تجربات ومشاہدات(۴) ۔۔۔ تحریر ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی۔ الکویت

Bhatkallys

Published in - Other

05:05AM Fri 30 Apr, 2021

اجلاس صدسالہ سے پہلے شوری کی تجویز کے مطابق ہمارا سعودی عرب کا ایک سفرہوا مولانا محمد سالم قاسمی صاحب کےساتھ ہم ریاض ایر پورٹ پر اترے ہمارے ساتھ کچھ تعارفی کتابچے تھے ,کسٹم کے ملازمین نے اجازت نہیں دی تو میں نے شیخ محمد بن ناصر العبودی کو ٹیلیفون کیا تو ازراہ کر م وہ خود ہی تشریف لے آئے اوراپنی ذمہ داری پرتمام کاغذات کے ساتھ ہمیں ساتھ لے گئے اور فندق انٹر کونٹینٹل ریاض میں ہماری رہائش کا انتظام کیاگیا جہاں ہم دو ہفتے رہے,

شیخ عبد العزیز بن باز کی شخصیت مرکزی حیثیت کی حامل تھی, شیخ محمد بن ابراھیم کے بعد انہوں نے مفتی عام کا منصب سنبھالا تھا بحوث افتاء اور دعوت سبھی شعبوں کے وہ سربراہ تھے اور اپنے علم وفضل اور سادہ وبے تکلف طرز زندگی اور علم و عمل میں امتیاز کی وجہ سے ہرحلقے میں مقبول تھے, وفد کا انہوں نے استقبال کیا اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا اوراخلاق و محبت سے ملے دودنوں میں ہمارے نام اور آواز انکے حافظہ میں اسطرح محفوظ ہو گئے تھے کہ آواز سنی اور نام لیکر پکارا, انکے آفس کے ایک ملازم نے کچھ ایسی باتیں شیخ کے کان میں ڈالدیں کہ شیخ نے ایک دن سلام کی آواز سنتے ہی بلند آواز سے دریافت کیا :۔

سمعنا انکم اشاعرہ؟

میں نے فورا ہی جواب دیتے ہوئے عرض کیا :۔ اول کتاب یدرس عندنا في العقید ة "العقيدة الطحاوية " شيخ نے کسی قدر حیرت سے فرمایا: أنتم تدرسون العقيدة الطحاوية ؟ مين نے عرض کیا :۔ ان رئیس الجامعة الشيخ محمد طيب كتب شرحا نفيسا للعقيدة الطحاوية فسكت الشيخ الجليل واستأنس

حقیقت یہ ہے کہ عقیدہ طحاویہ کے شروع میں امام طحاوی نےلکھا ہے :۔ "هذہ عقیدة الامام ابي حنيفة وصاحبيه ابي يوسف ومحمد"

دوسری بڑی شخصیت شیخ عبد اللہ بن حمید کی تھی وہ فقہ حنبلی میں بڑادرک رکھتے تھے, قضاء کی سپریم کونسل اور شئون حرمین کے سر براہ بھی رہ چکے تھے امام و خطیب حرم اور نامور فقیہ شیخ صالح بن حمید انہیں کے صاحبزادے ہیں شیخ محمد بن ناصر العبودی نے اپنےگھر میں رات کےکھانے کی ہمیں دعوت دی تو اپنے استاذ شیخ عبد اللہ بن حمید کو بھی بلالیا جو ہمارے لئے نعمت غیر مترقبہ تھے, شیخ ابن باز ہی کی طرح وہ بھی آنکھوں سے معذور تھے لیکن علم و فضل میں بے مثال تھے اور خاص طور پر فقہ حنبلی کے مستند ترین علماءمیں ان کا شمار ہوتا تھا تعارف کے بعد انہوں نے سوال کیا کہ ہندوستان میں تفسیر کی کون سی کتاب پڑھائی جاتی ہے ؟ مین نے عرض کیا تفسیر جلالین پڑھائی جاتی ہے اسلئے کہ وہ مختصر ہے اور نصاب کے لئے موزوں ہے ,

