بات سے بات: جناب عبد الباقی بن مولانا عبد الباری معدنی ؒ کی رحلت۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

10:34PM Tue 4 May, 2021

اب تو واٹس اپ کھولتے ہوئے ڈر سا لگتا ہے، کہیں اپنے کسی چہیتے کی اس دنیا سے داغ جدائی کی خبر نہ آجائے، آخر خوف کیوں نہ لگے ، کئی دنوں سے ایک قطارلگی ہوئی ہے ، دائمی سفر پر جانے والے دوست واحباب کی ، احبہ واعزہ کی، اس موقعہ  پر خادم الحجاج جناب محی الدین  منیری مرحوم کی زبانی وہ جملہ یاد آتا ہے جب ۱۹۵۱ ء کے حج کے دوران میدان عرفہ میں لو کے جھکڑ چل رہے  تھے، اور صحت مند لوگ  بھی چلتے چلتے بیٹھ جاتے ،  اور پھر وہ جنت المعلاء کی آخری آرام گاہ میں ہمیشہ کے لئے سوجاتے، اس وقت منیری صاحب سے ایک پرانے حاجی نے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ منیری صاحب اللہ تعالی کی شان آج  جلال میں معلوم ہوتی ہے۔

یہ بات آج اس لئے یاد آئی کہ ابھی واٹس اپ کھولا ہی تھا، کہ علم وکتاب گروپ پر منیری صاحب کے بہت ہی عزیز اور محب جناب عبدالباقی بن مولانا عبد الباری معدنی کی رحلت کی خبر نظر سے گذری، ان کی عمر باسی سے متجاوز تھی، ۱۹۷۴ء میں جب چنئی سے ہماری فراغت ہوئی تھی اس وقت سے ان کی ملاقات کا موقعہ نصیب نہیں ہوا تھا، لیکن دوسال قبل  جب انہیں پتا چلا کہ ان کے والد ماجد کو ان کی  رحلت پر نصف صدی گزرنے کے  باوجود یاد کرنے والے کچھ دیوانے موجود ہیں، تو نمبر تلاش کرکے مجھے وطن میں فون کیا تھا، اور اپنے اور خاندان والوں اور پرانے چاہنے والوں منیری صاحب، مختار احمد جاوید مرحوم وغیرہ کی خوب یاد تازہ کی تھی، عبد الباقی مرحوم میرے شیخ زادے تھے، اور ان کے چھوٹے بھائی مولوی فضل الباری جمالی میرے ہم سبق،  اب  اپنے والد کی نشانیوں میں  وہ اکیلے باقی رہ گئے تھے۔

مرحوم اپنی آباء و اجداد کی روایات کے امین تھے، آج  جنوبی ارکاٹ کے علاقے ، آمبور ، میل و شارم ،وانمباڑی وغیرہ   اکابر علمائے دیوبند کے عاشقوں کے گڑھ مانے جاتے ہیں، اور دیوبند سے یہ والہانہ محبت پیدا کرنے کا سہرا آپ کے جد امجد مولانا عبید اللہ خطیب مرحوم  کو جاتا ہے۔  مولانا وانمباڑی کے اعیان میں تھے، ان کا اس علاقے میں بڑا اثرورسوخ تھا،  آپ نے یہاں پر دینی تعلیم کی روشنی پھیلانے کے لئے مدرسۃ النسوان کی داغ بیل ڈالی، جس نے یہاں پر اسلامی ماحول پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، پھر آپ نے آندھرا کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے حضرت مولانا  مفتی رشید احمد گنگوہی ؒ کے خلیفہ حضرت مولانا مفتی محمد عبد اللہ پنگنوری ؒ کو  دعوت دی تھی، وہ ایک زاہد فقیر منش انسان تھے، آپ نے یہاں ان کا  گھر بسایا، مفتی صاحب نے یہاں پر مدرسہ  معدن العلوم کی بنا ڈالی، جو اس علاقے کی ایک مرکزی دینی درسگاہ شمار ہوتی ہے، عبد الباقی صاحب کے والد ماجد مولانا عبد الباری حاوی معدنیؒ  اسی مدرسے کے فارغ  التحصیل اور حضرت پنگنوری کے شاگرد خاص تھے، آپ کی سند حضرت گنگوہی سے ایک واسطہ سے ملتی تھی، ۱۹۵۱ء میں جب حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین مدنی رحمۃ اللہ بنگلور تشریف لائے تھے، تو آپ ہی نے آپ کو وانمباڑی آنے کی دعوت دے کر ساتھ لے کر گئے تھے،  اور آپ سے سلسلہ رشد وبیعت قائم کیا تھا، اس وقت سے علمائے دیوبند کے ساتھ یہاں کے لوگوں کے روابط مضبوط سے مضبوط تر  ہوتے چلے گئے، چنئی کی تاریخی جامع مسجد کے احاطے میں آپ کی دکان تاج بکڈپو عرصہ تک یہاں آنے والے علماء کی نشست گاہ رہی ، جہاں منیری صاحب کی ایجنسی تاج کمپنی سے پاکستانی مصاحف کے اعلی ایڈیشن ، قدردانوں تک پہنچتے، چنئی میں عازمین حج بیت اللہ کی خدمت اور رہنمائی میں آپ پیش پیش رہتے، عبد الباقی مرحوم میں بھی خدمت کا یہ جذبہ اپنے والد ماجد سے منتقل ہوا تھا،  ۱۶ جنوری ۱۹۷۲ء کو جدہ ایرپورٹ سے مکہ مکرمہ کے راستے میں مر الظہران کے مقام پر دورا ن سفر تلبیہ پڑھتے ہوئے  مولانا حاوی نے داعی اجل کو لبیک کہا، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ  روز قیامت تلبیہ پڑھتے ہوئے اپنی قبر سے آپ اٹھیں گے۔

مولانا عبد الباری معدنی ؒ ہمارے استاد تھے، منیری ؒ صاحب نے آپ ہی کی نگرانی میں  اعلی دینی تعلیم کے لئے چنئی بھیجا تھا۔ لیکن مولانا کی شاگردی میں زیادہ دن رہنا  نصیب نہیں ہوا، لیکن ان کی محبتیں اور شفقتیں نصف صدی گزرنے کے باوجود اب بھی دل میں تازہ ہیں، عبد الباقی صاحب نے دو سال قبل جس محبت اور اپنائیت کا مظاہر ہ کیا تھا، تو ارادہ تھا کہ آئندہ سفر میں ضرور ان سے ملاقات کا کوئی نظم ہوگا،  اور ان سے اس کا وعدہ بھی کیا تھا ، اب اچانک خبر آئی ہے کہ عبد الباقی صاحب نے اس دار فانی کو ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دی ہے، اور یہ  دنیا ایک مخلص اور شریف قوم کے خادم سے محروم ہوگئی  ہے، اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ آمین۔

2021-05-05

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/