تھے، اور آپ سے گذارش کی تھی کہ  آپ کی کتاب نقوش اقبال اور روائع اقبال اور الطریق الی المدینۃ پڑھ کر برصغیر اور عالم اسلام کی کئی نسلیں اقبال کی گرویدہ ہوگئی تھیں، آخر کیا بات ہے کہ اقبال سے بنیادی اختلافات پر پردہ ڈالا گیا؟، تو حضرت نے فرمایا کہ بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر میں اقبال کی آواز نے خاموش سناٹے کو توڑا تھا، مغرب کے سامنے سپردگی کے  دور عروج میں اقبال نے مغرب کے سحر سے دنیائے اسلام کو نکالا  تھا، اگر اقبال کے خلاف ماحول بنایا جاتا تو پھر مغرب کے تہذیبی اور اعتقادی تسلط سے نکلنے کے لئے جو ایک طاقت  آواز بلند ہوئی تھی وہ بھی کمزور پڑ جاتی، اور پھر کوئی اور آواز مغرب کے تسلط کے خلاف نہیں ابھر سکتی۔

 اقبال کا مسئلہ بھی عجیب ہے، اس کے اشعار و افکار کو ہر ایک نے اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے، شیعہ حضرات سمجھتے ہیں کہ اقبال کا مشہور قطعہ ( کبھی اے حقیقت منتظر ، نظر آ لباس مجاز میں) ، میں حقیقت منتظر سے مراد امام مہدی ہیں، اور۱۹۷۵ئ میں ہم نے علی سردار جعفری کے اقبال اور اشتراکیت کے موضوع پر لکچر سنے تھے، جس میں اقبال کو اشتراکی ثابت کیا گیا تھا، آمریت کے پرستار ، اورتجدد پسند بھی ہٹلر اور اتاترک کی تعریف میں آپ کے کلام کو اپنی فکر کی تائید میں پیش کرتے ہیں ، اقبال کا کلام سب کے من کو بھاتا ہے۔

اقبال کے مصرعہ  (کبھی اے حقیقت منتظر ، نظر آ لباس مجاز میں ) کےسلسلے میں ہم نے موجودہ دور کے ایک چوٹی کے  ماہر اقبالیات کی خدمت میں سے  گذارش کہ تھی کہ وہ  ( کبھی اے حقیقت منتظر ) کا عقدہ کھولیں، تو  مورخہ ۱۳/۸/۲۰۲۰ئ کو ان کا  جو جواب ہمیں موصول ہوا تھا، اسے ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔

((اس شعر پر کم از کم دو مرتبہ میں گفتگو کر چکا ہوں. ایک بار بعض شیعہ حضرات کی غلط بلکہ بے سر و پا تشریح کے رد میں، اور دوسری مرتبہ اس کے درست مگر خطرناک مفہوم کی تردید میں. اب یاد نہیں آ رہا کہ وہ معروضات کہاں شائع یا نشر ہوئے تھے. بہرحال، مولانا خلیل الرحمٰن صاحب چشتی اور آپ نے اس شعر پر بالکل اور بہمہ وجوہ درست گرفت فرمائی ہے اور وہ تمام پہلو کھول دیے ہیں جن کی بنا پر یہ شعر اپنے معنی و مفہوم کے ہر جزو اور ہر جہت میں عقیدۂ الوہیت کے کئی لوازم سے ٹکراتا ہے اور مجسمہ اور مشبہہ کا ترجمان بنتا دکھائی دیتا ہے.اس طرح کے مضامین اقبال کی شاعری میں اور جگہوں پر بھی ملتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ان کا تصورِ خدا تشویش ناک حد تک ناقص ہے اور دینی محکمات و مسلمات سے بری طرح متصادم. انھوں نے انسان کا قد اتنا بڑھا دیا ہے کہ قامتِ الوہیت بھی معاذاللہ دبتا ہوا محسوس ہوتا ہے. اب اس شعر ہی کو دیکھ لیں. کیا یہ نہیں کہا گیا کہ تنزیہ نقص ہے اور تشبیہ کمال. جبھی تو ہزاروں خاص الخاص سجدے اس وقت تک کے لیے معطل ہیں جب خدا مجاز پر اپنے ظہور کی تکمیل اور خفا کی تنسیخ کرے گا))

اقبال کے  بعض افکار وخیالات کا دفاع ہماری ناقص رائے میں بہت مشکل ہے، جب فرزند اقبال  جسٹس جاوید اقبال، غلام احمد پرویز، اور جاوید احمد غامدی، اور خلیفہ عبد الحکیم وغیرہ  اپنے خیالات کی نسبت اقبال کی طرف کرتے ہیں، تو  اقبال کےیہاں ان کے خیالات کی تائید میں مواد مل ہی جاتا ہے۔ اقبال  سے ہمارے علماء واکابر کی چشم پوشی کے کئی ایک اسباب ہوسکتے ہیں۔

، ایک تو وہ جسے مولانا سید ابو الحسن ندوی ؒ نے بیان کیا کہ مغرب کے خلاف اپنے وقت میں منفرد آواز تھی، اگر اقبال کی مخالفت کی جاتی تو لوگ اقبال کے اس عظیم کارنامے کو بھول جاتے۔ اور دشمنان اسلام کے خلاف ایک طاقتور آواز دب جاتی۔

۔ دوسرے اقبال کا تصوف سے لگاؤ اور محبت ، ہماری ناقص رائے میں علامہ شبلیؒ ، مولانا حمید الدین فراہیؒ، اور مولانا مودودیؒ کے سلسلے میں علماء کے جو سخت موقف سامنے آئے ہیں، ان میں ان شخصیات کی تصوف سے دوری نے تڑکا لگایا  ہے۔

 (جاری )