بات سے بات: خطابت سے وابستہ مزید باتیں۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Bat Say Bat

07:04PM Mon 5 Oct, 2020

گزشتہ دو کالموں میں اردوان خطابت پرمنتشر باتیں آئی تھیں، احباب نے ایک بے زبان کی زبانی ان باتوں کو پسند کیا،تو مزید کچھ کہنے کی ہمت ہوئی۔

ابھی چند ایک روز قبل سید انیس شاہ گیلانی کی کتاب "آدمی غنیمت ہے" زیر مطالعہ تھی، اس میں آنجہانی جواہر لال نہرو سابق وزیر اعظم ہند کی خطابت کے بارے میں تاثرات نظر سے گذرے کہ "ان کا شمار جوشیلے اور شعلہ بیان مقررین میں نہیں تھا، وہ ٹھہر ٹھہر کر دھیمے جملے میں بلکہ دھیمے سروں میں دل کے تار چھیڑتے، جملے اکثر بے ترتیب ہوا کرتے، مثلا "ہم جانتے تھے وہ ایسا کریں گے"۔ وہ بولیں گے تو اس طرح"جانتے تھے ہم کریں گے وہ ایسا"۔

ہمارے مولانا شہباز اصلاحی مرحوم کہا کرتے تھے کہ سنہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں اقوام متحدہ میں بھارت سے نہرو اور پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو نمائندگی کرتے تھے، بھٹو صاحب اچھل کود کرتے، ڈیسک بجابجا کر بہ آواز بلند تقریر کیا کرتے تھے، لیکن عالمی قائدین نہروجی کی ایک ایک بات کو سنجیدگی سے سنتے تھے، بھٹو کووہ اہمیت حاصل نہیں تھی ، قدرت اللہ شہابت نے لکھا ہے کہ صدر ایوب خان، نہرو سے بہت مرعوب تھے۔ اور ان کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا تھے۔

نہروجی کی بات پر یاد آیا کہ ۱۹۶۹ء میں ہمیں اردو کے ایک ہی خطیب کو سننے کا موقعہ ملا تھا، یہ تھے مولانا رحمت اللہ دہلوی مرحوم، مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے سے مرکز نظام الدین سے وابستہ رہے، حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ کے بعد امارت کے متوقع امید واروں میں تھے، پھر پتہ نہیں وہ مرکز سے نکلے یا نکالے گئے؟۔ ان کے بیٹے مولانا عبد اللہ طارق ہیں، جو کافی متحریک ہیں،

مولانا دہلویؒ بھٹکل آئے تھے تو جامعہ وغیرہ میں ان کی تقاریر سننے کا موقعہ ملا تھا، نہروجی کے انداز خطابت کے سلسلے میں جیلانی صاحب نے جو بیان کیا ہے کچھ ایسا ہی انداز ان کا بھی تھا، بالکل شاہ رفیع الدین دہلویؒ کے ترجمہ قرآن کی زبان، بیان سنجیدہ اور آسان تھا، ہمارا خیال اس طرف جاتا ہے کہ شاید یہ بھی پرانے لوگوں کی خطابت کا ایک انداز ہے، جس کے نمونے اب ناپید ہو گئے ہیں، بہت ممکن ہے دہلی کے پرانے خطیبوں کا یہ انداز رہا ہو!ْ۔

