بات سے بات: ذکر مقامات تلاوت کا۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

09:32PM Sun 25 Apr, 2021

آج علم وکتاب گروپ پر قرآن کریم سے وابستہ علم تجوید وقراءت پر پیغامات  کو بڑی تعداد میں دیکھ کر دلی مسرت ہوئی، ورنہ  ماہ مبارک کے پہلے عشرہ  میں جس طرح دوسرے  موضوعات نے گروپ کو گھیر لیا تھا، اور آپسی تبادلہ خیال کی کثرت رہی تھی، اس سے تو گروپ کی افادیت کے سلسلے میں خود ہمیں بھی شک ہونے لگا تھا، گروپ کے بعض معزز ممبران  نے شکایت بھی بھیجی  تھی کہ گروپ کا معیار بہت گررہا ہے۔ اور قارئین سے جس آپسی احترام کی توقع کی جاتی ہے، اسے بعض ممبران مجروح کررہے ہیں۔

ماشاء اللہ ہمارے محترم ممبران میں مولانا محمد طلحہ منیار صاحب اور مولانا مفتی سید شاہ جہاں صاحب ، اور ہمارے نوجوان عالم دین مولوی سعود شنگیٹی بھی تجوید اور قراءت کے موضوع پر خوب افادات بکھیر رہے ہیں،خدا کرے ماہ مبارک میں یہ سلسلہ اپنی جوبن پر ہو، اور ہم جیسے تہی دامن بھی  بارش کے ان قطرات سے اپنے دامن کو تر کرتے رہیں۔

گروپ کے سبھی ممبران  قابل احترام  ہیں، لیکن مولانا مفتی شاہ جہاں صاحب سے ہمارا خاص تعلق  خواطر ہے، اس کی بڑی وجہ عشروں پر محیط ان سے ہونے والی نوک جھونک ہے، انہوں نے ہماری باتوں کا کبھی برا نہیں مانا، ان کے علمی مقام اورمرتبہ کو دیکھ کر ہم بھی اپنی رائے کے خلاف  ان کی رائے کا برملا اختلاف سے احتراز کرنے کی ممکنہ کوشش کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ قانون ایک آنکھ سے دیکھتا ہے،اس کی تشریح بعض لوگوں نے یوں کی ہے کہ اس کی دوسری آنکھ بند ہوتی ہے، ہمارے مفتیان کرام پر بھی یہ بات زیادہ تر صادق آتی ہے، اسی لئے فتوی نویسی کے ادب میں لکھا جاتا ہے  کہ  زید وعمر و کو مخاطب کریں، کسی متعین نام کا ذکر نہ کریں، شاید یہی مجبوری ہے جس کی وجہ سے کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے مفتی صاحب   سب کو ایک ہی  لاٹھی سے ہانک رہے ہیں، اور جب یہ لاٹھی ہم  جیسوں پر  پڑتی ہے تو اس کی چوٹ کچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگتی ہے۔

اللہ ہمارے مولانا منیار کا سایہ تادیر قائم رکھے، ان کے توسط سے گروپ میں قرآنیا ت کی ایسی بحثوں کو جلا ملتی ہے، جن کا تذکرہ عموما نہیں ہوا کرتا، وہ  مقامات تلاوت ، رست، نہاوند ، حجازی وغیرہ کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ اس پر ہمارے مفتی صاحب تو بھڑک ہی اٹھتے ہیں، اٖفغان کی پہاڑیوں میں پلے بڑھے ہیں، انہیں تلاوت قرآن میں تکلف اور تصنع سے بیر ہے، اور ایک عالم کو ایسا ہونا  بھی چاہئے ، جہاں علمی وفکری بحثیں ہوں وہاں فتوے کی زبان کے بجائے تفصیل میں جانے کی ضرورت ہوتی ہے، یہ ہماری ناقص رائے ہے۔

جہاں تک مقامات تلاوت  کا تعلق ہے، اس کے سیکھنے میں مصری قاری حضرات  کے یہاں زیادہ محنت اور اہتمام کا مظاہرہ ہوتا ہے، اس کی بڑی وجہ  نعت خوانی، غزل خوانی کی طرح قراءت کے پیشے کا یہاں پر   پروفیشنل ہونا ،اور اس سے ذریعہ معاش اور آمدنی کا جڑے رہنا ہے، یہاں کے پیشہ ور قاری شاذونادر ہی ایسے ہوتے ہونگے،  جو محفلوں اور صاحب ثروت لوگوں کے گھروں میں اموات  اور ماتم کے موقعوں پر تیار ہوکر قراءت کی مجالس سجانے نہیں جاتے ہوں،اس سے ان کا ذریعہ آمدنی بنتا ہے، لہذا  دیکھا گیا ہے کہ قاریوں کی ایک معتد بہ تعداد اپنے آواز کی مقبولیت بڑھانے کے لئے  فن قراءت کے ساتھ ساتھ موسیقی کا علم بھی پاتی ہے، سنہ ستر کی دہائی سے پہلے جب جدہ سے اذاعۃ القرآن الکریم عام نہیں ہوئی تھی، جلسوں  اور محفلوں میں پڑھی جانے والی انہی قاریوں کی قراءتیں مقبول عام تھیں۔

