بھٹکل نامدھاری سنگھا اپنے لیڈروں کی حمایت میں۔۔کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے؟! (پہلی قسط)۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
کچھ دنوں پہلے بلدیہ کی دکانوں کی نیلامی سے شروع ہونے والا تنازعہ اور اس کے بعد بگڑتا ہوا ماحول ابھی سرد ہوتا نظر نہیں آتا۔دن بدن اس کے سیاسی، سماجی، فرقہ وارانہ اور قانونی رنگ سامنے آتے جارہے ہیں۔ اس مسئلے کی جڑ اور اس سے متعلقہ تمام تفصیلات کا احاطہ میں نے اپنے سابقہ مضامین میں کیا ہے۔ اب اس مسئلے کے حوالے سے چند روز قبل ایک نیا زاویہ جو ابھر کر سامنے آیا ہے ، یعنی دو چار نوجوان لیڈروں کی گرفتاری کے خلاف پورے نامدھاری طبقے نے سیاسی پارٹیوں سے اپنی وابستگی کو بھلا کرجس قسم کے سماجی اتحاداور یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور گھنٹوں دھرنا دے پولیس اور انتظامیہ کو اپنی بات سننے پر جس طرح مجبور کیااس تناظر میں آج کچھ گفتگو کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس لئے بقول شاعر
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے ؟!: نامدھاری طبقے نے دوچار لیڈروں کے خلاف پولیس کی کارروائی پر جس طرح متحدہ آواز میں سوال کھڑا کیا اور ایک زبردست احتجاجی مظاہرے کا کامیاب انعقاد کیا ، اسے دیکھ کر بہت سارے لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھا کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے؟کچھ لوگوں نے براہ راست مجھ سے سوال کیا کہ اتنی دیر تک دھرنا دینے اور سڑک جام کرنے کی جو کھلی اجازت ان مظاہرین کو دی گئی ہے کیا پولیس اور انتظامیہ ہمیں ایسا کرنے کا موقع دیتی ہے؟بعض نوجوانوں نے پوچھاکہ کیا ہمارے لوگ اس طرح متحد ہوکر ہمارے کسی ادارے کی آواز پراتنی بڑی تعداد میں جمع ہوسکتے ہیں؟ بہرحال تمام سوالات ، گلے اور شکوے کا لب و لباب یہ تھا کہ پولیس اور انتظامیہ دوہرا معیار اختیار کرتی ہے ۔ غیروں کی ہر طرح کی ہنگامہ آرائی اور مقابلہ آرائی کو برداشت کرلیتی ہے اور ہمارے معمولی مظاہرے کو بزور طاقت اور بذریعے قانون دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ آدھے سچ پر منحصر سوچ ہے: آدھا سچ یہ ہے کہ یقینی طور پر پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے ہندوستان کے کسی بھی علاقے مسلمانوں کو جمہوری حقوق کے تحت بھی کوئی بڑامظاہرہ کرنے یا اپنے مسئلے کو جمہوی طرز پر عوام اور میڈیا کے سامنے رکھنے کے لئے اکثر و بیشتر آسانی کے ساتھ موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ہم منظم اور مخلصانہ اتحاد کا مظاہرہ بھی کم کم ہی کیا کرتے ہیں۔لیکن جہاں کہیں بھی کچھ تنظیمیں اور ادارے جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ایک بے باک نقطۂ نظر اور شفاف پالیسی کے تحت کسی بھی ایشوپر اپنی اجتماعیت اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں ، وہاں پولیس او ر انتظامیہ کو ہماری بات سننے پر آمادہ کرنا بھی ممکن ہوتا ہے۔خود ہمارے اپنے مرکزی ادارے کی قیادت میں ماضئ قریب میں ایک سے زائد مرتبہ دس دس پندرہ پندرہ ہزار افراد پرمشتمل احتجاجی مظاہرے عملاً کیے جاچکے ہیں۔ اور آئندہ بھی کیے جاسکتے ہیں۔بشرطیکہ صبر وضبط، دانشمندی ، بے باکی اور اخلاص کے ساتھ منصوبہ بندی کی جائے اور متحدہ طور پر اس کے نفاذ کی کوشش کی جائے۔ مگر ہم اپنے اتحاد میں کتنے مخلص ہیں!: مگربنیادی سوال یہ ہے ملک گیر پیمانے پر پوری ملت اسلامیہ کاجائز ہ لیاجائے تو سینکڑوں ، ہزاروں دیوی دیوتاؤں کو ماننے والے، مذہبی اور سماجی بنیادوں پر سینکڑوں طبقات میں بٹے ہوئے لوگ اپنے کسی بھی مسئلے پر اپنی قیادت کے پیچھے ملت واحدہ بن کر صف بندہوجاتے ہیں،لیکن عالمی اور آفاقی ملت واحد ہ کا خطاب جومسلمانوں کے ساتھ وابستہ ہے اس کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں مشترکہ، متفقہ اور متحدہ قیادت وقت کا تقاضا ہے۔