بھٹکل میں نادر اردو لٹریچر کا بھولا بسرا خزانہ ۔ صدیق فری لائبریری (۳)۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Nawayat And Bhatkal

07:29PM Thu 24 Sep, 2020

نشات ثانیہ کے لئے بھٹکل میں ڈالے جانا والا یہ پہلا قدم تھا، جس کا آغاز علم وکتاب سے ہوا تھا ، اس کے بعد بھٹکل میں تعلیمی سماجی ادارے جنم دینے لگے ، انجمن حامی مسلمین قائم ہوا، اور اس کے {۴۳ }سال بعد جامعہ اسلامیہ ، جامعۃ الصالحات ، شمس نرسری ، نونہال ، ابو الحسن ندوی اکیدمی وغیرہ کتنے سارے ادارے قوم کی تقدیر سنوارنے میدان میں آگئے ، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ علم و شعور اور ترقی کی شاہراہ پر پہلا سنگ میل انجمن اصلاح و ترقی کی لائبری کی شکل میں پڑا تھا ، جسے بعد میں اس کے بانی کے نام پر موسوم کرتے ہوئے صدیق فری لائبریری کا نام دیا گیا ۔ صدیق لائبریری اب بھی قائم ہے، لیکن اب یہ میل کا پتھر مٹتا جارہا ہے ، اس دوران قائم ہونے والے اداروں انجمن کی تین تین جوبلیاں منائی گئیں ، جامعہ نے بھی پچاس سالہ تعلیمی کنونشن منعقد کیا ، لیکن حیرت کی بات ہے اصلاح وترقی کی لائبریری کا کہیں تذکرہ بھولے سے بھی نہیں آیا ، حالانکہ اسے بھٹکل کے گذشتہ سوسالہ اتار چڑھاؤ کے چشم دید گواہ کی حیثیت حاصل ہے۔یہیں سے بھٹکل کے مسلمانوں کو شعور کے ناخن ملے تھے، کتنے حیرت کی بات ہے ، شاید اب ترجیحات بد گئی ہیں ، کتاب سے وابستگی کی اب معاشرے کو چند اں ضرورت نہیں رہی ہے ۔ حالانکہ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ تعلیمی اداروں کا مقصد کتابوں کا فہم پیدا کرنا ہوتا ہے ، جب مقررہ نصاب ختم ہوکر طالب علم فارغ ہوجاتا ہے تو اس کی اب ذمہ داری بنتی ہے کہ جو دوران طالب علمی علم کی جن بنیادوں کو اس نے پالیا ہے ، ان پر علم و عرفان کی نئی عمارت قائم ہو ، انہیں وہ مزید پختہ کرتا رہے ، وہ اپنے معلومات کے ذخیرے کو اپڈیٹ کرتا رہے ، زمانے کے نئے تقاضوں کے ساتھ اس کی دماغی و تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتی رہیں ، وہ لکیر کا فقیر نہ بنے ، اس کا ذہنی افق وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے ، اسی ذمہ داری کی تکمیل کاشوق تعلیمی ماحول پیدا کرتا ہے ، یار لوگوں نے صرف اسکول مدرسہ کالج اور دارالعلوم میں طالب علموں کی حاضری اور سند فراغت کو علم کی انتہا سمجھ لیا ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہے ہمارے نونہال جب دارالعلوم اور کالجوں سے فارغ ہوکر کسی ملازمت سے لگ جاتے ہیں تو پھر ان کا علمی معیار ٹہر جاتا ہے ، ان کا ذہن ساکن پانی کے تالاب کی طرح ہوجاتا ہے ، جن میں تازہ پانی کا بہاؤ نہیں ہوتا ، ان کی فکریں تموج سے خالی ہوتی ہیں ، فکر کی بلندی کتابوں سے تعلق کے بغیر محال ہے ۔ جب بھٹکل کے مصلحین قوم نے اس کی نشات ثانیہ کی فکر کی تو سب سے پہلے انہوں نے اسے کتاب سے جوڑنے کی فکر کی ، اسی سوچ کا پھل آج ایک صدی بعد ہم پا رہے ہیں ۔ ایک طویل عرصہ تک ہمارے مصلحین و اساتذہ نے طالب علموں کو کتاب سے جوڑنے کی اہمیت کو کامیابی کی کنجی جانا ، اس سلسلے میں انجمن میں مرحوم ہیڈ ماسٹر عثمان حسن ، مولانا محمود خیال ، محی الدین مومن ماسٹر وغیرہ کی کوششوں کو فرموش نہیںکیا جاسکتا ، آرٹس کالج میں پروفیسر عمر حیات خان غور ی اور پروفیسر رشید کوثر فاروقی نے بھی طلبہ کو مطالعہ کا ذوق دلانے میں اہم کردا ر ادا کیا ، جامعہ کے ابتدائی اسٹاف میں ایسے کئی ایک نام ملتے ہیں، اس سلسلے میں ماسٹر احمد نوری کو تو موجود ہ نسل بھول سی گئی ہے ، ماشاء اللہ وہ اب بھی بقید حیات ہیں(اب مرحوم ہوچکے ہیں) ۔قوم میں تعلیمی ادارے کتنے ہی قائم ہوں ، ان میں تعلیمی ماحول اور مطالعہ کا شوق نہ پیدا کیا جائے تو ان اداروں سے سند لینے کے بعد فارغین پر معاش کے دروازے تو کھل سکتے ہیں ، اچھی نوکریا ں مل سکتی ہیں ، لیکن قوم کی ترقی کے لئے جس ذہنی افق کی ضرورت ہے وہ فراہم نہیں ہوسکتا ، محدود ملازمتوں پر ان کی ذہنی ترقی رک جائے گی ۔ اس سے آگے سوچنے کی صلاحیت ماند پڑجائے گی ۔قوم کے محسنین نے کتب خانہ کے قیام سے جب نشات ثانیہ کا آغاز کیا تو ان کا آئندہ نسل کو یہی پیغام دینا ان کا مطلوب تھا۔

صدیق لائبریری کی ایک جھلک

۱۹۷۵ ۔ ۱۹۷۹ء کے دوران ہمیں صدیق لائبریری سے استفادہ کا موقعہ ملا ، جامعہ میں یہ ہمارے تدریس کے دن تھے ، رفیق عزیز مولوی عبد الصمد قاضی ندوی کا فراغت کے بعد لائبریری میں نیا نیا تقرر ہوا تھا ، ایک شناسا کی کتب خانے میں موجودگی اور کولا محی الدین کوچو باپا مرحوم جیسی سنجیدہ اور مرنجان مرنج جنرل سکریٹری کے وجود نے باربار یہاں سے گذرنے میں دلچسپی پیدا کی اور اس زمانے میں یہاں کے ذخیرے سے ورق گردانی کرنے کا موقعہ ملا ، اس وقت اس ذخیرے کی اہمیت کا اتنا احساس نہیں تھا ، یہ علم و معرفت کا نکتہ ہے کہ جیسے جیسے علم اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے ویسے ویسے علمی ذخائر کے راز کھلتے ہیں معلومات کے پرت کھلنے لگتے ہیں، اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے لگتا ہے اور اپنی جانب سے بے قدری اور مقام نا شناسی کے رویہ کا احساس ہوتا ہے ، اس زمانے میں یہ پورا کتب خانہ چوک بازار میں ہوا کرتا تھا ، لیکن اب چند سالوں سے صدیق اسٹریٹ پر واقع تنظیم کی نئی عمارت میں اسے منتقل کیا گیا ہے ، لیکن اب جگہ وسیع ہونے کے باجود جس طرح علمی ذخائربے اعتنائی کے ساتھ رکھے گئے ہیں ، انہیں ہاتھ لگا کر کھولنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔ جب ہمارا لائبریری آنا جانا شروع ہوا ، اس وقت بھی اہل ذوق کی زبان پر یہ بات عام تھی کہ اس لائبریری کا وسیع ذخیرہ کتاب چوروں کی ہوس کا شکار ہوکر یا تو واپس نہیں آیا یا پھرضائع ہوگیا ہے۔ باوجود اس کے جو ذخیرہ اس وقت بھی پایا جاتا تھا ، اس کے لئے کم از کم جو لفظ کہا جاسکتا ہے وہ انمول ہے ۔ ان کی قدر و قیمت بیان کرنی ہوتو یہ کہا جاسکتا ہے یہ موتیوں سے تولنے کے قابل ہیں۔ صدیق لائبریری کا جب قیام ہوا وہ برصغیر ہندوپاک کا انقلابی دور تھا، مولانا ابو الکلام آزاد کے الہلال کا آغاز اسی سال ہوا تھا پھر مسجد کانپور کے واقعہ اور تحریک خلافت وغیرہ نے پورے برصغیر میں انقلاب کی روح پھونک دی ،اس کے بعد جمعیۃ علماء ، مسلم لیگ، خاکسار تحریک وغیرہ جو بھی تحریکیں اٹھیں ان سے وابستہ جملہ لٹریچر ملت کا اثاثہ ہے ، آئندہ نسل کے لئے ان کی حفاظت کرنا ہمارے کاندھوں پر امانت ہیں ۔ان کے ضیاع پر آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔ جب ہم نے اس لائبریری کو دیکھا اس وقت بیسویں صدی کے آغاز سے سنہ ستر کی دہائی تک شائع شدہ اہم ترین نادر اور معیاری ادبی و علمی سرمایہ یہاں پر دستیاب تھا، اس میں ایک بڑا علمی سرمایہ وہ تھا جس کے نصیب میں دوبارہ منظر عام پر آنا نہیں لکھا تھا ، ان میں علمی و ادبی مجلات کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ، کیونکہ مجلات میں شائع ہونے والے اسی فیصد مضامین کو دوبارہ چھپنا نصیب نہیں ہوتا ،اس طرح بڑے بڑے جید اہل قلم جنہیوں نے اپنے دور میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں وہ تاریخ کے اندھیروں میں چھپ جاتے ہیں ، اخبارات اور مجلات کی حیثیت کسی قوم کی تاریخ میں ایک روزنامچہ اور ڈائری کی ہوتی ہے ، جس میں ماضی میں رونما ہونے والے لمحات قلم بند ہوتے ہیں ، یہ تحریکوں کی تاریخ اور شخصیات سے وابستہ تاریخیں متعین کرنے میں سب سے زیادہ معاون ثابت ہوتے ہیں ، صدیق لائبریری میں لاہور و امرتسر سے کلکتہ تک اور دہلی سے مدراس تک چھپنے والے جملہ اہم مجلات کی فائلیں پائی جاتی تھیں۔ یہاں حیدرآباد اور پٹھان کوٹ سے نکلنے والے مولانا سید ابوا الاعلی مودوی ؒ کے ماہنامہ ترجمان القرآن کے ۱۹۳۲ء سے ابتدائی بیس سالوں کے شمارے موجود تھے ، آپ کی کتابوں کے پہلے ایڈیشن جن میں علامہ سید سلیمان ندوی کے زیر نگرانی دار المصنفین اعظم گڑھ سے شائع شدہ الجھاد فی الاسلام کا پہلا نسخہ بھی تھا ، اس سے کچھ قبل کے مولانا عبد الماجد دریابادی کے سچ لکھنو ۱۹۲۵ء اور پھر صد ق و صدق جدید کی مکمل فائلیں پائی جاتی تھیں، یہاں پر جب ڈاکٹر سید انوار علی مرحوم نے شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ۱۹۳۲ء میں چھپی ہوئی تقریرـ {قومیں اوطان سے بنتی ہیں } دیکھی تو اچھل پڑے تھے کہ یہ تقریر تو شمالی ہند کے علمی مراکز میں ملنی دشوار ہے ۔