۔۱۹۶۱۔میں مصری صدر جمال عبد الناصر کے دور حکومت میں شیخ محمود خلیل الحصری کی آواز میں قرآن کی مکمل تلاوت ( المصحف المرتل) کی گرامو فون۔ ۔ یل پی  ریکارڈ پر ریکارڈنگ  ہوئی تھی،  یہ اپنی نوعیت کی پہلی ریکارڈنگ تھی، اور آئندہ دس سال تک یہ مکمل قرآن کی واحد ریکارڈنگ رہی، اس  زمانے میں  ان گرامو فون ریکارڈوں  تک رسائی عام نہیں تھی، صرف حکومتی سطح پر  یہ دستیاب تھے ، جنہیں قرآن سننے کا شوق ہوتا  وہ صرف قرآن سننے کے لئے گراموفون مشین خریدنے کی عیاشی کیوں پالتےـ؟۔ یہی وجہ تھی سنہ ساٹھ کی دہائی میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے ابتدائی درجات میں جب ہم  پڑھتے تھے تو   ہمارے وزیر باتدبیر مرحوم شمس الدین جوکاکو  کے بھائی میراں جوکاکو مرحوم نے بڑے چاؤ  کے ساتھ گراموفون کے ان ریکارڈوں کا سیٹ  جامعہ کوہدیہ کیا تھا، یہ ریکارڈ وقت کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کر  بکھر گئے، کبھی  انہیں سننے کا موقعہ نہیں ملا، ہمیں معلوم نہیں کہ شیخ حصری نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم پائی تھی یا نہیں، لیکن مصری قاریوں کی تلاوتوں میں سے آپ کی تلاوت میں جو درد اور سوز پایا جاتا ہے، اس کا جواب نہیں، البتہ آپ کی دختر یاسمین الحصری نے گانے کاپیشہ اپنا یا تھا، اور پھر اس  نے اس پیشہ سے توبہ بھی کی تھی۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔

شاید آپ کو یہ جان کر تعجب ہو کہ مصر کی کئی ایک مغنیات نے اپنی زندگی کا آغاز قراءت قرآن  سے کیا تھا، لیکن جب ازہر نے عورت کی آواز میں قرآن کی ریکارڈنگ کی ممانعت کردی  تو پھر انہوں نے اسے چھوڑ کر گانے کا پیشہ اپنایا۔ان قاریات کی آواز میں  باریک نسوانیت سے زیادہ مردانگی کو آپ محسوس کریں گے۔

یو ٹیوب پر خانہ کعبہ کی  ۱۸۸۵ ء کی ایک ویڈیو دستیاب ہے، یہ خانہ کعبہ کی قدیم ترین ویڈیو  ریکارڈنگ ہے۔ اس کے ساتھ ایک تلاوت ڈب کی گئی ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تلاوت بھی اسی زمانے کی ہے، یہ مغالطہ ہے، یہ تلاوت در اصل مصری مغنیہ  سکینہ حسن  کی ہے،آپ کی ولادت ۱۸۹۲ء کو ہوئی تھی، آپ  نے اپنی فنی زندگی کا آغاز قرات قرآن سے  کیا  تھا، بہت ممکن ہےآواز کی  ریکارڈنگ  کا آغاز بیسوی صدی کی ابتدا میں آپ  ہی کی قراءت سے ہوا ہو ، اور یہ آواز کی اولین رکارڈنگ ہو،  لیکن جب ازہر نے عورت کی آواز میں تلاوت کی ریکارڈنگ پر پابند ی عائد کی تو پھر اس نے  قراءت کی ریکارڈنگ بند کرکے گانوں کی ریکارڈنگ کی طرف رخ کیا۔

کچھ یہی حال ام کلثوم کا بھی ہے، آپ کی فنی زندگی کا آغاز بھی قراءت قرآن سے ہواتھا، کہا جاتا ہے کہ ام کلثوم کی آواز میں پورا قرآن ریکارڈ کیا گیا تھا، لیکن  ازہر شریف کی ممانعت کے بعد اسے تلف کیا گیا،پھر ام کلثوم طرب وغنا  ء کی علامت بن گئی،  مشہورنومسلم مریم جمیلہ نے، جو کہ مشرف بہ اسلام ہونے سے پہلے امریکہ میں موسیقی کی ایک طالبہ رہی تھی ،لکھا ہے کہ قرآن اور اسلام کی طرف مائل ہونے  کا اولین باعث ام کلثوم کی آواز میں سورہ رحمن اور یس کی  تلاوت کا سننا تھا۔

