بات سے بات: کچھ جوش کے بارے میں۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

02:41PM Tue 8 Jun, 2021

جوش ملیح آبادی، خمار بارہ بنکوی، اور ماہر القادری ان معدودے چند شعراء میں تھے جنہوں نے مادی منفعت کے لئے اپنے معیار سے سمجھوتہ نہیں کیا، یہ تینوں فلمی گیت لکھنے کی دنیا میں قدم رکھا تھا، اور چند ایک فلموں کے گانے لکھنے بعد ہی اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی،حالانکہ ان کے گیتوں کو اپنے وقت میں بڑی مقبولیت ملی تھی، آخر الذکر کو تو اس مرحلے پر آخر عمر تک پشیمانی رہی، کہ کاش یہ مرحلہ ان کی زندگی میں نہ آتا۔

جوش اور احسان دانش تحت اللفظ پڑھنے والوں میں تھے، اور خمار اور ماہر نے اپنے ترنم کا لوہا منوایا تھا،اور حقیقت تو یہ ہے کہ خمار کے بعد مشاعروں میں شرکت کا مزہ ہی ہم جیسوں کے لئے جاتا رہا۔

جوش اردو زبان کے بڑے عالم و پارکھ تھے، اس میدان میں وہ خود سند کی حیثیت رکھتے تھے، اب مولانا دریابادی اور ماہر القادری جیسی شخصیات کسی کے رد میں اپنی توانیاں صرف کرنے لگیں، تو ایسوں کا قد کاٹھ خود بخود بلند ہوجاتا ہے۔

جوش کے کلام کی مقبولیت میں مشاعروں کو بڑی اہمیت رہی، ان کے تحت اللفظ پڑھنے کا انداز بڑے بڑے مترنم پڑھنے والوں پر بھاری پڑتا تھا،ان کے افکار کو الحاد، فحاشی، اور شیعیت سے جوڑا گیا ، لیکن ہماری رائے  میں وہ صرف مادر زاد شاعر تھے، مادی ضرورتوں نے انہیں ہر وادی میں دوڑایا، اور ان کی شاعری میں منفی جراثیم بڑی تعداد میں شامل ہوگئے، جنہوں نے ان کے کلام کو متعفن کیا۔

جوش نے اپنے اسلوب میں لکھنو کے قدیم اساتذہ کی اتباع کی،اور اس میں اپنی جداگانہ راہیں بھی نکالیں،لیکن ان کے اسلوب کو ان کے بعد تسلسل یا مقبولیت نہ مل سکی، اس کی بڑی وجہ افکار تازہ سے زیادہ اس میں الفاظ کی جادوگری کا حاوی ہونا تھا۔

جوش بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے، اس بنیاد پر انہیں ترقی پسندوں سے بڑی کمک ملی، ایک زمانے میں ترقی پسندوں نے مقصدی شاعری کے تائید اور غزل کی مخالفت میں مورچہ کھولا تھا، لیکن غزل کے جادو سے اردو کا دامن جھاڑ نہ سکے، غزل ہی اردو کی صاحبۃ الجلالۃ رہی، مجروح سلطانبپوری،فیض احمد فیض وغیرہ ترقی پسندوں نے غزل ہی کی پگڈنڈیوں سے اپنی راہ نکالی۔ انگریزی زبان کے نامور صحافی خوشونت سنگھ نے ایک مرتبہ لکھا تھا، کہ میں کئی ایک عالمی زبانوں کے ادب سے واقف ہوں، اور میرا دعوی ہے کہ کسی دوسری زبان میں غزل جیسی خوبصورت صنف پائی نہیں جاتی۔

کوئی پچیس سال قبل جنگ پبلشرز نے جوش کی رحلت کے دس سال بعد آپ کا غیر مطبوعہ کلام ((بربط ومضراب)) بڑے شاندار انداز سے شائع کیا تھا، لیکن اسے اس زمانے میں مقبولیت نہ مل سکی تھی،سنا ہے بڑی مدت تک گودام میں پڑی رہی۔ مشفق خواجہ نے جوش پر سخن درسخن میں بڑے پیارے اور دلچسپ انداز میں چٹکیاں لی ہیں، انہیں ضرور پڑھنا چاہئے،جوش کے ہم پیالہ ہم نوالہ راغب مرادآبادی مرحوم نے اپنے نام جوش کے خطوط کا جو مجموعہ شائع کیا تھا، اس پر خامہ بگوش اور راغب صاحب کا ادبی معرکہ بہت دلچسپ ہے، زبان وادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اسے حاصل کرکے ضرور پڑھنا چاہئے۔

آج کل کلیات کا جو سلسلہ چل پڑا ہے، وہ اس لحاظ سے مفید ہے ک ایک مصنف کا یکجا طور پر پورا مواد مل جاتا ہے، یہ تحقیق کرنے والوں کے لئے، اور گھر کی الماریاں سجانے کے لئے تو ٹھیک ہے، لیکن جس سائز میں یہ کلیات چھپ رہی ہیں، یہ مطالعہ کے فروغ میں ممد ومعاون ثابت نہیں ہوتیں، ایک تو ہوش ربا قیمتیں، اور سائز اتنا ضخیم اور بڑا کہ کرسی اور میز پر بیٹھے بغیر پڑھی نہ جاسکیں، کتابوں کا یہ حجم  تصنیف وتالیف اور تحقیق کرنے والوں کے لئے تو ٹھیک ہیں، ، لیکن بستر پر پاؤں پھیلا کر، اوندھے منہ یا سیدھے ہوکر، نیند کو دعوت دینے کے لئے، یا سواری پر ساتھ لے کر ان کا مطالعہ کرنا ممکن نہیں،اس کے لئے کتابوں کی پرانی پانچ انچ والی سائز ہی ٹھیک تھی۔ ہم نے شورش کشمیری کی، ماہر القادری کی کلیات ایک زمانے میں منگوائی تھی، بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا، ابھی ڈاکٹر ہلال نقوی صاحب نے کینیڈا سے جوش کی محبت میں یادوں کی بارات کا مسودہ اور کلیات بڑی محنت سے شائع کی ہیں،یہ محنت اور جستجو قابل قدر ہے، لیکن مطالعہ کی ترویج کے لئے  کلیات شائع کرنے والے اداروں کو مختصر حجم ، پتلے سائز، اور کم قیمت کتابوں کی اشاعت پر بھی توجہ دینی چاہئے۔

2021-06-08

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/