جبریہ تبدیلی مذہب اور لو جہاد کے نظریے کو مسترد کرنے والی قابل ذکر رپورٹ... سہیل انجم

Bhatkallys

Published in - Other

03:38PM Sun 11 Jul, 2021
گزشتہ دنوں سروے کرنے والی ایک بین الاقوامی امریکی ایجنسی ’’پیو ریسرچ سینٹر‘‘ نے ہندوستان میں مذہبی صورت حال اور بین المذاہب شادیوں کے سلسلے میں ایک سروے رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ رپورٹ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی شہریوں کی اکثریت دوسرے مذاہب کا بہت احترام کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ وہ اپنے مذہب پر چلنے اور دوسروں کو بھی اپنے مذہب کی پیروی کرنے کی آزادی دینے کے حق میں ہے۔ البتہ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوسرے مذاہب میں شادیاں نہیں ہونی چاہئیں کیونکہ اس سے سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
آئیے پہلے اعداد و شمارپر نظر ڈال لیتے ہیں۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 98 فیصد ہندوستانی اسی مذہب کو مانتے ہیں جس میں وہ پیدا ہوئے۔84 فیصد شہری محسوس کرتے ہیں کہ تمام مذاہب کا احترام کیا جانا چاہیے۔ تمام بڑے چھ مذاہب ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ، بودھ اور جین کے پیروکاروں کا خیال ہے کہ انھیں اور دوسروں کو بھی اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ رپورٹ کے مطابق صرف صفر اعشاریہ سات فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی ایک ہندو کے طور پر پرورش ہوئی مگر اب وہ دوسرے مذہب کو مانتے ہیں۔ صفر اعشاریہ آٹھ فیصد کا کہنا ہے کہ ان کی پرورش ایک ہندو کے طور پر نہیں ہوئی لیکن اب وہ ہندو ہیں۔ صرف صفر اعشاریہ چار فیصد ہندو اپنا مذہب تبدیل کرکے عیسائی بنے ہیں۔ جب کہ صفر اعشاریہ ایک فیصد کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنا پیدائشی عیسائی مذہب ترک کر دیا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ حالیہ دنوں میں بین المذاہب شادیوں اور بالخصوص ہندو عورتوں کی مسلم مردوں سے شادی کو ’’لو جہاد‘‘ قرار دینے کے تناظر میں اس رپورٹ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ ان کے مطابق غیر مسلم خواتین کے مسلم مردوں سے شادی کا جتنا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اتنی سچائی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں صرف دوسرے مذاہب میں شادیوں پر ہنگامہ نہیں ہوتا بلکہ اپنے مذہب کی دوسری برادریوں میں ہونے والی شادیوں پر بھی تنازع پیدا ہوتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں ہونے والی شادیوں میں صرف دس فیصد شادیاں ایسی ہیں جو دوسری برادریوں میں ہوئی ہیں۔ جبکہ دوسرے مذاہب میں شادی کی شرح صرف دو اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ یعنی انتہائی کم۔ ایک رپورٹ کے مطابق دار الحکومت دہلی میں سال 2019 میں جنوری سے ستمبر کے درمیان رجسٹرڈ ہونے والی 19250 شادیوں میں صرف589 شادیاں دوسرے مذاہب میں ہوئی ہیں۔
خیال رہے کہ یہ رپورٹ 2019 کے اواخر اور 2020 کے اوائل میں 26 ریاستوں میں کیے گئے ایک سروے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ اس سروے میں 17 زبانیں بولنے والے 30 ہزار بالغ شہریوں سے دوبدو متعدد سوالات پوچھے گئے تھے جن میں زیادہ تر سوالات مذہب سے متعلق تھے۔ یاد رہے کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں اترپردیش، آسام، گجرات، مدھیہ پردیش اور کرناٹک نے تبدیلی مذہب مخالف قوانین منظور کیے ہیں اور ان کے تحت مقدمات بھی درج ہو رہے ہیں۔ ان قوانین کے مطابق شادی کے لیے مذہب بدلنے کو غیر قانونی قرار دیاگیا ہے۔