جب قارئات کا ذکر آہی گیا  ہے تو یہ بتانے میں حرج نہیں کہ جب ہم چنئی میں پڑھتے تھے تو ملیشیاء کے کئی ایک ساتھی ہمارے  دارالعلوم میں پڑھتے تھے، انہیں دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے خوبصورت آواز اور موسیقی ان کے خون میں رچی بسی ہوئی ہے ،  ملیشیا نے برطانیہ سے آزادی پانے کے بعد  یوم آزدی پر  سالانہ  عالمی حسن قراءت کا مقابلہ شروع کیا تھا، یہاں کی حاجہ رقیہ رحمن  صاحبہ  سب سے بڑی قارئہ شمار ہوتی ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے آغاز میں ان کی چند بڑی نادر کیسٹیں ہمارے پاس منظور ی کے لئے آئی تھیں، تو  ہم نے اپنے  ڈپارٹمنٹ کے انچارج ایک     مصری عالم دین  کو نام بتائے بغیر یہ  سننے کو دیں، انہیں سن کر وہ  بڑے متاثر ہوئے، اور جب  ہم نے انہیں بتایا کہ   یہ تلاوت خاتون کی آواز  میں ہے، تو ہکا بکا رہ گئے، سکینہ حسن ، ام کلثوم، اور رقیہ رحمن کی قراءت کی خوبی یہ ہے کہ ان میں نسوانیت کی آواز کی باریکی نہیں ہے، اب آپ کہیں گے ، کہ اچھا مولوی ہوکر عورتوں کی تلاوتیں سنتے ہو، تو اتنی گنجائش ضرور دیں ، کہ یہ ہمارے  فرض منصبی میں شامل ہے ، اور شوافع کے یہاں ویسے بھی  عورت کی آواز   عورت نہیں  ہے ، کہنے کو تویہ بات ہم نے کہ دی، اب مفتی شاہ جہاں صاحب  کو کون سنبھالے؟

بات چلی تھی مقامات تلاوت کی، ہماری ذاتی رائے میں مصری قارئ  حضرات جس انداز سے فنون موسیقی اور اور مقامات کی تعلیم اور ان کی اتباع میں تکلف کرتے ہیں، انہیں محمود نہیں کہا جاسکتا ،  لیکن حجاز مقدس کے قاری حضرات اور ائمہ پر اس حکم کا عمومی اطلاق مناسب نہیں، کیونکہ یہاں کے قراء اور مدرسین قران کی تلاوت میں  یہ مقامات کچھ  اس طرح سے  رائج ہیں  جس طرح کہ ایک عربی اہل زبان نحو وصرف پڑھے بغیر اپنے ماحول  کے اثر سے درست اور سلیس زبان بولتاہے، وہ  بولتے وقت یہ نہیں سوچتا کہ  کہ یہ لفظ مذکر ہے یا مونث، مفتوح ہے یا مجرور، فاعل ہے یا مفعول، وہ قواعد زبان کی اتباع  پر عادتا مجبور ہوتا ہے۔ وہ پہلے زبان بولتا ہے  پھر بعد میں کہیں وہ نحو وصرف کی کتابیں  پڑھ کر زبان کے قواعد سیکھتا ہے، ہمارے عجمی زبان دانوں کے برخلاف۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے، کہ ۱۹۷۴ ء میں جب جامعہ آباد  میں  جامعہ اسلامیہ کی منتقلی ہوئی تھی، تو  مولانا شہباز اصلاحی مہتمم جامعہ، مولانا محمد اقبال ملا ندوی، حافظ کبیر الدین پہانی وغیرہ کے ساتھ ہم خورد بھی رات کے ساڑھے نو بجے اذاعۃ القرآن الکریم جدہ پر مصحف مرتل سننے کے لئے  اجتماعی طور پر بیٹھتے  تھے، رست ، نہاوند وغیرہ مقامات کا اس زمانے میں نام بھی نہیں سنا تھا، لیکن اتنا یاد ہے کہ حجاز مقدس کے استاد القراء ذکی داغستانی کی دو تلاوتوں میں سے ایک جب نشر ہوتی  تو  بہت بار سننے والوں کی  پلکیں بھیک جاتیں تھیں، اور ان پر رقت طاری ہوتی تھی، اور  اس کا دل پر ایک عجیب سا تاثر ہوتاتھا، کچھ عرصہ پہلے  مولانا محمد طلحہ منیار صاحب نے اس تلاوت کو سن  کر بتایا  تھا کہ یہ مقام رست میں ہے،ذکی داغستانی کی جو تلاوت عام ہے وہ حجازی طرز میں ہے، جو ہم لوگوں کو زیادہ پسند نہیں آتی،  شاید یہ ہماری بد ذوقی  کی علامت ہے، اول الذکر تلاوت عموما دستیاب نہیں ہے، ایک زمانے میں ہم نے یہ مصحف  مرتل ندرت کی وجہ سے دو مرتبہ ریڈیو سے ریکارڈ کیا تھا۔ اب انہیں  ترتیب دینے کے لئے محنت اور وقت کی ضرورت ہے، آوازوں کی پسند ذوق ذوق کی بات ہے۔ ضروری نہیں کہ جو ہمیں پسند ہو، وہ دوسروں کو بھی پسند آئے۔  کیونکہ انسان کی عادت ہے کہ  بچپن اور کم عمری میں جو چیز پسند آتی ، آخر تک یہ پسند باقی رہتی ہے۔ کھانے پینے کا بھی یہی حال ہے، اللہ غریقت رحمت کرے ،   جنت مکانی ہماری والدہ ماجدہ کو، جب ہمارا چھٹیوں میں وطن جانا ہوتا تو  کھانے میں وہی پرانی  تنگی  کے زمانے میں کھائی ہوئی چیزیں، سوکھی مچھلی، بومیل ، نمکین کیری  طلب کرتے تو شکایت کرتے  ہوئے کہتیں کہ جب تم پردیس میں رہتے ہو، تو ماہانہ آنے والے محدود مبلغ میں  رنگ برنگی، اچھی چیزیں نہیں کھائی جاسکتیں، جب تم  وطن میں رہتے ہو تو  کچھ  کشادگی ہوتی ہے، ہاتھ کھول کرخرچ کرسکتے ہو، اب بھی تم روکھاسوکھا کھاؤگے ، توپھر یہ بچے ہمیشہ اچھا کھانے سے محروم رہ جائیں گے۔