شیخ نے سوال کیا پھر اس کے بعد کیا؟ میں نے عرض کیا کہ تفسیر بیضاوی کا ایک یاسوا پارہ شیخ نے کسی قدر جھنجھلاہٹ کے ساتھ فرمایا :۔ بیضاوی فیہ تآویل؟!۔

میں نے عرض کیا کہ :۔ نحن ندرس حتی الکشاف للزمخشری وفیه اعتزال وهذہ مسئولیة المدرس ان ينبه الطالب علي ما في الكتاب من أخطاء یعنی هم تو زمخشری کی "الکشاف" بھی پڑھتے ہیں جس میں اعتزال ہے یہ تو مدرس کا فریضہ ہے کہ وہ کتاب کی غلطیوں سے پڑھنے والوں کو آگاہ کرے اور مصنف کے مسلک سے انکو با خبر رکھے شاہ ولی اللہ صاحب کی الفوز الکبیر کا بھی میں نے ذکرکیا کہ اصول تفسیر کیلئے وہ موزوں ترین کتاب ہے یہ ذکر بھی کیا کہ نصاب کی کتاب تو بنیادی استعداد پیدا کرنے کیلئے ہوتی ہے اگر تفسیر ابن کثیر پڑھا ئی جائے تو وہ چونکہ سہل ہے اس سے استعداد پیدا نہیں ہوتی اسکے برخلاف بیضاوی پڑھنے سے دوسری تفسیروں کا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کھانے کی مجلس میں اس سے زیادہ گفتگو کی گنجائش بھی نہیں تھی _

ریاض میں مجلہ الدعوہ کے مدیر سعد آل فریان سے ملا قات ہوئی تو انہوں نے اپنے نمائندہ جاد البنا کو ہوٹل بھیجدیا تاکہ وہ مجھ سے تفصیلی انٹرویو لیں چنانچہ زور دار انٹر ویو ہوا اور مجلہ میں شائع بھی ہوا جوانی کا زمانہ بیانات میں جوش اور جذبہ دیکھ کر صحافی تو یہی لکھے گا "شعلة من النشاط "يتدفق حيوية "وغیرہ وغیرہ مکہ مکرمہ آنے کے بعد ایک ملاقات تو شیخ محمد الغزالی سے ہوئی لیکن ایک وقتی صورت حال میں میری ناتجربہ کاری کی وجہ سے تلخی پیدا ہوتے ہوتے رہ گئی شیخ اپنے آفس میں ٹیلیفون پر ظہران شہر کے بعض پرجوش نوجوانوں کا شکوہ کر رہے تھے اور انکی زبان سے غصے میں یہ الفاظ نکل رہے تھے :۔ انھم براغیث لاسعة وزنابير هائجة ذھبت الي الظهران فقالوا ان لحيتك خفيفة وثوبك طويل " یعنی یہ دیندار نو جوان نہیں ڈنک مار نے والے پسو اوربپھڑےہوئے بھڑ کے جھنڈ ہیں میں دعوتی کام سے ظہران گیا تھا تو وہ نوجوان میرے پیچھے پڑگئے کہنے لگے کہ تمہاری ڈاڑھی چھوٹی ہے اور تمہار ا جبہ لمبا ہے یعنی اسبال ازار کے تم مرتکب ہو" دخل درمعقولات کے طور پر میں نے ڈاڑھی کی طرف سے دفاع کر نا چاہا تو شیخ کو ایک نووارد کی طرف اعتراض پرحیرت ہوئی کیوں کہ قاعدہ یہی ہے کہ:۔ درمجلسے کہ اول در آئی گرفتہ باش غنچہ بباغ اول گرہ بر جبیں زند اللہ غریق رحمت کرے شیخ محمد علی صابونی رح کو جنہوں نے مجھے سمجھایا اور بات شیخ غزالی کی خشمگیں نظروں سے آگے نہیں بڑھ سکی اور ہم خاموش ہوگئے شیخ محمد الغزالی نامور عالم بلند پایہ مفکرغیرت مند و انتہائی مخلص داعی اور بڑے ادیب اور مصنف تھے البتہ اپنی عقلیت پسندی کے اثر سے صحیح بخاری کی بعض حدیثوں کے بارے میں بھی شک میں مبتلا ہوئے اور تنقید کا نشانہ بنے حدیث کے موضوع پر اپنی کتاب کی وجہ سے بعض علماء کی جانب سے سخت موقف کا سامنا کرنا پڑا اور انکی تردید میں کئی کتابیں لکھی گئیں,

