کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا غلط ہے

Bhatkallys

Published in - Other

03:45PM Tue 2 Feb, 2016
363625-KuldipNayarnew-1433443210-396-640x480 فاروق عبداللہ نے سری نگر سے شایع ہونے والے ایک کثیر الاشاعت اردو جریدے کے ایک مضمون میں کہا ہے کہ ان کے مرحوم والد شیخ عبداللہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے کہ کشمیری نوجوان اپنے حقوق کی خاطر بندوق اٹھا رہے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں ہونا تھا بلکہ یہ محض فاروق عبداللہ کی اپنی تصوراتی سوچ ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بھی اس طرح سوچتے تھے‘ کشمیری بھارت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کریں گے لیکن ان کا خیال غلط نکلا کیونکہ کشمیری لوگ اپنی فطرت میں صوفیانہ مزاج کے حامل ہیں اور شدت پسندی کے خلاف ہیں۔ میں شیخ عبداللہ سے بہت اچھی طرح واقف تھا۔ ایمرجنسی کے دوران مجھے تین ماہ کے لیے حراست میں لے لیا گیا۔ جب میں رہا ہو کر سری نگر پہنچا اور ان کے دفتر میں اپنی آمد کی اطلاع دی تو مجھ سے ملاقات کے لیے میرے ہوٹل پہنچنے والے وہ پہلے شخص تھے۔ مجھے ان کے الفاظ اچھی طرح یاد ہیں: اب تم بھی حاجی ہو گئے ہو۔ مراد یہ تھی کہ تم نے بھی جیل کی زیارت کر لی ہے۔ میں نے اندرا گاندھی کی جابرانہ حکومت کے خلاف بڑی سخت تنقید کی تھی جس پر مجھے گرفتار کر کے تہاڑ جیل بھیج دیا گیا۔ اس سے شیخ عبداللہ کو بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے ہاتھوں اپنی گرفتاری یاد آ گئی، جب انھیں تامل ناڈو کی ایک جیل میں قید کر دیا گیا تھا حالانکہ نہرو کے ساتھ شیخ عبداللہ کے بہت قریبی مراسم تھے اور جب بھی وہ دہلی جاتے نہرو کے پاس ہی قیام کرتے تھے حتیٰ کہ گرفتاری کے بعد بھی وہ وہیں ٹھہرتے رہے جب کہ نہرو نے اپنی غلطی تسلیم کر کے ان سے معافی بھی مانگ لی تھی۔ بھارت میں جو لوگ ہر وقت یہ کہتے رہتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘ وہ غلط ہیں کیونکہ ریاست جموں کشمیر کو آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت امور خارجہ‘ دفاع اور مواصلات کے سوا باقی تمام معاملات میں مکمل خود مختاری حاصل ہے۔ آئین کے جن آرٹیکلز کے تحت مرکزی حکومت کو اختیارات حاصل ہیں اس طرح جموں کشمیر کو بھی ریاستی قانون ساز اسمبلی کے تحت دیگر تمام شعبوں میں اختیارات حاصل ہیں۔ بالفاظ دیگر متذکرہ آئینی شقوں کے تحت ریاست جموں کشمیر کو جو اختیارات حاصل ہیں وہ بھارت کی کسی دوسری ریاست کو حاصل نہیں ہیں۔ اس وجہ سے شیخ عبداللہ نے ریاستی آئین ساز اسمبلی سے یہ قرار داد پاس کروائی کہ ریاست بھارت کے ساتھ الحاق کرے گی تاہم اس سے قبل انھوں نے صادق صاحب کو‘ جو بعدازاں ریاست کے وزیراعلیٰ بنے‘ پاکستان بھجوایا تا کہ دیکھا جائے کہ اسلام آباد حکومت کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ صادق صاحب نے واپس آ کر جو رپورٹ دی اس کے پیش نظر شیخ عبداللہ نے جو مہاراجہ کشمیر اور برطانوی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں شریک رہ چکے تھے‘ بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر لیا کیونکہ ان کے خیال میں یہ اجتماعیت کے اصول پر مبنی ریاست تھی جہاں مذہبی آزادی حاصل تھی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیخ عبداللہ کی واحد آزادانہ آواز تھی جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے اختلافات کے درمیان واضح طور پر سنی جا سکتی تھی۔ مجھے یاد ہے جب میں تہاڑ جیل سے رہا ہوا تو میرے ساتھی قیدیوں نے مجھ سے خاص طور پر کہا تھا کہ میں سری نگر جا کر شیخ عبداللہ سے کہوں کہ وہ ایمرجنسی کے خلاف آواز بلند کریں کیونکہ ان کی پورے ملک میں عزت کی جاتی تھی۔ جب میں نے سرینگر میں ان سے ملاقات کی تو شیخ عبداللہ نے باقاعدہ طور پر ایک بیان جاری کیا جس میں ایمرجنسی پر کھل کر تنقید کی اور اس مقصد کے لیے غیر مبہم الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ مسز گاندھی نے اس بیان سے شیخ عبداللہ کے ساتھ میرے تعلقات کو محسوس کر لیا۔ لیکن اصل معاملہ یہ تھا کہ اس بیان سے ایمرجنسی کے دوران گرفتار کیے جانیوالوں کا حوصلہ بڑھانا تھا۔ پوری قوم خاموش ہو چکی تھی اور اس وقت بولنے سے ڈرتی تھی۔ قوم کا احساس مردہ ہو چکا تھا اور اسے غلط یا صحیح اور اخلاقی یا غیر اخلاقی میں فرق کا بھی ادراک نہیں رہا تھا۔ شیخ عبداللہ جب بھی بولتے تھے پورا بھارت ان کی بات سنتا تھا کیونکہ ان کے بیانات ریاست جموں اور کشمیر کی حدود کو عبور کر جاتے تھے۔ اس طرح وہ عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کرتے تھے۔ حتیٰ کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں بھی شیخ عبداللہ کی باتوں کو بہت وقعت دیتی تھیں کیونکہ وہ اپنی ریاست ہی نہیں پورے ملک کی نمایندگی کرتے محسوس ہوتے تھے اور سیاست کی مجبوریوں سے بالاتر رہتے تھے۔ فاروق عبداللہ نے اپنے والد کو صرف کشمیر تک محدود کر کے ان کا قد چھوٹا کرنے کی کوشش کی ہے۔ شیخ عبداللہ اگر ہوتے تو نئی دہلی حکومت کی اس بات پر تادیب کرتے کہ اس نے کشمیریوں کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدے پورے نہیں کیے جس کی وجہ سے انھیں مجبوراً ہتھیار اٹھانے پڑے۔ ریاست کے الحاق کے وقت مرکزی حکومت نے ضمانت دی تھی کہ مرکز کے پاس صرف تین محکمے رہیں گے یعنی دفاع‘ امور خارجہ اور مواصلات باقی سب معاملات ریاست کے اختیار میں ہونگے۔ اس سے قبل بھی فاروق عبداللہ نے ایک بیان دیا تھا جو یقیناً مثبت تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ بھارت کو چاہیے کہ کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر قبول کر لے اور اسلام آباد کو اجازت دیدے کہ وہ آزاد کشمیر کو اپنا حصہ بنا لے۔ فاروق عبداللہ نے ایک لحاظ سے بڑے پتے کی بات کی ہے کیونکہ دونوں ملک کنٹرول لائن کی خلاف ورزی پر ایک دوسرے سے متصادم بھی ہوتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی اپنی جو بھی حکمت عملیاں یا تمنائیں ہوں تاہم ان کو حقیقت کا سامنا ضرور کرنا چاہیے۔ کنٹرول لائن ایک لحاظ سے بین الاقوامی سرحد ہی ہے۔ بھارت اور پاکستان نے سرحد کا یہ مسئلہ اپنے طور پر طے کرنے کی کوشش میں دو جنگیں بھی لڑی ہیں‘ اب تیسری جنگ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دونوں کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے پٹھانکوٹ کے واقعے پر بھارت کو مثبت جواب دیکر بڑا اچھا کام کیا ہے اور اس حوالے سے مزید تفصیلات طلب کی ہیں کیونکہ بھارت نے جو تفصیل دی ہے وہ کافی نہیں۔ انھوں نے مسعود اظہر کو گرفتار کر کے بھی اچھا کام کیا ہے جسے ممبئی حملے میں ملوث قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک صحت مند تبدیلی ہے کہ خارجہ سیکریٹریوں کی طے شدہ ملاقات کو منسوخ نہیں کیا گیا بلکہ اسے ری شیڈول کر دیا گیا ہے۔ نئی دہلی کو احساس ہے کہ نواز شریف کافی دباؤ کے باوجود جراتمندانہ اقدامات کر رہے ہیں تاہم آخری بات تو ظاہر ہے کہ آرمی ہی کی ہوتی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف سعودی عرب اور ایران میں مصالحت کرانے کے لیے آرمی چیف کو ساتھ لے کر گئے ہیں۔ نواز شریف آرمی چیف کو ہر میٹنگ میں برابر کا پروٹوکول دیتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کی یہ روایت ہے کہ اگر ایک دفعہ فوج حکومت کا حصہ بن جائے تو پھر وہ بیرکوں میں واپس جانا نہیں چاہتی۔ از:کلدیپ نیئر (ترجمہ: مظہر منہاس)