مگرایک زمانہ ہوگیا کہ اس قسم کا اتحاد اور قیادت دونوں دیوانے کا خواب ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہمارے دانشور، ادباء ، شعراء اور مفکرین و مدبرین اس صورتحال کا تجزیہ کرتے، صلاح دیتے ، سعی وجہد کرتے اور اپنا خون جلاتے رہ گئے اور ہم بحیثیت قوم اپنی اپنی چال چلنے میں مصروف رہے ہیں۔اوروں کا احتساب تو کرتے ہیں روز روز آؤ کہ آج اپنے گریباں میں جھانک لیں
بھٹکل میں اجتماعیت ایک نعمت ہے: الحمدللہ ہندوستان کے ان مخدوش سیاسی و سماجی حالات میں بھی بھٹکل میں مسلمانوں کی جو مثالی اجتماعیت ہے وہ بے شک ایک بڑی نعمت ہے۔ اورسیاسی و سماجی محاذ پر مجلس اصلاح و تنظیم کی قیادت کو عوام نے ماضی تا حال جس طرح سر آنکھوں پربٹھائے رکھا ہے اس کے لئے شکر خداوندی کے ساتھ ساتھ یہاں کے مسلمانوں کے جذبہ اخوت و خیرسگالی اور ملّی بیداری کو ہزار بار سلام کرنا چاہیے۔ہر ادارے اور تنظیم کی ترقی وتنزلی کے مختلف مدارج اور مراحل ہوا کرتے ہیں۔ زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو کامیابیوں کو انعام رب اور ناکامیوں کونئی بیداری کے لئے تازیانہ سمجھتی ہیں اوراپنی حکمت عملی کی ترتیب و تشکیل میں وقتاً فوقتاً ضروری ترمیم وا صلاح کو جگہ دیتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ تنظیم کی صد سالہ قیادت کے دوران بھی انتظامی اور عملی کارکردگیوں کے حوالے سے اس طرح کے مختلف بھلے برے دوراور نشیب وفراز آتے جاتے رہے ہیں۔اس کے باوجود یہ بھی اللہ کا فضل اور شکر کا مقام ہے کہ تنظیم کی تاریخ روشن کارناموں سے بھری پڑی ہے۔اور ملک کے کچھ دیگر ملی ادروں کی طرح بدعنوانی یا بد عملی جیسے داغ دھبوں سے اس کا کردار پاک و صاف رہا ہے۔ پھر بہتر قیادت نہ ہونے کا گلہ کیوں ہے!: یہ ایک فطری سوال ہے کہ ان سب مثبت پہلوؤں کے بعد بھی تنظیم کی قیادت سے عوام کو گلے شکوے کیوں ہوتے ہیں۔ کیوں بار بار لوگوں کا ہجوم تنظیم کی قیادت کا محاسبہ کرنے کے لئے دفترکی طرف لپکتا ہے؟کیوں کچھ گروہ اور بالخصوص نوجوان ہر سنگین اور کشیدہ صورتحال میں اپنے آپ کو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں؟ کیوں کچھ لوگ انجان آوازوں میں تنظیم کے عہدیداروں کو جگانے کے نام پر جانے انجانے میں تنظیم کے تعلق سے عوامی اعتماد اور بھروسے کو کھوکھلا کرنے کی نادانی کرتے ہیں؟ کیوں دوسرے شہروں میں اپنے وجود کا احساس دلانے والے کسی ادارے یا گروہ کو ایک صدی سے چلی آرہی تنظیم کی اجتماعی اور متحدہ قیادت سے انحراف کرتے ہوئے اپنے پالیسی پروگرام میں بھٹکل کے نوجوانوں یا عوام کو ملوث کرنے کا موقع مل رہا ہے؟ مختصراً یہ کہ بھٹکل کے مسلم عوام کو آخرمؤثر اجتماعی قیادت کے فقدان کا احساس کیوں ہورہا ہے ؟کیا اس میں کسی حد تک سچائی ہے یا پھریہ عوام کی غیر دانشمندی اور بھول ہے ؟ اس کی وجوہات اور محرکات کیا ہیں؟ان سوالات پر سنجیدگی سے غور کرنا اس لئے ضروری ہے کہ بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی موسم کی گرم ہوائیں اس بات کا اشارہ دے رہی ہیں کہ آئندہ دنوں میں بھٹکل کے مخصوص حالات کے پیش نظر مسلمانوں کوتنظیم کی اجتماعی اور متحدہ عوامی قیادت کی شدید ضرورت ہوگی اور پہلے سے کہیں زیادہ ہوگی۔کیونکہ بقول کلیم عاجز ؔ آشنائے وفا ہیں نہ یارِ وفا ، شہر میں بند ہے کاروبارِ وفا اس قدر بھاؤ بازار کا گِر گیا ، لوگ اپنی دکانیں اٹھا لے گئے
(۔۔۔ان سوالات کے پس منظر میں۔۔۔۔ بات جاری رہے گی۔۔۔اگلی قسط ملاحظہ کریں) haneefshabab@gmail.com (مندرجہ بالا مضمون میں موجود تمام تر مواد مضمون ناگار کی ذاتی رائے اور خیال پر مشتمل ہے اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ )