بات سے بات: کیا موت کے سفر سے واپسی تھی؟۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری ، بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

07:19PM Sun 26 Sep, 2021

 کلیلہ ودمنہ ادب عربی کی ایک مشہور کتاب ہے جو درسیات میں بھی شامل ہے، طلب علم کے ابتدائی دور میں ہم نے بھی اسے ذوق وشوق سے پڑھا ہے۔ اس میں جانوروں کی زبان پر سبق آموز حکایتیں اور درج ہیں، اس میں ایک حکایت ہے کہ :۔

ایک شخص نے   پاگل ہاتھی کے خوف سے بھاگ کر ایک کنویں میں پناہ لی، اوراس میں موجود درخت کی دو ٹہنیوں سے وہ لٹک گیا، تو اس کا پیر کنویں کے ایک چکر پر پڑ گیا ، تو کیا دیکھتا ہے کہ چار سانپ اپنے سر بلوں سے نکالے بیٹھے ہیں، تو اس نے نیچے نگاہیں پھیریں تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک ڈریگون (تنین) منہ کھولے کھڑا ہے، اوراپنے منہ  میں اس کے گرنے کا انتظار کررہا ہے۔ اس نے آنکھ اوپر کی تو دیکھا کہ  ٹہنیوں کی بنیاد کو ایک  کالا اور دوسرا سفید چوہا  مسلسل کتر رہا ہے، انہیں دیکھ کر سہمے ہوئےاپنے بارے میں وہ سوچ ہی رہا تھا، کہ اسے شہد کا ایک چھتا نظرا ٓیا،اس میں سے اس نے کچھ شہد چکھا ،اور پھر اسی میں گم ہو کر   اپنی  فکر سے بے پروا ہوگیا ۔ اور اس سے گھرے آس پاس کے سبھی  خطرات وہ بھول گیا۔

آج  ۲۶ ستمبر کی صبح کچھ یہی صورت حال ہمارے ساتھ بھی منگلور کی فضاؤں میں پیش آئی، صبح پاونے چھ بجے انڈیگو کا اے ٹی آر ۷۲ طیارہ ستر مسافروں کو لے کر حیدرآباد دکن سے روانہ ہوا، اسے ساڑھے سات بجے منزل مقصود پر پہنچنا تھا، جب وہ وقت مقررہ پر منگلور ہوائی اڈے کی سرحد پر پہنچا اور اسے ابھی رن ون پر لینڈنگ کرنی  ہی تھیں، اس وقت اطراف منگلو ر کی فضائیں صاف وشفاف نظرآتی تھیں، لیکن جہاں پر ایرپورٹ  واقع تھا، وہا ںکچھ بھی نظر  نہیں آرہاتھا، ایک طرف موسم خراب چل رہا تھا، تو دوسری  طرف رن وے کو سو میٹر اوپر سے ہزارہا میٹرکی بلندی تک سفید بادلوں نے اس طرح گھیرے میں  لے لیا تھا، کہ سوئی کے ناکے کے برابر بھی  خالی جگہ نظر  نہیں آرہی تھی، ماہر پائلٹ نے ایر پورٹ کے احاطے میں سواگھنٹے سے زیادہ عرصہ تک اترنے کی سہولت کی امید میں دسیوں چکر کاٹے، اور بیس بیس منٹ کے وقفہ سے اپنے اندازے سے  تین مرتبہ لینڈنگ کی ناکام کوشش کی، اور سطح زمین سے ایک سو  میٹر کی بلندی  پر اترنے کے بجائے   پوری طاقت سے الٹی اڑان بھری، اس وقت  جہاز کے پروں میں پیوسٹ پنکھوں کا شور ایسا بلند ہوا کہ  اچھے بھلے انسان کی سانس رک  جائے اور ایمان پر خاتمہ کے لئے کلمہ پڑھنے لگے۔ اس سفر میں ہمارے ساتھ مولانا محمد سمعان خلیفہ ندوی اور ڈاکٹر عبد الحمید اطہر رکن الدین ندوی صاحبان بھی شریک تھے، جو ادارہ ادب اطفال بھٹکل کے مشن کو لے نکلے تھے۔ شایدایسے ہی چند نیک جوانوں کی امت کو ضرورت دیکھ کرممکن ہے کاتب اجل نے اپنا   فیصلہ بدل دیا ہو، ورنہ صورت حال کچھ ایسی دہشتناک تھی کہ اس پر موت کو چند قدم پر کہنے کی تشبیہ صادق آتی تھی، کیونکہ ایسی صورت حال میں موت اور زندگی میں صرف چند سکنڈوں میں کا فاصلہ رہتا ہے،  اور حالات ادھر یا ادھر ہوجاتے ہیں۔

لیکن بیم ورجا کی اس فضا میں ایسے افراد کی مثالیں پائی جاتی تھیں، جن پر خوف ناک ہاتھی سے بھاگ کر کنویں میں پناہ لینے والی مثال صادق آتی ہے۔ انہیں منگلور ایر پورٹ کے احاطے میں بادلوں سے اوپر کے پرفریب مناظر نے کچھ ایسا رجھایا تھا  کہ سروں پر سے گزرتی ہوئی اس قیامت کا احساس ہی نہ ہوسکا، اور موبائل کیمرہ آس پاس کے مناظر کی عکاسی میں مصروف رہا۔ اور  ان پر انور مسعود کی یہ رباعی صادق آئی کہ :۔

بھولے سے ہوگئی ہے اگر چہ اس سے بات

ایسی نہیں یہ بات جسے بھول جائیے

ہے کس بلا کا فوٹو گرافر ستم  ظریف

میت سے کہ رہا ہے ذرا مسکرائیے

ہندوستان کے مغربی ساحل کے مناظر  کچھ ایسے ہی ہے، ایک زمانہ تھا  کہ جب ہم بچوں کو پڑھاتے تھےتو جغرافیہ کا بڑا شوق تھا، اکسفورڈ پریس کے اٹلس جو انگریزی زبان میں ہوا کرتے تھے ، ان کے نقشوں پر شفاف بٹر پیپر لگاتے اور پنسل سے اس پر ملکوں ملکوں کے  نقشے نقل کرتے۔ پھر یہی پیپر کسی سفید پیپر پر رکھ کر بال پین سے دبا کر ان نقشوں کو دوسرے پرچوں پر نقل کرتے ، اور ان پر مقامات کےا ردو نام لکھتے ، جزیرۃ العرب ، اور اس قسم کی دوسری کتابیں اسی طرح طلبہ کو پڑھائی تھیں ، اب تو زمانہ گوگل میپ کا ہے،جب ہندستان کے مغربی ساحل کو اس کے نقشوں کے مطابق براہ راست اور بالمشافہ دیکھتے ہیں، توجی للچانے لگتا ہے، اوپر سے یہ ساحل تو جنت نشان محسوس ہوتا ہے۔ جنات عدن کی مثال پہاڑوں اور جنگلات سے نکلنے والے دریا کسی جنت ہی کی یاد دلاتے ہیں، اب جب  زندگی میں شاذونادر ایسے مواقع ملنے لگیں کہ دن کے اجالے میں  یہ سب مناظر آنکھوں کے سامنے ناچنے لگیں، تو کون ہوگا، جو ان سے  اپنی آنکھیں موندھ لے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ  یہ لمحات خوفناک حادثہ میں تبدیل نہ ہوسکے، اللہ تعالی نے اس پر سواروں کو توبہ اور اپنے گناہوں کی معافی تلافی کی کچھ اور مہلت فراہم کی، ہم گزشتہ بیالیس سال سے ہوائی سفر کررہے ہیں، لیکن ایسا خون خشک کرنےو الے  کسی منظر کا کبھی سامنا نہیں ہوا۔ سنا ہے کہ ۲۲ مئی ۲۰۱۰ ء کو منگلو ر ایرپورٹ پر ایر انڈیا اکسپرس کا جو حادثہ رونما ہوا تھا، اور جس میں ایک سو چوالیس افراد جاں بحق ہوئے تھے ، کچھ اسی طرح پیش آیا تھا کہ اپنے وقت کے ماہر ومشاق روسی پائلٹ نے ہوائی جہاز کو لینڈ کیا اور  فورا ہی خطرہ دیکھ  کر  اسے دوبارہ اڑانے کی کوشش کی تو پھر جہاز نے توازن کھو دیا ۔ چند لمحات میں جیتے جاگتے انسان  راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ اللہ کی ذات جب مہربانی پر اترآتی ہے تو موت کے منہ سے زندگی کو چھین لاتی ہے، آج کچھ ایسا ہی ہوا تھا، زندگی میں ایسے لمحات کم ہی آتے ہیں، جب انسان کو توبہ کی فرصت ملے، اور زندگی کی بے ثباتی کا ثبوت آنکھوں کے سامنے ہو۔  کیا ان واقعات سے ہم سبق لے پائیں گے؟۔