بھٹکل میں نادر اردو لٹریچر کا بھولا بسرا خزانہ  ۔  صدیق فری لائبریری ۔(۱)۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Nawayat And Bhatkal

01:55PM Sat 19 Sep, 2020

۔((یہ سلسلہ وار مضمون مجلس اصلاح وتنظیم بھٹکل کی صد سالہ تقریبات کے اعلان پرمورخہ: ۱۳۔ جون ۲۰۱۲ء کو لکھا گیا تھا۔ قند مکرر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے))۔

         ۔ ۱۸؍مارچ  ۲۰۱۲ء  سے تین روز تک جاری جامعہ اسلامیہ بھٹکل کا پچاس سالہ تعلیمی کنونشن بھٹکل میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد تقریب تھی  ، اس کی کامیابی کے لئے معاشرے کے تمام طبقوں اور حلقوں نے اپنی بھر پور صلاحیتیں نچھاور کرکے ثابت کردیا کہ ان سبھوں کے دلوں پر جامعہ کے کتنے گہرے اثرات پیوستہ ہیں  اور پوری  قوم  قیام جامعہ کی تاریخ ۲۰؍اگسٹ ۱۹۶۲ء  کو اپنے نشات ثانیہ کی راہ میںیک  سنگ میل کی حیثیت سے کتنی اہمیت دیتی ہے ۔ یہ بات کسی اچھنبے کی بھی نہیں ہے ، جامعہ نے بھٹکل کے معاشرے میں اپنے روز اول سے ابتک جو اثرات  چھوڑے ہیں  یکجا طور پر کسی ایک شہر یا قصبے میں کسی دوسرے دینی ادارے کے اثرات کی ایسی مثال ملنی مشکل ہے ۔ یہ بات  فخر کی نہیںباعث شکر اور اللہ سے حاسدوں کے حسد سے اسے محفوظ رکھنے کے لئے دعا کرنے کی ہے۔

         قوم نے جامعہ کے قیام کی تاریخ کو اہمیت دی اس کی افادیت اپنی جگہ ، لیکن دل میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا جامعہ کے قیام کی تاریخ کو بھٹکل  کے نشات ثانیہ کا آغاز مانا جائے ؟ جذبات کو پرے ڈال کر جب  ٹھنڈے دل سے سوچا جائے ،  قومی یادداشت کو حرکت دی  جائے تو پوری ایک صدی پیشتر ۱۹۱۲ء کے سال کا ایک  واقعہ نظر آتا ہے جس کی اہمیت پر پڑنے والے گرد و غبار کے بادلوں نے  قومی حافظے  سے اسے اوجھل کردیا ہے  ،  نہ اس کا کبھی ذکر آتا ہے ،  نہ کبھی اسے شمار  و قطار میں لایا جاتا ہے ۔یہ ہے بھٹکل میں  پہلے دار المطالعہ کا قیام جس نے اپنے بانی کی نسبت سے صدیق فری لائبری کا روپ دھار لیا ۔

*بھٹکل میں نوائط کا  انحطاط*

         بھٹکل بارہویں صدی عیسوی سے مسلم نوائط برادری کا مرکز رہا ہے ، یہ اس عرب نژاد تاجر قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جن کی تجارت  کا ایک سرا ہندوستان کی مغربی ساحلی پٹی تھی تو دوسرا  اٹلی کا جنوہ اور وینیس ،  درمیان میں خلیج عرب کی بندرگاہ ہرمز  اور بحراحمرکی بندرگاہ عدن ہمزہ وصل کی حیثیت رکھتے تھے ، ان میں مخدوم فقیہ علاء الدین علی مہایمی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت گذری ہے جنہیں خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بعد برصغیر کا مقبول ترین  اور شاہ ولی اللہ دہلوی سے قبل  کے ہندوستان کا سب سے عظیم مفسر اور عالم مانا جاتا ہے ، ۱۴۹۲ء میں سقوط غرناطہ اور ۱۵۱۵ء میں ہرمز پر جابرانہ قبضہ کے بعد گو ا کے سفاک صلیبی فاتح  الفونسو ڈلبوقرق نے  پرتگالی شہنشاہ عمانویل کا  یہ حکم نامہ سنایا کہ :

And because the King of Portugal had given order for the dismantling of the harbor of Baticala, and desired all the horses from Arabia and Persia to be landed at Goa ...therefore he begged him of his goodness to order all the ships carrying horses, to proceed direct to Goa, for there they would find all the merchandise they required for their return journey and if this were conceded, he on his part would undertake not to give a safe-conduct to any ship to make a voyage except to Ormuz with merchandise ; and he could  rest assured that every ship which was not bound for Ormuz, would have its cargo seized, and its crew put to death.

