اش اش پر اعتراض ۔۔۔ از : اطہر ہاشمی

Bhatkallys

Published in - Other

03:00AM Fri 9 Jun, 2017

ایک عمومی غلطی واحد اور جمع کی نظر آتی ہے۔مثلاًایک جملہ ہے’’کثیر تعداد خدمات سر انجام دے رہے ہیں‘‘۔چونکہ تعداد واحد ہے خواہ کثیر ہی کیوں نہ ہو، چنا نچہ اس کے لیے ’’سر انجام دے رہی ہے ‘‘ہونا چاہیے۔مگرمذکورہ جملے میں نہ صرف جمع کا صیغہ آیا ہے بلکہ ’’تعداد ‘‘مؤنث کے بجائے مذکر ہوگئی ہے۔لکھنے والے عموماًاس کا خیال نہیں رکھتے ۔شاید بھول جاتے ہیں کہ جملے کا آغاز کیسے ہوا۔ ایک اور جملہ دیکھیے ’’آلِ سعود امریکی بلاک میں شامل ہیں‘‘۔آلِ سعودکے حوالے سے ’’شامل ہے‘‘ہونا چاہیے۔’’حوالے سے‘‘ کے بارے میں محترم پروفیسر غازی علم الدین گزشتہ شمارے میں بڑی تفصیل سے لکھ چکے ہیں لیکن ہر جگہ اس کا استعمال غلط نہیں ہے ۔کچھ قارئین الجھن میں پڑگئے ہیں۔اسی طرح ’’جس ‘‘ اور ’’جن‘‘کے استعمال میں گڑبڑ ہوجاتی ہے۔جمع کے ساتھ ’’جن ‘‘اورواحد کے ساتھ ’’جس ‘‘ آنا چاہیے۔’’میں ان کی بات کررہاہوں جس نے‘‘۔یہاں ’’جس نے‘‘کی جگہ ’’جنہوں نے ‘‘ہونا چاہیے ۔یایہ دیکھیے’’میں جن کی بات کررہا ہوں ان کی ہر بات لا جواب ہے‘‘۔معمولی سی تو جہ دے کر جملہ درست کیا جاسکتا ہے۔ لفظ’’ لازوال‘‘ کا استعمال بڑی بے دردی سے کیا جارہا ہے۔مثلاًلازوال دھنیں،لازوال گانے،لازوال اداکاری ،لازوال تحریر ،لازوال حسن ،لازوال شاعری وغیرہ۔ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں جسے زوال نہ ہو۔لازوال تو صرف رب کی ذات ہے، لیکن انسان ہر فانی شے کو لازوال سمجھنے لگا ہے۔علامہ اقبالؒنے بہت ٹھیک کہا تھاکہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں فرائیڈے اسپیشل کے ایک شمارے میں کئی جگہ ’’قمیض‘‘لکھا گیا ہے جب کہ اس میں’ض‘کی جگہ ’ص‘ہے یعنی ’’قمیص ‘‘۔یہ عربی کا لفظ ہے اور سورہ یوسف میں اس کا ذکر ہے۔’’اور وہ یوسف ؑکی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگاکر لے آئے تھے۔‘‘(آیت:۱۸) لاہور سے افتخار مجاز نے سوال کیا ہے کہ تحریک التوا اور تحریک التوا کارمیں درست کیا ہے؟ بھائی‘ درست تو دونوں ہی ہیں اور تحریک التوامیں’کار‘محذوف ہے۔ یعنی اگر صرف تحریک التوا کہا جائے تو اس سے مطلب التواکا رہی ہوگا۔یہ الگ بات ہے کہ جہاں ایسی تحریکیں پیش کی جاتی ہیں وہاں’کار‘ہوتاہی نہیں۔ممکن ہے کہ التوا کا رکی اصطلاح وہ ارکانِ اسمبلی استعمال کرتے ہوں جو کارمیں آتے جاتے ہیں۔ایوان میں کسی معاملے کو زیر بحث لانے کے لیے بھی تحریک التوا پیش کی جاتی ہے کہ سب معاملات ملتوی کرکے ذرا فلاں معاملے پر بحث کر لی جائے ۔ایوانوں میں بحث ایک دلچسپ مشغلہ ہے،نتیجہ خواہ کچھ نہ نکلے ۔یوں بھی کچھ اقوام میں بحث مباحثہ پسندیدہ شغل ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر مذہبی پروگرام آتاہے جس میں علماء کرام شرکت کرتے ہیں۔اس کے میزبان بھی عالم ہی ہوں گے تبھی تو علماء سے سوال جواب کرتے ہیں۔یہ پروگرام چینل ۹۷ پر آتا ہے ۔اس کے میزبان ’’صفت‘‘ کو بروزن ’’صِرف‘‘ یا بروزن جبر ، سرد اور گرفت کہہ رہے تھے ۔یعنی ’ف‘پر بجائے زبر کے جزم ۔