بھٹکل میں نادر اردو لٹریچر کا بھولا بسرا خزانہ ۔ صدیق فری لائبریری (۲)۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

شہنشاہ پرتگال کے حکم نامے کے بعد بھٹکل کی تجارتی اہمیت کا خاتمہ شروع ہوا اور مغربی سامراج نے مسلم علاقوں پر اپنے ناخن گاڑھنے شروع کئے تب سے بھٹکل تاریخ کے اندھیروں میں گم ہوتا چلا گیا ، نوائط آبادی دھیرے دھیرے اپنے عرب آباء و اجداد سے بھی کٹ گئی ، ان کا اپنے وطن اصلی تک آنا جانا بند ہوگیا ، جب فقر و فاقہ ڈیرہ ڈالنے لگے تو جہالت کا عام ہو نا اور علم سے دوری ایک فطری سی بات ہے ، لہذا اہل نوائط کے حالات اس حد تک پہنچ گئے کہ ماضی سے ان کا رشتہ ٹوٹ گیا ، انہیں صرف اتنا یاد رہ گیا کہ ان کے آباء و اجداد عرب سے آئے تھے ، انہیںاپنے آباء و اجداد کے نام اور نسب نامے تک یاد نہیں رہے ، ۱۸۴۵ء کے بعد تو یہاں مکمل اندھیر ہوگیا ۔ صر ف جگنؤوں جیسی چھٹ پٹ روشنیاں ٹمٹمانے لگیں ، ۱۵۱۵ء کے بعد بھٹکل میں کوئی بھاری بھرکم علمی و اصلاحی شخصیت کا نشان نہیں ملتا ، رہے مخدوم فقیہ اسماعیل سکریؒ ، مخدوم فقیہ ابو محمد سکریؒ ، مخدوم فقیہ محمد ابن ابومحمد نائطیؒ وغیرہ تویہ سبھی شخصیات ۱۵۱۵ء سے پہلے کی شخصیات ہیں ۔
تاریخ کے مطابق نوائط جنوبی عراق سے شیعوں کے ظلم و ستم سے بھاگ کر آئے تھے ، لیکن بھٹکل پہنچنے کے بعد ان کا سابقہ شیعیت ہی سے پڑا ، تجارت میں ساجھے دار بیجاپور کے عادل شاہ ، جہاں شیعہ مذہب کے حامل تھے ، ان کا تجارتی ہمزہ وصل{ ہرمز} بھی کٹر شیعہ صفویوں کے ماتحت تھا ، حضرمی سادات شیخ جفری وغیر ہ پر بھی شیعی اثرات مخفی نہیں ، بھٹکل میں رائج {راتب الحداد } کا یہ شعر تو ہمارے بچپن میں برزد زبان عام تھا اور فریم کرکے ڈیوڑھی پر لٹکایا جاتا تھا ۔
لی خمسۃ اطفی بھا شر الوباء الحاطمۃ المصطفی و المرتضی وابناھما و الفاطمۃ
میرے پاس پانچ شخصیات ایسی ہیں جن کے ذریعہ جہنم کی توڑدینے والی وباء کو بجھادوں گا
مصطفی اور مرتضی اور ان کے دو بیٹے اور فاطمہ
بھٹکل کے نوائط کے برخلاف ۱۵۱۰ء میں گوا پر پرتگالیوں کے قبضے کے بعد مخدوم فقیہ اسماعیل سکری کی جو اولا د عادل شاہی دور میں یہاں پر منصب قضا پر فائز رہی ، پرتگالی قبضہ کے بعد بیجاپور کی راہ سے سلطنت آصفیہ حیدرآباد ، سلطنت میسور خداداد ، سلطنت والاجاہی چنئی (مدراس) میں بس گئی ، یہاں انہیں اعلی عہدوں پر فائزکیا گیا ، ان خاندانوں میں گذشتہ پچیس نسلوں سے اب بھی علم و عرفان کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ اس کے کتب خانوں سعیدیہ حیدرآباد اور محمدیہ چنئی میں گوا کے عروج (مغلیہ دور جہانگیری ) سے بادشاہوں کے عطا کردہ پروانے ، فرامین ، نادر علمی مخطوطات اور کتابیں محفوظ چلے آرہے ہیں ،تسلسل کے ساتھ ایک ہی خانوادے میں علمی ورثہ کے تسلسل کی دوسری مثال برصغیر ہندو پاک میں ملنی مشکل ہے ۔ ۱۹۱۲ء سے قبل بھٹکل جہالت کے جس دور سے گذر رہا تھا ، یہاں پر جو غیر اسلامی عادات و اطوار و بدعات رائج ہوگئے تھے اس کی تفصیلات مورخ بھٹکل اور اس دور کے چشم دید گواہ مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی مرحوم نے اپنی کتاب تذکرہ انجمن میں دی ہے۔
نوید صبح
برصغیر کے مسلمانوں کے عموما اور بھٹکل کے خصوصا یہ حالات تھے کہ ۱۹۱۲ء میں جنگ بلقان شروع ہوئی ۔ اس وقت مسلمانوں میں نہایت جوش زبردست ہیجان اور ایک حرکت و عمل کے دور کا آغازہوا ۔ ترکان آل عثمان کی ہمدردی اور ان کے امداد رسانی کی سرگرمیوں میں ملک کا ہر طبقہ خواہ وہ امیر ہو یا غریب ۔ سرکا ر کا معاون و مددگار ہو یا اس کا یار و وفادار ، سرکار کی استعمار پسندانہ حکمت عملی سے بیزار ہو یا اس کی ہر پالیسی کی حمایت کا علمبردار ، غرض سبھوں نے علی الاعلان اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اپنی پر خلوص ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور ان کے لئے ایثار و سیرچشمی کا نہایت نادر نمونہ پیش کیا
اس زمانے میں ترکوں کی ایک جماعت نے عالم اسلام کے نام ایک اپیل شائع کی ، اس کا عنوان تھا ـ مقدونیہ آؤ اور ہماری مدد کرو ـ ـ۔ یہ اپیل اپنی واقعیت و حقیقت کے اعتبار سے نہایت درد انگیز اور اثر آفریں تھی ۔ اس زمانے میں ترکان آل عثمان کی امداد و حمایت کے لئے ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں ہلال احمر کے نام سے انجمنیں قائم ہوگئی تھیں ، جس کا مقصد سرمایہ فراہم کرنا اور ترکوں کو پہنچانا تھا ، انگریزی حکومت نے مسلمانوں کے جوش و خروش سے متاثر ہوکر انہیں ترکوں کو مالی امداد بھیجنے کی اجازت اور سہولت دے دی تھی ،
یہی زمانہ تھا کہ ہندوستان سے ڈاکٹر انصاری کی سرکردگی میں ایک طبی وفد مجروحین و مقتولین کی خدمت کے لئے بھیجا گیا تھا ، جب اس طبی وفد کے پہنچنے میں سرمایہ رکاوٹ بن گیا تو ہندوستان کے وہ مرد مجاہد اور بطل عظیم جلیل مولانا محمد علی جوہر اٹھا اور اپنے اخبار کامریڈ میں ایک پر درد اپیل شائع کی جس نے عامۃ الناس کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ادھر اپیل شائع ہوئی اور ادھر ہر طرف سے سرمایہ کی بارش ہونے لگی اور انصاری طبی مشن روانہ ہوگیا ۔
جنگ بلقان نے بھٹکل میں کتب خانہ دیا
