بات سے بات: فضائل اعمال کی بات۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

10:10PM Fri 21 May, 2021

آج گروپ پرایک ویڈیو پوسٹ ہوئی ہے، جس میں فضائل اعمال اور تبلیغی نصاب پر ایک عرب عالم دین نے تنقید کی ہے، جن صاحب نے اسے پوسٹ کیا ہے غالبا ان کے علم میں یہ بات پہلی مرتبہ آئی ہے، اگر ایسا ہے تو ہمارے علماء کو اتنا بھی نابلد نہیں ہونا چاہئے۔

اس جیسے منافرانہ خیالات کو روکنے کے لئے جیسی سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئیں ، حقیقتا ابھی تک نہیں ہوئی ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک بس ہمارے یہاں کے ایک عالم دین نے کوئی پندرہ سال قبل بڑی ہی سنجیدہ کوشش کی تھی، جو ایک حد تک کامیاب  بھی رہی ، کیونکہ وہ اہل زبان کی طرح ان تک اپنی بات پہچانا چاہتے تھے، وہ سابق شاہ کے زمانے میں جنادریہ کے سالانہ سرکاری جشن کے مہمان بن کر گئے تھے، اور اپنے وقت کے  طاقت ور وزیر داخلہ پر اس مسئلہ کے منفی اثرات کو کھل کر بیان کیا تھا، اور برصغیر کی مسلم رائے عامہ پر ان افکار کی ترویج کے غلط اثرات اور ان کے ملک کے بارے میں تصور خراب ہونے کے کی بات کی تھی، جس کے بعد وہاں پر منافرت پھیلانے والےبرصغیر کے کئی ایک مقررین کو بہت محدود کردیا گیا تھا، اور ان کے کیسٹوں وغیرہ کی سرکاری اداروں سے اشاعت پر پابندی لگادی تھی، لیکن ملت کی بد نصیبی کہ پھر اس عالم دین کی خداداد صلاحیتیں قوم کے لئے مفید نہیں رہیں۔

 اس وقت جو ویڈیو پوسٹ ہوئی ہے وہ مستقل تقریر نہیں  معلوم ہوتی ، بلکہ کسی سوال کا جواب محسوس ہوتا ہے، یا پھر یہ کافی پرانی چیز ہے۔ اگر یہ پرانی ہے تو اور اسے آج گروپ پر نئی چیز کی حیثیت سے پوسٹ کرنا گڑے مردے  اکھاڑنے کے مترادف ہے، اب وہاں پر لوگوں کی ترجیحات بدل رہی ہیں، مکمل پس منظر جانے بغیر اس قسم کی چیزیں پوسٹ کرنا غیر ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔

یہاں پر اس منافرت کے ازالہ کے لئے جو علاج پیش کئے گئے ہیں وہ زیادہ وزنی محسوس نہیں ہوتے، دراصل فضائل اعمال کی حدیثوں کے سلسلے میں اختلاف میں سازش تلاش کرنا اپنی ذمہ داریوں سے ہاتھ اٹھانے کے مترادف ہے۔ علماء کو اس سلسلے میں ایک ذمہ دارانہ رویہ اپنا چاہئے، اس کے لئے اکاڈمک طرز پر سنجیدہ  تحقیقی کام ہونا چاہئے، جو مخاطب کی سمجھ میں بھی آسکے، لیکن کیا کریں؟ مشکل یہ ہے کہ ہم اپنی پیٹ تھپتھپانے کے عادی ہوچکے ہیں،اپنے حلقہ کے دوست واحباب کے ہر کام کو معیاری، اور تحقیق کی انتہاء سمجھنے لگتے ہیں۔ جو درست نہیں ہے۔

 بنیادی طور پر یہ مسئلہ احناف اور محدثین کے درمیان جرح وتعدیل کے اصول وقواعد میں اختلاف کا ہے، اور اس سلسلے میں ٹھوس اور اہم کام شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کا ہے، اس موضوع پر شیخ علیہ الرحمۃ نے مقدمہ فتح الملھم، مقدمہ اعلاء السنن، الرفع والتکمیل، شرح الشرح، امعان النظر، الاجوبۃ الفاضلہ،الامام ابن ماجہ وکتابہ السنن،ظفر الامانی،قفو الاثرکو نئی زندگی بخشی، ورنہ یہ کتابیں عالم عرب کو چھوڑئے خود برصغیر میں بہت مظلوم تھیں، یہاں کے لوگ بھی سرسری طور پر انہیں جانتے تھے۔ اور صرف مصنف کا نام سن کر تعریف کیا کرتے تھے۔

کسی زمانے میں فضائل اعمال کے سلسلے میں ہمیں خود بہت سے اشکالات تھے، لیکن اعلاء السنن کے مقدمہ قواعد علوم الحدیث کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ اس کی بہت سی متنازع روایتیں احناف کے اصول حدیث کے مطابق ہیں۔ در اصل ہماری مشکل یہ ہے کہ اپنے اکابر کی شان میں مبالغہ آمیز القاب استعمال کرنے کو ہم احترام سمجھتے ہیں، رہی بات وسعت مطالعہ اور مصادر اور دلائل سے واقفیت کی، تو یہ جاننے والوں کی آخری صف میں کھڑے رہتے ہیں۔ ان باتوں سے ہم اپنوں کو تو مطئمن کرسکتے ہیں، لیکن جن کو در حقیقت مطمئن کرنا ہے، انہیں ان کا پتہ بھی نہیں ہوتا۔

2021-05-22

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/