بات سے بات: خدا را سوشل میڈیا کی اشتہاری مہم کا حصہ نہ بنیں۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

03:07PM Sat 9 Jan, 2021

اس وقت واٹس اپ کی مذمت اور ٹیلگرام کے فضائل بیان کرنے کا سلسلہ چل نکلا ہے، اور سوشل میڈیا خاص طور پر واٹس اپ گروپ اس سے بھرے ہوئے ہیں، اس سلسلے میں ہماری چند معروضات ہیں۔

۔ایسا لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے زیادہ تر احباب اس کی اساس اور مزاج سے ناواقفیت کے ساتھ انہیں استعمال کررہے ہیں۔

۔ واٹس اپ ، ٹیلگرام یا سگنل یہ بنیادی طور پر تجارتی مفادات پر قائم ہیں، اور ان مفادات کے حصول کے لئے یہ سبھی کچھ کررہے ہیں، ان کا پہلا اصول ہے منفعت کا حصول۔ اس سے جو اصول بھی ٹکرائے وہ اسے جوتی کی نوک پر رکھ  کر آگے بڑھ جاتے ہیں، لہذا ہمیں ان کی پبلیسٹی اور اشتہار بازی کا حصہ بننے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اگر واٹس اپ پسند نہیں تو چھوڑدیں،ٹیلگرام پسند آجائے تو اسے استعمال کریں۔ لیکن لاشعوری طور پر اسے موضوع بنا کر ان کی تشہیر میں شریک نہ ہوں، کسی کی مخالفت یا کسی کی تعریفیں بھی مفت کی اشتہار بازی کا جزء ہے۔

۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ گوگل سرچ انجن ہو، یا یوٹیوب، یا فیس بک یا کوئی اور یہ سبھی اپنے صارفین کا پیچھا کرتے ہیں، اور ان کے ذہن کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں آپ کے جائے وقوع کا علم ہوتا ہے، آپ کو کیا چیزیں پسند ہے کیا نہیں اس کی معلومات ہوتی ہیں، لہذا آپ نے دیکھا ہوگا کہ آپ کی دلچسپیوں اور علاقوں کی مناسبت سے کسی چیز کے خرید کرنے کے تھوڑی ہی دیر میں اشتہارات پوسٹ کرتے ہیں، اور آپ کبھی حیران ہوجاتے ہیں، کروڑوں اربوں افراد میں آپ کی پسند کی اشیاء کا انہیں کیسے علم ہوگیا۔اسی طرح آپ کے پروفائل پر کسی قسم کی تصاویر ہیں، یا آپ کیا کیا دیکھتے ہیں، اس بنیاد پر یہ سرچ انجن آپ کے ذہن کو پڑھ لیتے ہیں، اور ڈیمانڈ پرچند سکوں کے لئے یہ معلومات انہیں بیچ دیتے ہیں،کمپنیاں نہ بیچیں تو کیا مادیت کے اس دور میں خائن ملازمین سے کیا دنیا خالی ہوگئی ہے، ویکی لکس کی مثال سامنے ہے،  اب کوئی اس کا اعلان کرتا ہے کوئی نہیں، اور کئی ایک دفعہ وہ مختلف دباؤ کے تحت معلومات کی فراہمی سے انکار بھی نہیں کرسکتے۔ جن میں حکومتی دباؤ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

۔ اب واٹس اپ کے صارفین کے لئے مناسب ہے کہ وہ پہلے تفصیلات کو باریکی سے دیکھیں، اور فیصلہ کریں کہ کیا آپ کو ایسی کوئی معلومات سوشل میڈیا پر شیر کرنی ہے، جو کسی وقت آپ کے خلاف استعمال ہوں، یا آپ کے لئے خطرات کا باعث بنیں، یا جن معلومات کو شیر کرنے کا عندیہ کمپنی نے دیا ہے کیا ان معلومات کو دوسرا ادارہ یا فرد آپ کے خلاف استعمال کرسکتا ہے؟۔ عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ یہ معلومات جن رجحانات کو جاننے کے لئے شیر ہوتی ہیں، ان میں تجارت اور کنزمشن کا حصہ بہت زیادہ ہے، اور یہ مالدار تجارت پیشہ یا زیادہ خریداری کرنے والوں کو متاثر کرتا ہے، عام طور پر غریب اور متوسط طبقہ کے معلومات ان کے لئے زیادہ سود مند نہیں ہوتیں۔