ََ۔۔۔ جنگ بلقان کے دوران ہندوستان گیر پیمانے پر ترکان آل عثمان کی امداد و اعانت کے لئے سرمایہ کی فراہمی کا سلسلہ نہایت جوش و خروش کے ساتھ جاری تھا ، اس زمانے میں قائد قوم جناباسماعیل حسن صدیق صاحب بغرض تعلیم بمبئی میں قیام پذیر تھے ۔ ان کی رہنمائی میں بمبئی میں مقیم بھٹکلی احباب نے مجاہدین بلقان کی امداد کے لئے کچھ رقم فراہم کی ، اس رقم میں سے کچھ حصہ معطی احباب کی مرضی سے بھٹکل میں ایک کتب خانہ یا دار المطالعہ کے لئے مخصوص کردیا گیا ، صدیق صاحب اس رقم سے کچھ کتابیں کچھ کرسیاں ، دیوار گھڑی ۔ اور ضروری اسباب خرید کر بھٹکل لے آئے اور کتب خانہ کا افتتاح کردیا ، چنانچہ موصوف لکھتے ہیں
’’۱۹۱۲ء میں جنگ بلقان چھڑی تو بمبئی میں رہنے والے چند بھٹکلی احباب نے جن میں یہ خاکسار بھی شامل تھا جو اس وقت کالج میں تعلیم حاصل کررہا تھا ،مسلمانان بلقان کے لئے چند ہ جمع کیا ، مبلغ مذکورہ میں سے ایک معتد بہ رقم ان چندہ جمع کرنے والوں نے الگ رکھ کر بھٹکل میں ایک کتب خانہ اور دارالمطالعہ کے قیام کے لئے مخصوص کردی ، چنانچہ خاکسار نے ۱۹۱۲ء میں اسباب کتب خانہ کتابیں کرسیاں دیوار گھڑی وغیرہ خرید ا اور بھٹکل آکر کتب خانہ کا افتتاح کردیا‘‘ (انجمن رپورٹ بابت ۱۹۳۴ء ص ۷۰)۔
رجسٹر روداد انجمن اصلاح و ترقی سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے ، اس میں لکھا گیا ہے
’’۲۹ محرم ۱۳۲۹ء کے جلسہ میں کتب خانہ کے قیام کی تجویز منظور کی گئی تھی ‘‘ (دفتر نمبر ۱ بابت ۱۹۳۹ء ص ۱۸)۔
یہ کتب خانہ دو تین سال تک کامیاب طریقہ سے جاری رہا ، اسی کتب خانہ سے انسداد تعزیہ پرستی کی تحریک شروع ہوئی ، اور تعزیہ داری کا زور ٹوٹ گیا ۔ (تذکرہ انجمن ۲۳۔۲۴)۔
عثمان رکن الدین رقم طراز ہیں کہ " اسے ۱۹۳۹ء میں صدیق فری لائبریر ی نام دیا گیاـ " َ۔ وہ مزید رقم طراز ہیں کہ ۱۹۱۰ء میں مجلس تنظیم کا قیام عمل میں آیا ، اس کا مقصد صرف سیاسی تھا ، اور اس کے لئے مجلس نے اپنا سیاسی پروگرام ترتیب دیا تھا ۔۔۔ ۱۹۱۲ء میں انجمن اصلاح وترقی کی بنیاد پڑی ۔ ۔۔ اور یہ بھٹکل میںثقافتی ادارہ بن گیا اور اس کے تحت کتب خانہ قائم کیا گیا ۔۔۔ اس ادارہ کے تحت تکیہ خلفو کا مشہور و معروف مدرسہ قائم ہوا جس میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کی تعلیم دی جاتی تھی ، اس کے بانی جناب آئی ایچ صدیق مرحوم بھی تھے جو شمالی کینرا کے پہلے مسلمان گریجویٹ تھے ،پھر مجلس تنظیم اور انجمن اصلاح و ترقی ۱۹۳۹ء میں مدغم ہوکر مجلس اصلاح و تنظیم کی شکل اختیار کی اور اسکے پہلے صدر محترم آئی ایچ صدیق مقرر ہوئے اور اسکے سکریٹری خطیب حسن باپا علیگ ہوئے ـ" (آئینہ بھٹکل ۴۳)۔
http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/