  اور چونکہ  شاہ پرتگال نے بھٹکل کی بندرگاہ کو توڑنے کا حکم صادر کردیا ہے  اور فیصلہ کردیا ہے کہ عرب و فارس کے تمام گھوڑے گوا میں اتارے جائیں گے ، لہذا   وہ اس  ( حاکم ہرمز)  سے اسی کے بھلے کے لئے  کہتا ہے کہ وہ  (ہرمز سے ) گھوڑے لے جانے والے جہازوں کو حکم صادر کرے کہ وہ براہ راست گوا  جائیں( اب بھٹکل نہ جائیں ) ، وہاں انہیں واپسی پر مطلوبہ  تمام تجارتی سہولیات دستیاب ہونگی  اگر اس پر وہ غور کریں تو وہ اپنی طرف سے  ہرمز کے علاوہ کسی اور کو پر امن گزرنے کی راہ داری  نہ دینے کی ذمہ داری لے سکتا ہے ، وہ یقین دلاتا ہے کہ ہروہ جہاز جو ہرمز سے جانے کا پابند نہیں ہے اس کا کارگو چھین لیا جائے گا  اور اس کے ملاحوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا ( البوقرق  ۱؍۱۱۸) تو بھٹکل اور مغربی ساحل پر نوائط پر ادبار کا دور شروع ہوا۔

         جب پرتگالوی شہنشاہ کی جانب سے بھٹکل کو تاراج کرنے کے کے لئے یہ حکم نامہ صادر ہورہا تھا اس وقت بھٹکل کی ترقی کا کیا عالم تھا ، اسے  ۱۵۰۸ء  میں بھٹکل سے گذرنے والے پرتگالی سیاح اور واسکوڈی گاما کے کنانور میں نمائندے دوارت بربوسا کی زبانی سنئے:

ہوناور ندی عبورکرکے جب ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ آگے کو بڑھتے ہیں تو ایک چھوٹی سی ندی ملتی ہے جس پر بھٹکل  کا خوبصورت شہر واقع ہے ۔ یہاں بڑے پیمانے پر تجارتی لین دین ہوتی ہے۔ تاجر مسلمان بھی ہیں ہندو بھی ، ہرمز سے ہر سال بہت سے جہاز یہاں سفید چاول اور پسی ہنوئی شکر جو کہ یہاں بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے لینے آتے ہیں۔  ایک عروبہ ۱۴۵۰ کلو گرام شکر کی قیمت ۲۴۰ ریس سے کچھ کم یازیادہ ہے ۔یہاں سے یہ لوہا بھی لے جاتے ہیں۔ یہاں سے برآمد ہونے والی تین بنیادی اجناس ہیں۔

         ملباری حضرات ہندوستان سے یہاں کالی مرچ اور مصالحہ جات بھی لاتے ہیں۔ یہاں اچھے معیارکا ہڑ پایا جاتا ہے۔ عرب وفارس کے مسلمانوں کے ہاتھوں اچھی قیمت پر فروخت کے لیے یہاں یہ سب چیزیں جمع کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہرمز سے یہاں ہر سال بہت سے جہاز آتے ہیں ، یہ جہاز بڑی مقدار میں یہاں گھوڑے اورموتی لاتے ہیں ، انہیں نرسنگا   وجے نگر  کی سلطنت میں فروخت کیا جاتا ہے ۔ اب گوا میں ہماری فوجوں کے آنے کے بعد وہاں بھی دوسری اشیاء کی طرح یہ چیزیں فروخت کی جانے لگی ہیں۔

         مسلمانان مکہ کے بھی چند جہاز خطرہ مول لے کر مصالحہ جات لینے کی غرض سے یہاں آتے ہیں ۔ حالاں کہ پرتگالی انہیں یہاں آنے سے روکتے ہیں ۔ انہوں نے ان کے آنے کے خلاف تادیبی قوانین و ضوابط بنارکھے ہیں۔

         ملبار کا راجہ سامری  بھی چھپ چھپا کر اور بڑے خفیہ انداز سے یہاں ہرسال لوہا اور شکر لینے آتا ہے ،وہ یہاں والوں کے لیے تاڑی کا گڑ ، ناریل ، کالی مرچ اور مختلف قسم کی جڑی بوٹیاں لاتا ہے۔ ان میں سے بعض اشیاء ہمارے قلعوں کے کپتانوں کے جاری کردہ پروانہ راہداری کے ذریعہ آتی ہیں۔ یہ جگہ دولت سے مالا مال ہے ، یہاں سے راجہ اور اس کے گورنر کو بہت ساری آمدنی ہوتی ہے۔

         یہ جگہ بڑی کشادہ اور پھیلی ہوئی اور آبادی سے بھری ہوئی ہے ۔ یہاں پر زندگی رواں دواں ہے ۔ اسکے اطراف چہار دیواری نہیں ۔ اسکے ہر طرف بہت سے باغات ، فرحت بخش پھلوں کے درخت اور پانی کی نہریں ہیں۔

         پہلے میں نے جن تجارتی اجناس کا ذکر کیاہے ان کے علاوہ یہاں کے لوگ تانبے کا بڑی مقدار میں استعمال کرتے ہیں ۔ جہاں یہ سلطنت میں سکے ڈھالنے کے کام آتاہے ۔ وہیں کھانا پکانے کے برتن وغیرہ بنانے میں بھی یہاں اس کا استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں پارہ، سرخ خضاب، مرجان ، المونیم اور ہاتھی دانت جیسی قیمتی اشیاء کی بھی  تجارت ہوتی ہے۔ (بربوسا   ۱؍۱۸۷)۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/