۔ کہتے ہیں کہ چور کسی بھی تالے کو توڑ سکتا ہے، لیکن دروازے یا صندوق پر تالے کو دیکھ کر اسے توڑنے اور چرانے کا نہیں سوچتا، کچھ اسی طرح بہت سی عوامی جگہوں پر لکھا رہتا ہے کہ کیمرہ لگا ہوا ہے، کیمرے کو دیکھ کر لوگ جرم یا نازیبا حرکتوں کا نہیں سوچتے، اب یہ واٹس اپ کی شرافت ہے کہ اس نے کھلم کھلا آپ کو آگاہ کردیا کہ احتیاط برتیں۔

 ٹیلگرام ہمارے استعمال میں تقریبا میں ابتدا سے ہے، اس سے ہم نے بہت استفادہ کیا ہے، واٹس اپ کی محدودیت کو دیکھ کر اس پر علم وکتاب چینل مدت سے چل رہا ہے۔ راہی حجازی جیسے محبین نے کافی عرصہ پہلے ہم سے فرمائش کی تھی کہ علم وکتاب چینل پر بڑا قیمتی مواد پایا جاتا ہے، اس کی ترویج کے لئے ایک گروپ بھی بنائیے، گروپ بنانے کے دو روز بعد ہی ہم نے اسے بند کردیا، کیونکہ اس پر کنٹرول مشکل ہوہا تھا، کیونکہ گروپ پر ہر کوئی آسکتا ہے، یا دوستوں کو لاسکتا ہے ، یا تو گروپ کو لاک کریں، جس سے الگ گروپ بنانے کا کوئی فائدہ نہیں، یا پھر اسے مکمل آزاد کریں، اب گروپ پانچ ہزار سے زائد ممبران کی تعداد تک پہنچ سکتا ہے، لیکن معیار اور انتخاب پر نظر رکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ ڈھائی سو ممبران پر ہمارا اتنا وقت صرف ہورہا  ہے کہ کبھی اسی کو چھوڑنے کو جی چاہتا ہے، اب ٹیلگرام گروپ کے بعد تو ایک منٹ کی فرصت نہیں رہے گی،  ہر وقت گروپ پر نظر جمائے رکھنے کی ضرورت ہوگی۔

شاید بہت سے احباب کے ذہن میں یہ بات نہ ہوکہ اب بہت سی چیزیں جنہیں سفر وحضر میں ضروری سمجھا جاتا تھا، آئندہ  چند دنوں میں غیر ضروری ہونے کا امکان ہے، ان میں سے ایک پاسپورٹ بھی ہے، آپ کے انگھوٹے کے نشان اور آنکھوں کی پتلیاں شاید پاسپورٹ کی جگہ لے لیں،  اور ایر پورٹ پر آنکھیں دکھا کر، یا انگھوٹا چھو کرملکوں ملکوں کا سفر کریں۔ اس وقت بہت سارے ترقی یافتہ ہوائی اڈوں میں کیمرے پر آنکھ یا مشین پر انگوٹھا لگانے سے کمپوٹر پر آپ کی جملہ تفصیلات نظر آجاتی ہیں، اور بہت سے ملکوں میں دخول وخروج کے لئے کوئی ٹھپا نہیں لگایا جاتا، بلکہ آنکھوں سے دیکھنا اور انگوٹھے سے چھونا ہی دخول وخروج کا غیر مرئی ٹھپا بن جاتا ہے۔ جب صورت حال یہ ہو تو بتائیں آپ کن کن معلومات کے منکشف ہونے سے خوفزدہ ہوتے رہیں گے۔

ایسا لگتا ہے کہ آئندہ لوگ بیل گاڑی اور تیل کی بتی کے زمانے کو یاد کریں گے، اور کہیں گے کتنا اچھا زمانہ تھا، چاروں طرف سکون ہی سکون تھا، صبح سویرے جاگتے اور شام ڈھلے سوتے، عمریں بھی کتنی لمبی محسوس ہوتی تھیں، لوگ جسمانی محنت کے عادی تھے، جو انہیں بہت سی بیماریوں سے محفوظ رکھتی تھی، اب روز بروز کی ترقیوں نے ان عظیم نعمتوں سے محروم کردیا ہے۔