ایک اور دلچسپ واقعہ

مشہور کتاب " فقہ السنہ " کے مصنف سید سابق سے ملاقات کا ہے وہ اس زمانہ میں مکہ مکرمہ میں قسم القضاء کے صدر شعبہ تھے ,ملاقات کیلئے گیا تو ان کی زبان سے ایک ایسی بات نکلی جسے میں برداشت نہیں کر سکا فرمانے لگے کہ "بعض دفعہ ائمہ اربعہ کتاب و سنت کے خلاف اتفاق کر لیتے ہیں " میں حیران ہوا کہ ائمہ اربعہ ابو حنیفہ مالک شافعی اور احمد بن حنبل جیسے جبال علم اورتقوی اور پرہیزگاری کے نشان سے یہ کیسے ممکن ہیکہ کہ کتاب و سنت کے خلاف کسی مسئلہ میں باہم اتفاق کر لیں ؟!۔ جبکہ کتاب وسنت کے احکام کو بیان کرنا ہی ان کا مقصدہے اور سب کے مدارک اجتہاد بھی الگ الگ ہیں میں نے دریافت کیا کہ کوئی ایک ایسی مثال ہے ؟ فرمانے لگے "طلاق ثلاث فی مجلس واحد" اسکی مثال ہے میں نے عرض کیا کہ اس مسئلہ میں ائمہ اربعہ کا موقف زیادہ قوی ہے انہوں نے امام ابن تیمیہ کا نام لیا تو میں نے کہا کہ وہ ایک بڑے عالم ہیں لیکن ائمہ اربعہ سے ان کا کیا مقابلہ؟ انہوں نے خود ہی ائمہ اربعہ کی طرف سے دفاع کیلئے "رفع الملام عن الائمة الاعلام "لكھی ہے میں نے ھیئة كبار العلماء كي تحقيق کے حوالہ سے کہا کہ دلائل کے لحاظ سے جمہور کا مسلک راجح ہے گوکہ شیخ ابن باز کی رائے الگ تھی, اور انکا اختلافی نوٹ موجود ہے اور فتوی میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے ,لیکن جمہور کے دلائل کو بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے, شیخ سید سابق نے مصری عامی زبان شروع کردی اور وہ کوئی معقول بات نہیں کہ سکے اور ہمیں ان کی گفتگو سے حیرت ہی ہوئی کہ اہل علم کی گفتگو کا یہ انداز نہیں ہوتا وہ اختلافی مسائل بھی ائمہ اربعہ کا احترام برقرار رکھتے ہیں "فقہ السنہ"مقبول ترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے اور سید سابق بڑے عالم اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں لیکن بات وہی ہے:۔ "لکل جواد کبوة ولكل عالم ھفوة" انكی کتاب کی مقبولیت کاراز اسکے آسان اسلوب میں ہے اسکی تحقیقی شان میں نہیں ہے کسی خاص جماعت سےوابستگی بھی کچھ کتابوں کی شہرت کا باعث ہوتی ہے مسائل میں ترجیح کی بنیاد بھی اس میں ہر جگہ صحیح نہیں ہے چنانچہ کئی کتابیں ایسی آگئی ہیں جن سے اسکی تائید ہوتی ہے , کتاب کا مقدمہ بھی مذاھب اربعہ پر تبصرہ کے لحاظ سے ناموزوں اور غیر عالمانہ ہے _

دعا ہے کہ اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے انکےصالح اعمال کو قبول فرمائے اور انہیں جنت نصیب کرے آمین