یہ کوئی تحقیقی مقالہ نہیں، بلکہ بکھری ہوئی یادیں ہیں، قارئین انہیں پسند کرتے ہیں تو پھر ذہن کو تحریک ہوتی ہے، حضرت حکیم الاسلامؒ کی خطابت کا تذکرہ پہلے آچکا، جن خطیبوں نے ہمیں متاثر کیا ان میں حضرت مولانا سید ابوالحسن ندویؒ کا مقام بہت بلند ہے، حضرت مولانا ؒ نے شاعری نہیں کی، لیکن شاعرانہ حس آپ کے رگ وپے میں بسی ہوئی تھی، جب ٹیس پہنچتی اور دل ودماغ میں تحریک پیدا ہوتی تو آپ کی تحریراور خطابت کا جواب نہیں ہوتا تھا،نقادوں کا کہنا ہے کہ غالب کے ایک تھائی دیوان نے انہیں اردو کا عظیم ترین شاعر بنا دیا، حضرت مولانا کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی، یوں تو آپ کی تقاریر ہمیشہ اچھی ہی ہوتی تھیں، کہتے ہیں کہ مقررکا فن خطابت اس وقت عروج پر ہوتا ہے جب وہ غصہ یا رنج کی حالت میں ہو، یہ بات حضرت مولانا کی خطابت پر صادق آتی ہے، حضرت مولاناؒ ۱۹۶۷ء میں پہلی مرتبہ بھٹکل آئے تھے، اس وقت بورڈ اسکول گراونڈ میں آپ کی پہلی تقریر ہوئی تھی۔ مولانا پر رنگون کے حالات اور ملک میں پھیلے ہوئے فسادات کا گہرا اثر تھا، یہ تقریر نشان منزل کے نام سے شائع ہوئی ہے،  اس کے بعد آپ تیس سال سے زیادہ عرصہ تک یہاں تشریف لاتے رہے،آپ فرماتے تھے کہ مکہ اور مدینہ یا وہ شہر جو یہاں سفر کے راستے میں آتے ہیں، انہیں چھوڑ کر کسی اور شہر یا قصبے میں بھٹکل اتنے سفر نہیں ہوئے،بحالت صحت حضرت مولانا کی آخری تقریر بھی یہیں ہوئی تھی، لیکن آپ کی پہلی تقریر ان میں شاہکار تھی، فن خطابت کی اس اونچائی پر یہاں کی دوسری تقاریر پہنچ نہیں پائیں۔

۱۹۶۰ کی دہائی کی تقاریر جب وطن عزیز فسادات کی آگ میں جھلس رہا تھا،اور مجلس مشاورت تشکیل پارہی تھی، بنگلہ دیش بننے کے فورا بعد کی ، صد سالہ اجلاس دارالعلوم دیوبند کے موقعہ پر،  اور دارالعلوم ندوۃ العلماء پر پولیس دھاوے وغیرہ زمانے کی آپ کی تقاریر ادب و خطابت کا شاہکار ہیں۔

دیوبند کے حلقے میں مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ بھی چوٹی کے خطیب تھے، پہلے پہل ہم نے انہیں 1974 ء میں پیریمیٹ مسجد چنئی میں سنا تھا، پھر اگلے سال نیو کالج کے آنیکار عبد الشکور آڈیٹوریم چنئی میں خطبہ سیرت دیتے ہوئے سننے کا موقعہ ملا،سامع کو گھیرے میں لینے والا انداز گفتگو، اس پر بے پناہ قوت حافظہ اور معلومات کا ذخیرہ،ایک طویل عرصہ بعد 1996ء کے اوائل میں اطلاع ملی کہ آپ دبی آئے ہوئے ہیں، اس وقت حالات کچھ قابل رشک نہیں تھے، لوگوں کے دل اس وقت بٹے ہوئے تھے، اتنے جلیل القدرعالم اور استاد الاساتذہ اور خطیب ایک طرح سے بے قدری کا شکار ہورہے تھے،

 اس وقت ہماری بساط ہی کیا تھی؟۔  کیا پدا کیا پدی کا شوربہ؟ لیکن جب ان سے فیض اٹھانے والے انکاری تھے، تو ہم جیسے ناتواں خاموش تو نہیں بیٹھ سکتے تھے!، مسجد بن دلموک ، الراس میں ماہ رمضان المبارک میں  مولانا نے سورہ یوسف کی آیتوں کا درس دوچار روز دیا، اس وقت آپ کے سامنے وقف دارالعلوم کا پروجکٹ تھا، جہاں اب وقف کی عالیشان عمارتیں اور مسجد طیب قائم ہے، وہاں کبھی مذبح خانہ ہوا کرتا تھا، اس کی سرانڈ اور بدبو سے آس پاس کے لوگوں کے سر پھٹے جاتے تھے۔

 یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا، شمال اور جنوب کے اداروں  خاص طور پر بھٹکل کے اداروں کا چلانے کا اپنا ایک مزاج ہے، ہمارے یہاں چندوں کے لئے اساتذہ کو سفیر بنا کر بھیجنا معیوب سمجھا جاتا ہے، رسید اور اس پر فیصد کا تصور  یہاں نہیں پایا جاتا ہے، اس طرح مہتمم کا ادارے کے مالیاتی وسائل کی فراہمی میں کوئی کردار نہیں ہوتا، یہ پوری ذمہ داری انتظامیہ اور عاملہ کی ہے۔ اسی پس منظر میں ہمارے ایک دوست نے مولانا سے انتظامیہ ،حساب کتاب وغیرہ کے بارے میں نا مناسب انداز میں دریافت کیا، اس وقت تو مولانا خاموش رہے، لیکن فجر کی نماز کے بعد قریبی مسجد بالہول میں جس میں یہ صاحب بھی شریک تھے، مولانا نے ایسا درس دیا کہ وہ صاحب رونے لگے، اور پھر یہی حاجی عبد الرزاق رصاصی مرحوم کے پاس اہتمام سے لے گئے جن سے ان صاحب  کے اس زمانے سے تعلقات تھے جب حاجی صاحب نئے نئے دبی آئے تھے، اور لانڈری سے اپنا کاروبار شروع کیا تھا، پھر اللہ نے برکت دی آج رصاصی ایک عالمی برانڈ بن گیا ہے۔

اس وقت بھٹکلیس پر مولانا کشمیری کی چھ مجالس موجود ہیں، افسوس کے آپ کی تقاریر اور مجالس کی ریکارڈنگ اور انہیں محفوظ کرنے کا خاطر خواہ اہتمام نہیں کیا گیا۔

مولانا انظر شاہ کشمیری  پر ایک اور بات یاد آئی، جو دنیا کی بے ثباتی کی گواہی دیتی ہے۔

2007 میں مولانا اسی سال کی عمر میں سخت بیمار ہوئے، یوروایسیڈ کا سخت حملہ ہوا، مولانا قوت حافظہ میں اپنے والد ماجد حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ کی نشانی سمجھے جاتے تھے، ان کے بھی قوت حافظہ کی مثالیں شاذونادرملتی تھیں، ہمیں مولانا کی بیماری کا تو علم تھا، لیکن اس کی جملہ کیفیات معلوم نہیں تھیں،  مولانا افاقہ کے بعد کچھ آرام کرنے کے لئے دبی آئے تھے، ساتھ میں آپ کے جانشین مولانا محمد خضرشاہ مسعودی صاحب بھی ہمیشہ کی طرح موجود تھے، تو ہم نے درخواست کی کہ آپ کی کچھ یاد داشتیں ویڈیو پر محفوظ کرنی ہیں، تو مولانا ہنسی خوشی تیار ہوگئے، تو ہم ان کے داماد کے یہاں شارجہ گئے، اور ہمارے ساتھی نے مولانا کی مجلس ریکارڈ کرنی شروع کی، آج تیرہ چودہ سال گذرنے کے باوجود وہ نظارہ آنکھوں سے ہٹ نہیں رہا ہے، جس شخص نے تیس سال سے زیادہ قال اللہ قال الرسول کی مسند سجائی تھی، اور جس کا صحیح بخاری کا درس برصغیر میں اہم ترین درس سمجھا جاتا تھا، اور جوق در جوق طالبان علوم نبوت جس میں شرکت کے لئے آفاق سے تشریف لاتے تھے، بیماری نے ایک لمحہ میں اس طرح اس کا حافظہ دھو دیا تھا کہ صحیح بخاری غلط مصنف کی طرف منسوب کررہے تھے، اس وقت ہمیں حضرت حکیم الاسلام ؒ کی وہ تقریر ذہن میں گھومنے لگی جو آپ نے بھٹکل میں مورخہ 23 نومبر 1976ء مکتب جامعہ کے سنگ بنیاد کے موقعہ پر فرمائی تھی، اور اس میں  قرآن پاک کی آیت کریمہ:

((وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ))

((ترجمہ: اور اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور پھر وہی تم کو موت دیتا ہے اور تم میں سے بعض ارذل عمر کی طرف لوٹا دیے جاتے ہیں تاکہ بہت کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے، بیشک اللہ ہی علم والا اور قدرت والا ہے))۔

اللہ تعالی نے حضرت کشمیریؒ کو زندگی کا جو مشن دیا تھا،   انہوں نے اس کا حق ادا کیا، اسے اچھی طرح پورا کیا، اب  جب مقررہ مدت ختم ہوگئی ، اور حکمت خداوندی کی روسے اس کی ضرورت باقی نہیں رہی، تو یہ صلاحیت قدرت نے واپس لے لی۔ وہی دانا اورحکیم ہے۔ وہی پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ شارجہ سے واپسی کے چند ہی دنوں میں آپ کے دائمی سفر پر روانگی کی خبر آئی۔ انا للہ للہ وانا الیہ راجعون۔

‏05‏/10‏/2020

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/