جبکہ یہ لفظ ’’صِفَت‘‘ہے ۔دینی پروگرام کرنے والے کو زبان وبیان کا تھوڑا سا علم تو ہونا چاہیے ۔پروگرام میں موجود علماء نے بھی تصحیح کی ضرورت نہیں سمجھی ورنہ شاید اگلے پروگرام میں نہ بلوائے جاتے ۔رمضان کریم کے آغاز ہی سے بعض چینل شَہررمضان یعنی ماہ رمضان کو شہر بمعنی CITYکہہ رہے ہیں۔کوئی کیا کرسکتاہے!افتخار مجاز ہی نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ میں عموماً’’ناجائزتجاوزات‘‘ کہا اورلکھا جارہا ہے ۔کیا جائز تجاوزات بھی ہوتی ہیں؟اسی پر کیا منحصر ’’ناجائز منافع خوری‘‘کی اصطلاح بھی تو عام ہے۔یعنی کوئی منافع خوری جائز بھی ہوسکتی ہے۔ جسارت میں شائع ہونے والے مسعود انورکے ایک کالم میں’’اش اش‘‘شائع ہوا ہے ۔اس پر ایک دیدہ ور جناب محمود نے اعتراض کیا ہے کہ یہ لفظ ’’عش عش‘‘ ہے ۔یہاں تک بھی غنیمت تھا کہ عش عش غلط العوام ہوگیا ہے،لیکن انہوں نے کمال یہ کیا کہ عش عش کو عیش سے ملا دیا ۔دونوں میں کو ئی تعلق ہی نہیں ہے۔رہی بات اش اش کی تو محمود صاحب پہلے کوئی لغت ہی دیکھ لیتے ،گھر میں نہیں تو پریس کلب میں ضرور ہوگی۔درحقیقت یہ لفظ ’’اشاش ‘‘ہے ۔لغت کے مطابق یہ عربی کا لفظ ہے جس کی اصل اشاش بروزن تلاش ہے ۔ عربی میں اس کے مطلب شادی ،خوشی منانے اور وجد کرنے کے ہیں۔اردو میں اشاش ’اش اش ‘ہوگیا ۔استاد ناسخ کا ایک شعر ہے: ہم سفر وہ ہے جس پہ جی غش ہے دشتِ غربت مقام اش اش ہے اش اش اردو کا تصرف ہے۔اش اش کرنا ،غایت پسندیدگی سے وجد میں آنا ،کسی چیز کی بے اختیار تعریف کرنا۔ایک مصرع اور پڑھ لیجیے ؂ تصویر تری دیکھ کر اے رشک مسیحا سب کرتے ہیں اش اش امید ہے کہ محمود صاحب کی سمجھ میں آگیا ہوگا۔ ان کی اس نکتہ آفرینی کا جواب نہیں کہ عش عش کا تعلق عیش سے ہے ۔پھر غالب کے اس مصرع کامطلب کیا ہوگا بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے اردو میں کہا جاتاہے ’’جاؤعیش کرو‘‘ ۔یا ’’فلاں شخص تو خوب عیش کررہا ہے‘‘ ۔عیش عربی زبان کالفظ ہے اور عربی میں اس کے وہ معانی نہیںجو ہم نے اردو میںاختراع کرلیے ہیں۔عربی میں عیش کا مطلب ہے زندگانی ۔عربوں میں’’عیاش‘‘ عام نام ہے،جبکہ اردو میں اس کا مطلب اچھا نہیں ہے۔عربی میںعیاش دعائیہ کلمہ ہے یعنی طویل زندگی والا۔اہلِ فارس نے عیش کو بمعنی خوشی ،نشاط،آرام و آسائش کے معنوں میںاستعمال کیا اور اردو میں انہی معنوں میں لے لیا گیا ۔سالک کا شعر دیکھیے ؂ یو ں ہی دل غم سے اگر ہجر میں خوگر ہوگا وصل میں عیش مجھے خاک میسر ہوگا عیش کا بندہ یعنی نفس پرست ،عیاش۔ عش عش کو عیش سے نسبت دینے پر اش اش ہی کیا جاسکتا ہے۔ پرفیسر غازی علم الدین کی تفریح طبع کے لیے ۶جون کو جسارت میں شائع ہونے والی ایک خبر کا کچھ حصہ پیش ہے:’’پی آئی اے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر نے کہا کہ پے درپے ہیروئن بر آمد گی کے حوالے سے واقعات ہوچکے ہیں لیکن حکومت نے اس حوالے سے کچھ نہیں کیا ۔‘‘یہ ہے حوالہ۔ ممبئی کے جناب سلمان غازی کی خدمت میں حضرت امیر مینائی کا شعر: لاتا میں درد مند طبیبوں سے کیارجوع جس نے دیا تھا درد بڑا وہ حکیم تھا