نصیحت اپنی جگہ حقیقت اپنی جگہ

Bhatkallys

Published in - Other

08:57AM Thu 29 Dec, 2016

نصیحت اپنی جگہ حقیقت اپنی جگہ

از: حفیظ نعمانی تعلیم سے معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود کے موضوع پر منعقدہ ’’تعلیم و تربیت‘‘ کانفرنس میں نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری صاحب نے تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں سے فرمایا کہ ملک کا شہری ہونے کے ناطے مسلمانوں کے بھی اتنے ہی حقوق ہیں جتنے دوسرے شہریوں کے ہیں۔ اگر حکومت انہیں ان کا حق دینے میں کوتاہی کرتی ہے یا تاخیر کرتی ہے تو وہ اپنی آواز اس کے سامنے اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن اگر اس نے اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم رکھا تو یقیناًوہ ترقی کی دوڑ میں پچھڑ جائیں گے۔ یہ بات محترم حامد صاحب نے ہی نہیں مسلمانوں کا درد رکھنے والا ہر بڑا آدمی کہتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یا تو وہ آج کے مسلمان کو جانتا ہی نہیں یا جان بوجھ کر اپنے کو اور پوری قوم کو دھوکہ دے رہا ہے۔ ہم اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جسے درمیانی طبقہ کہا جاتا ہے۔ ہم نے وہ دن دیکھے ہیں جب سرکاری اسکول واقعی اسکول ہوا کرتے تھے اور چھوٹے چھوٹے قصبوں میں مڈل اسکول ہوا کرتے تھے۔ مڈل پاس کرکے لڑکے ضرورت بھر کی تعلیم حاصل کرلیتے تھے اور جو آگے پڑھنا چاہتے تھے وہ سرکاری انگریزی اسکولوں میں پڑھنے لگتے تھے اور ہائی اسکول کرنے کے بعد زمینداروں اور بڑے کاروباریوں کے لڑکے شہروں میں جا کر اعلا تعلیم حاصل کرکے بڑے افسر یا ڈاکٹر بن جاتے تھے۔ لیکن آزادی کے بعد سرکاری اسکولوں کے ماسٹر اور سرکاری دفتروں کے بابو سرکار ہوگئے وہ جس دن مستقل ہوجاتے ہیں اس دن فرعون ہوجاتے ہیں اور صرف من مانی کرتے ہیں۔ ہم شمالی ہند کی بات کررہے ہیں کہ کسی بھی سرکاری اسکول میں پڑھائی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ نہ کوئی پڑھاتا ہے اور نہ کوئی پڑھتا ہے۔ بس ۴۰۔۵۰ ہزار روپے تنخواہ وصول کرتے ہیں اور اپنا کاروبار کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے شہر شہر پھر قصبہ قصبہ اور پھر گاؤں گاؤں انگلش میڈیم ا سکول کھل گئے جن میں پڑھانے والے زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار روپے لیتے ہیں اور بچوں سے سو دو سو اور پانچ سو روپے فیس لے کر انہیں واقعی پڑھاتے ہیں۔ اور سرکار مرکز کی ہو یا صوبہ کی لنگڑی لولی عورت کی طرح کھٹیا پر پڑے پڑے بس یہ کہتی رہتی ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بچے نہیں آتے۔ ہر وزیر، ہر افسر اور ہر اسمبلی و کاؤنسل کے ممبر کے بچے بھی سرکاری اسکول میں نہ پڑھتے ہیں نہ یہ جانتے ہیں کہ کوئی سرکاری اسکو ل بھی ہوتا ہے۔ مسلمان سے زیادہ تعلیم کی اہمیت کوئی نہیں جانتا لیکن اب اس کے سامنے سب سے اہم مسئلہ جان کی حفاظت ہے۔اس کے بعد روٹی پھر کپڑا اور پھر مکان۔ مسلمان کو یہ تو سب بتاتے ہیں کہ ان کے حقوق بھی سب کی برابر ہیں۔ لیکن جس ملک میں حکمراں ہندو کو نوکری نہ ملے وہاں مسلمان کو کون نوکر ی دے گا؟ اور سرکار سے کہنا ایسا ہے جیسے آسمان پر تھوکنا۔ نائب صدر جمہوریہ خود دیکھ چکے ہیں کہ وہ نائب صدر تھے بعد میں صدر بننے کے لیے ان کا اور پرنب مکھرجی کا نام برابر آتا رہا۔ لیکن انہیں ترقی دینے کے بجائے پھر نائب ہی رہنے دیا اور مکھرجی صاحب کو صدر بنادیا۔ جبکہ ملک کے پہلے نائب صدر رادھا کرشنن نے ۵ سال نائب صدر رہنے کے بعد دوبارہ نائب صدر بننے سے صاف انکار کردیا تھا۔ مگر مولانا آزاد نے راجن بابو کو ۱۰ سال صدر رکھا تب وہ بھی مان گئے مگر بعد میں صدر بنے جو حامد صاحب نہیں بنیں گے۔ جو مسلمان اپنے بچوں کو لاکھوں روپے خرچ کرکے اعلیٰ تعلیم دلادیتے ہیں وہ بھی نوکری نہیں پاتے اور جو اعلیٰ افسر محض اپنی قابلیت کی بنا پر ہوجاتے ہیں ان سے وہ کام نہیں لیا جاتا جس کے وہ ماہرہوں جیسے منظور احمد آئی پی ایس پولیس میں رہنے کے بجائے جامعہ ملیہ کے او ایس ڈی یا آگرہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا کسی اور ادارہ کے نگراں بنادئے گئے یا سراج صاحب آئی اے ایس جو مایاوتی کے پرنسپل سکریٹری تھے ان کو ہمدرد یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا جاتا ہے۔ اور اگر انجینئرہوں تو ان کی ملازمت کا زیادہ وقت معطل رہ کر گذر جاتا ہے۔ یہ تعلیم کا شوق ہی ہے جو ہندوستان کے عربی مدرسوں میں لاکھوں بچے پڑھ رہے ہیں صر ف اس لیے کہ تعلیم، کتابیں، کھانا، کمرہ، بجلی ہر چیز مفت ہے۔ ملک میں دوسرے مذاہب بھی تو ہیں۔ ان کے مذہبی پاٹھ شالے یا مدرسے کیوں نہیں کھلتے؟ مسلمان اگر سرکاری اسکولوں میں بچوں کو بھیجیں تو وہ آوارہ بن جائیں اور پرائیویٹ اسکول کی فیس، کتابیں، یونیفارم کے سیکڑوں روپے ہر مہینہ کہاں سے لائیں؟ جناب حامد انصاری صاحب نے اٹاوہ کے ایک اسکول کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں کے متعلق لوگوں نے بتایا کہ ساتویں آٹھویں کے بعد بچے باپ کے کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم تفصیل تو نہیں جانتے لیکن یوپی میں آٹھویں کلاس تک سرکاری اسکولوں میں کسی بچہ کو وہ پڑھے یا نہ پڑھے فیل نہیں کیا جاتا اوردوپہر کا کھانا جو بھی ہو دے دیا جاتا ہے۔ آٹھویں کے بعد جب اسے نہ حساب آئے نہ لکھنا پڑھنا آئے تو باپ اگر بڑھئی لوہار تیلی کاشتکار جو بھی ہے وہ اگر اپنے کام میں نہ لگائے تو کیا کرے؟ اور مسلمان حکومت سے شکایت کرکے کیا کریں حکومت کے ہر حاکم نے ہتھیار ڈال دئے ہیں اور ان کے بچے سب کے سب پرائیویٹ یا مشن اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ اگر حکومت فیصلہ کرے کہ ہر وزیر اور افسر کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھیں گے تو ہر اسکول بچوں سے بھر جائے۔ لیکن اب اگر کسی اسکول میں بچے ہیں تو صرف دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے۔ حامد انصاری صاحب نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرہ کی یاد دلائی۔ ابھی تو وہ نائب صدر جمہوریہ ہیں ابھی تو انہیں ماننا ہی پڑے گا کہ سب کا ساتھ بھی ہے اور سب کا وکاس بھی ہے لیکن جب رٹائر ہونے کے بعد تشریف لے جائیں گے تو وہ اگر ظفر سریش والا بنتے ہیں تو اسی بندہ کی تسبیح پڑھیں گے اور اگر مسلمانوں کے ترجمان بنتے ہیں تو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ سب میں جو جو بھی ہو مسلمان بہرحال نہیں ہیں، اس وقت کوئی مسلمانوں کی تعلیم کی فکر کرے۔ ان کی جان اور ان کی روٹی کی فکر کرے۔ جب اس طرف سے اطمینان ہوجائے گا۔ تو تعلیم وہ خود حاصل کرلے گا اسے یاد ہے کہ اس کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’علم کے لیے چین بھی جانا پڑے تو جاؤ‘‘ نصیب والوں کو ملتا ہے ایسا دشمن بھی بکھر کے رہ گیا ظالم مگر جدا نہ ہوا