بات سے بات: اکابر کے شطحات کو اجاگر نہ کریں۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

10:42AM Sun 6 Feb, 2022

ایک دوست نے گروپ پر حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کے خفیہ طور پر تسبیح رکھنے کا واقعہ نقل کیا ہے۔ اس نقل میں ایک طرح سےنکیر بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس پر تقریبا علماء کا اتفاق ہے کہ حافظ رحمہ اللہ کے بعد اس پایہ کا کوئی اور حافظ ومحدث پیدا نہیں ہوا، اوریہ کہ فتح الباری شرح البخاری میں آپ کی نقل کردہ سبھی حدیثیں صحیح ہیں۔ تسبیح کو ایک بڑا حلقہ بدعت اور ریا سمجھتا ہے۔ ان کی بھی دلیلیں ہیں۔ لیکن یہاں اس مسئلہ پر ہمیں بات نہیں کرنی ہے۔ایسے مسائل جنہیں علماء کا ایک بڑا حلقہ بدعات میں تصور کرتا ہے، اور حافظ ابن حجرؒ جیسے محدثین عظام سے ان کا عمل ثابت ہوتا ہے، تو اس میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔

اس سلسلے میں بنیادی طور پر یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ حافظ ابن حجر کا علم مولود اور تسبیح تک محدود نہیں ہے، ان کو اللہ تعالی نے علم واجتہاد کی جن صلاحیتوں سے مالا مال کیا تھا، تو انہیں حق حاصل تھا کہ دلیل پر قانع ہوکر کسی مسئلہ میں دوسروں کے نزدیک ضعیف رائے کےضعف کو قبول نہ کریں۔ ایسی باتیں امام ابن تیمیہ سمیت تمام ائمہ اجلہ کے یہاں پائی جاتی ہیں،امام ابن تیمیہؒ زیادہ تر عقیدت مند ۔ان کا بے انتہا احترام کرنے کے باوجود ان کے بہت سے فتووں کو نہیں مانتے، شیخ البانیؒ کا بھی یہی حال ہے،ان کا احترام کرنے والے  اور ان کے خلاف ایک جملہ نہ برداشت کرنے والے بہت سارے افراد شیخ البانیؒ کے مسائل شاذہ کو قبول نہیں کرتے، حجاب، عورت کے لئے سونے کے زیورات کی حرمت، تراویح کا انکار ، قبر اطہرﷺ کےمسجد نبوی میں شمولیت، جیسے کئی ایک مسائل میں ان کے معتقدین ان سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ان معاشروں میں شخصیت پرستی نہیں ہوتی، اور ہر محترم شخص کی ہر بات آنکھ بند کرکے معتبر نہیں ٹہرائی جاتی۔

لیکن برصغیر کا ماحول جداگانہ ہے، یہاں پر شخصیت پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، یہاں پر حق افراد سے جانا جاتا ہے، لہذا اکابر کے شطحات کویہاں اجاگر کرنا خطرے سے خالی نہیں، یہاں دو انتہائیں ہیں، اپنی محبوب شخصیات کو معصوم یا محفوظ  نہ کہتے  ہوئے بھی ان کی اتباع معصوم یا محفوظ کی طرح ہی کی جاتی ہے، اب کسی نے کوئی اجتہادی غلطی ہو تو اس سے چشم پوشی کرنے کے بجائے، اس کا دفاع شروع ہوجاتا ہے، اور ان شخصیات کا عمل مسائل شاذہ  پر اور پختگی کا سبب بن جاتا ہے۔  ایسے معاشرے میں مناسب یہی ہے کہ درست مسئلوں سے روشناس کیا جائے، اس کی دلائل پیش کی جائیں، اور تاریخ کے اوراق میں پوشیدہ چیزوں کو سرسری طور پر لے کر آگے بڑھا جائے، ورنہ بات آگے تک جائے گی، اور ہم بہت سے اکابر پر عامۃ الناس کے اعتماد کو مجروح کرنے پھر دینی مسائل کو متناز ع فیہ کرنے کا سبب بنیں گے۔ اور اس بحث میں حق وباطل کا فیصلہ دلیل کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ اس کا مدار شخصیت پرستی پر ہوگا۔

یہاں سلطان محمود غزنوی کے دربار میں سلطان کے سامنے ایک شافعی عالم کی طرف منسوب قصے کی طرف اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے جس کی صحت سے تغربردی وغیرہ نے انکار کیا ہے، کہ اس عالم دین نے محمود غزنوی دل میں مذہب حنفی سے نفرت پیدا کرنے کے لئے وضو اور نماز بطور نمونہ پیش کیا، اس نے نبیذ سے وضو کیا، جس میں  اعضاء کو دھونے کی ترتیب بدل دی ، اور پاؤں دھونے سے وضو کا آغاز کیا،اس کے بعد کاندھوں پر غیر مدبوغ جانور کا چمڑہ پہنا، قرآن کی آیتوں کی  تلاوت کے بجائے عجمی زبان میں ترجمہ پڑھا، رفع یدین نہیں کیا، اور مرغ کے چونچ مارنے کی طرح نماز کے ارکان ادا کئے، اور آخر میں سلام سے اختتام کے بجائے ہ ۔۔۔۔۔۔ ایسی نماز سے کون متنفر نہیں ہوگا، اب اگر نبیذ سے وضو کے جواز کی بحثیں فقہ کی کتابوں میں آئی ہیں تو وہ وہیں اچھی لگتی ہیں،  اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ ایسے مسائل اکٹھا کردیں، کوئی کٹر سے کٹر حنفی بھی اس وضو اور نماز کو قبول نہیں کرے گا۔احمد امین اور طہ حسین کی آب بیتیاں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے مذہب شافعی اورحنفی کے مسائل شاذہ کی بحثوں نے طہ حسین جیسے کئی ایک حساس نوجوانوں کو مذہبی حلقہ سے بیزارکیا، مذہب پر سے ان کااعتماد ختم کیا، اورفرانسیسی متعصب دین بیزار دانشوروں کےلئےتر نوالہ بنادیا،یہاں تک کہ ان دانشوروں نے سوربون سے ڈگریاں لے کر مصر اور عالم عرب  کے افکار وومعتقدات میں سیندھ لگادیا۔ ان خدمات کے صلے میں کسی کو عمید الادب العربی کاخطاب ملا تو کسی استاذ الجیل کا۔

لہذا اگر تسبیح گھمانے کی حافظ ابن حجر کی طرف نسبت ہوتو ، اسے الگ سے اجاگر کرنے کی کوئی تک نہیں بنتی، ہاں جب حافظ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی، ان کے مواقف اور مسلک پر کوئی تحقیق ہوگی، یا پھر دانہ دار تسبیح پر کوئی مقالہ تیار ہوگا تو پھر یہاں حافظ علیہ الرحمۃ کے موقف اور ان کے دلائل  پر مفصل بحث ہوگی، اس موقع  پر حافظ علیہ الرحمۃ سے اعتقاد اور محبت کی وجہ سے اس پر پردہ ڈالنا علمی خیانت شمارہوگی۔

اس وقت کچھ یہی صورت حال ہمارے یہاں اہل علم میں نظر آتی ہے، جو مصنفین یا مفکرین ہمیں پسند نہیں ہیں، ہم ان کی مختلف فیہ اور قابل نقد عبارتوں کو ڈھونڈھ ڈھانڈھ کر اجاگر کرتے ہیں، حالانکہ ان میں سے کئی سارے مباحث ان مصنفین یا مفکرین کے یہاں ذیلی یا وقتی حیثیت رکھتے ہیں۔ کچھ اس طرح ہمارے بعض بزرگان شخصیات پر موثر مضامین لکھتے ہیں، ان میں وہی چیزیں پیش کرتے ہیں، جن سے ان شخصیات کی مخصوص شبیہ پیش کرنا ہوتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حقائق تک پہنچنے میں یہ تحریریں کارآمد نہیں بن پاتیں،اور ادب وتاریخ میں کوئی اہم مقام نہیں پاسکتیں، ان تحریروں کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جن شخصیات کی زندگی عوامی اور اجتماعی ہوتی ہے ، اور ان کے مواقف دیر پا ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کے بعد بھی ان کا اثر جاری رہتا ہے،اور جن کی زندگیوں کے تمام رخ تاریخ کی امانت ہوتے ہیں، جن سے آنے والی نسلوں کو رہنمائی ملتی ہے، اب ان سے غیر ذاتی نوعیت کی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، ان کا تجزیہ کرکے قومیں آئندہ ایک ہی سوراخ میں ڈس جانے سے بچ سکتی ہیں، یہ بات اذکروا محاسن موتاکم کے زمرے میں نہیں آتی ۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر علم الجرح والتعدیل جیسا عظیم الشان علم وجود میں نہ آتا۔

00971555636151