ذکی داغستانی کے بعد ارض حجاز میں کی کئی نسلیں آئی ہیں، جنہوں نے تلاوت کو ایک حسن اور جاذبیت دی ہے، خاص طور پر ۱۹۷۹ء میں حادثہ حرم کے بعد جو تبدیلی نوجوانوں میں آئی اور حرم شریف سے  تراویح  کی   باد بہار پھیلنے لگی تو اس سے قرآن سے تعلق اور حفظ کو جو فروغ ملا ہے ، اس سے پہلے اس کی نظیر نہیں ملتی ، ایک زمانہ تھا کہ حفظ قرآن کا رواج  چند خاندانوں یا مخصوص شہروں اور علاقوں تک محدود تھا،    نام لینا شاید مناسب نہ ہو، لیکن کئی ایک  مسالک کے ماننے اور علاقوں میں بسنے والوں کے سلسلے میں سننے میں آتا تھا کہ ان میں حافظ پیدا  نہیں ہوتے۔ لیکن اب وہ تاثر ختم ہوگیا ہے، جنہیں ہم باطل فرقے کہا کرتے ہیں ،اور سمجھتے ہیں کہ یہ تحریف قرآن کے قائل ہیں ،  اان کے یہاں بھی حفظ قرآن  ترویج پاچکا ہے۔

ہماری رائے ہے کہ تلاوت میں بنیادی چیز ، مخارج کی صحت، اور اوقاف کا اہتمام ، اور آیات قرآنی میں کمی یا زیاتی سے بچنا ہے،اب تلاوت میں جو تکلف  اور تصنع برتا جاتا ہے، مخارج اور اوقاف کی صحت سے زیادہ خوش الحانی اور نقالی پر توجہ دی جاتی ہے، اس کی موجودگی میں  کوئی خوبصورت سے خوبصورت آواز بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی، ساتھ ہی ساتھ  رلانے اور رقت پیدا کرنے کے لئے آیات قرآنی یا ان کے  مختلف حصوں کو  جو باربار  ٹکڑے ٹکڑے کر کے پڑھا جاتا ہے، اس پر تحریف کا سایہ سرآفگن معلوم ہوتا ہے، کیا کوئی نماز میں سورہ فاتحہ کو مکرر پڑھے، سورہ اخلاص کو باربار پڑھے، تو اس کے بارے میں کیا کہا جائےگا؟، قرآن کی دوسری آیتوں اور سورتوں کا حکم کیا اس سے مختلف ہوگا؟البتہ شیخ محمد ایوب ، شیخ احمد طالب حمید، یا شیخ بند ر بن بلیلہ جیسے ائمہ کرام  اپنی تلاوتوں میں عملا حجازی، رست وغیرہ مقامات تلاوت  کو اپنا تے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ ان کی تلاوتیں تو لوگوں کو قرآن سے قریب لارہی ہیں۔

 2021-04-25