علمی مراکز سے دور اس بنجر علاقہ میں کہاں پہنچ گئی ۔ تقسیم ہند کے قبل کے ادبی مجلات میں لاہور اور دہلی سے نکلنے والا کونسا ادبی اور معیاری پر چہ نہیں تھا جس کے ابتدائی شمارے یہاں نہ پائے جاتے ہوں ، راشد الخیری کا عصمت دہلی ۱۹۰۸ء ، رشید احمد صدیقی کا علی گڑھ میگزین ۱۹۲۰ء ،ہمایون دہلی ۱۹۲۱ء ، نیاز فتحپوری کا نگار لکھنو ۱۹۲۲ ء ، حکیم یوسف حسن کا نیرنگ خیال لاہور ۱۹۲۴ء ، شاہد احمد دہلوی کا ساقی دہلی ۱۹۳۰ء، سیماب اکبر آبادی کا شاعر آگرہ ۱۹۳۰ ، جوش ملیح آبادی کا آجکل ۱۹۴۲ء ، نقوش لاہور ۱۹۴۸ء گوپال متل کا تحریک دہلی ۱۹۵۳ء ، ملا واحدی کا نظام المشائخ دہلی، خواجہ حسن نظامی کا منادی دہلی ، خوشتر گرامی کا بیسویں صدی لاہور ، یہ سبھی یہاں پائے جاتے تھے ۔ دینی پرچوں میں مولانا سعید احمد اکبرآبادی کا برہان دہلی ، علامہ سید سلیمان ندوی کا معارف اعظم گڑھ ، مولانا عامر عثمانی کا تجلی دیوبند ، مولانا سید ابو الحسن ندوی کا تعمیر لکھنو ، آصف قدوائی کا ندائے ملت لکھنؤ ، جمیل مہدی کا عزائم لکھنؤ ، اور کس کس پرچہ کانام گنائیں ، معارف کو چھوڑ دیں تو ان سبھی مایہ ناز اور صاحب اسلوب مجلات کو مرحوم ہوئے ربع صدی سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے، یہ سبھی اب تاریخ کی امانت ہیں، یہ ہندوستان میں اسلام کی نشات ثانیہ کے ہرادل دستے کے سپاہی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مجلات کی بیان کی گئی یہ تعدا د مشت خاک کے برابر ہے، تیس پینتیس سال بعد یاد داشت کی بنیاد پر سبھی ناموں کا تذکرہ ممکن نہیں ، اس وقت ہمار ا شعور بھی اتنا پختہ نہیں تھا کہ لائبریری کے تمام پوشیدہ خزانوں تک رسائی ہوتی ، کوئی رہنمائی کرنے والا بھی نہیں تھا ، آج سے کوئی دس سال قبل اردو کے رابطہ ادب اسلامی کے سیمینار کے موقعہ پر اردو کے مایہ ناز محقق ڈاکٹر خلیق انجم صدر انجمن ترقی اردو دہلی تشریف لائے بھٹکل تشریف لائے تھے ، وہ جامعہ کی لائبریری سے متاثر تھے، صدیق لائبریری میں الماری کھولی تو سامنے دیوان سنگھ مفتون کے ہفتہ وار { ریاست دہلی}پر نظر پڑی ملی ، آزادی ہند سے قبل{ ریاست دہلی} اور{ زمیندار لاہور} کی برصغیر میں بڑی دھوم تھی ، ہمت و جرائت میں یہ دونوں اپنی مثال آپ تھے ، اردو صحافت میں ان دو نوں اخبارات کو موثر ترین مانا گیا ہے ، اس پرچے کی فائل کو کسم پرسی اور بے توجہی کے عالم میں دیکھ کر آپ بہت دکھی ہوئے ،کہنے لگے کہ اس پرچے کی فائلین اب دہلی میں بھی مشکل سے ملیں گی ، آپ نے بنڈلوں میں ڈوریوں سے باندھ کر ان شہ پاروں کو رکھا ہے ،آج کل بھٹکل کی علم دوستی وغیرہ کی بڑی شہرت ہے ، لیکن ہمارا اندازہ ہے کہ کوئی مہمان صدیق لائبریری کے علمی ذخیرے کے سامنے سے گذرے تو بھٹکل میں علم و معرفت کی پذیرائی کے تعلق سے اس کی رائے بدلنے میں دیر نہیںلگے گی ۔ وہ یہاں کے بارے میں منفی اثر لے کر جائے گا۔ گزشتہ مارچ میں چند منٹوں کے لئے لائبریری سے گذر ہوا تو ایک ہی الماری میں ادھر ادھر سے جلدیں پلٹیں تو پہلی نظر میں چند گوہر پارے نظر سے گذرے ان میں ۱۹۲۸ء میں امرتسر سے جاری عظیم اہل حدیث عالم مولانا داؤد غزنوی کے ہفتہ وار توحید کی بہت ہی نایاب فائل ، ۱۹۴۵ء میں دہلی سے جاری مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے مجلہ ندائے حرم کی فائل ، ہمدرد کے حکیم عبد الحمید اور حکیم محمد سعید کے والد ماجد حکیم عبدالمجید دہلوی کی یاد میں ہمدرد صحت ۱۹۳۴ء کی فائل ، ہفتہ وار پیام مشرق دہلی کی ۱۹۵۸ء کی فائل ، اخبار دنیا دہلی کی ۱۹۴۵ء کی فائل ۔مشہور ادبی مجلہ عالمگیرلاہور کی ۱۹۴۳ء کی فائل ، لاہور سے حکیم یوسف حسن کے زیر ادارت نکلنے والے اپنے دور کے مایہ ناز ادبی مجلہ نیرنگ خیال کی ۱۹۴۸ء کی فائل اور کس کس کا تذکرہ ہو اور کس حد تک ان کے لئے نادر لفظ کی تکرار ہو، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دیمک خوردہ اور دھول آلودہ کتب خانے کے سامنے ہمارے دوسرے اداروں کی لائبریریوں کی چمک دمک ماند پڑجاتی ہے ۔ ہمیں معلوم نہیں کہ جب بھٹکل میں روپیوں پیسیوں کی اتنی ریل پیل نہیں تھی ، کالج اور جامعات نہیں تھے ، فقر و فلاکت نے اپنا ڈیرہ جمایا تھا کن کن اہل ذوق نے قربانیاں دے کر قوم کے ماتھے پر اس جھومر کو سجانے میں کردار ادا کیا ، لیکن بہت سی کتابوں پر حاجی حسن شابندری کا نام دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ سب نایاب ذخیرے اکٹھا کرنے میں ان کا بھی بڑا حصہ رہا ہوگا ، مولانا داؤود غزنوی کے ہفتہ روزہ توحید امرتسر کی فائل دیکھ کر اس احساس کو بڑی تقویت ملتی ہے ۔ ہمارے شخصیت پرست معاشرے میں اداروں کے بانیوں کی ذات کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دی جاتی ہے ، حالانکہ زیادہ تر ان کی اہمیت علامتی ہوتی ہے ، جب کہ اکثر بانیوں کے بعد آنے والی شخصیات کی قربانیاں اداروں کی ترقی کے لئے کئی گنا بڑھ کر ہوتی ہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھٹکل کے معاشرے کی تعمیر میں حاجی حسن کو وہ مقام ابھی نہیں ملا ہے جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے ، ۱۹۲۱ء سے ۱۹۶۱ء تک چالیس سال تک مسلسل انجمن حامی مسلمین جیسے ادارے کی صدارت جس کے ماتھے پر سجی ہو وہ کوئی معمولی شخص نہیں ہوسکتا ، لیکن اب کون بچا ہے جو آپ کی شخصیت کے بارے میں کچھ بتا سکے ۔ ان فرزند اور انجمن کے سابق صدر اسماعیل کوچوباپا گزشتہ دنوں اللہ کو پیارے ہوچکے، ایک سال قبل جب آپ سے اپنے والد ماجد کے حالات جاننے کی غرض سے کالیکٹ میں ملاقات ہوئی تھی تو پیرانہ سالی اور مرض کی حالت میں کچھ زیادہ معلومات دینے کی پوزیشن میں نہیںتھے ، آپ کے ایک اور فرزند اور جامعہ کے اولین صدر جناب محسن صاحب کی بھی زیادہ تر بیمار رہنے کی اطلاع ملتی ہے، چنئی جاکر ان سے معلومات لینے کی فرصت اب تک نہیں ملی ہے، اب شاید وہ قوم کے لئے باعث فخر اپنے والد ماجد کے بارے میں کچھ بیان کرسکیں ۔

اہم ذمہ داری

اس وقت مجلس اصلاح وتنظیم کے صدسالہ جشن کے منعقد کرنے کی خواہش کا اظہار مختلف جہات سے آرہا ہے،بدر الحسن معلم یہ تمنا دل میں لے کر اللہ کو پیارے ہوگئے ، ویسے جشن کا سب سے بڑا حق اسی ادارے کا ہے، اس ادارے کی خدمات ایسی نہیں کہ مشعل راہ نہ بن سکیں ، اس کی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے ، ان سبھوں کے بارے میں نئی نسل کو بتانا نہایت ضروری ہے ، لیکن ان میں صدیق لائبریری کو علامتی حیثیت حاصل ہے ، اسے اجاگر کرنا وقت کا اہم فریضہ ہے ،خاص طور پر اس لئے بھی کہ تعلیمی ماحول اور پڑھنے لکھنے کے ذوق کے بغیر ہمارے تعلیمی اداروں کو ترقی یافتہ سمجھنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ۔ قوم کو علم کے ساتھ تعلیمی ماحول کی شدید ضرورت ہے ، جس کے لئے مطالعہ کا ذوق بنیادی اہمیت رکھتا ہے ، کتب بینی کے شوق کے بغیر چاہیں کتنی ہی بڑی ڈگریاں ہمارے نونہال حاصل کرلیں ، ذہنی ترقی جاکر ایک جگہ رک جائے گی ، بہتے دریا کی طرح خیالات میں روانی نہیں پیدا ہوسکے گی ۔ ضرورت اس بات کی ہیں مجلس اصلاح وتنظیم صد سالہ جشن ضرور بالضرور منعقد ہو ، جن میدانواں میں یہ ادارہ ایک صدی سے خدمت انجام دے رہاہے ہے اسے بھرپور انداز سے اجاگر کیا جائے ، لیکن اس میں فوقیت اس لائبریری کو دی جائے ، کیونکہ یہ ادارہ لائبریری کے ساتھ یا اس کے بطن سے جنم پایاتھا ، آخر کوئی اپنے ماں اور بھائی کو خوشی اورمسرت کے موقعہ پر کیسے بھولے ۔ اس سلسلے میں چند امور کی طرف توجہ ضروری ہے ۔ ۱۔ فنی خوبیوں سے بھرپور کتب خانے کا ایک کیٹلاک تیار کیا جائے ، قریبی دنوں میں مسلم لائبریری بنگلور کی فہرست شائع ہوئی ہے ، جس کی علمی حلقوں میں بڑی تعریف ہے ۔ کہتے ہیں کہ یہ لائبریری بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ۳۔ نوادرات اور قیمتی مواد کو منتخب کرکے محفوظ طریقہ سے گلاس کے ریکس وغیرہ میں انہیں ڈسپلے کرنے کا انتظام کیا جائے ۔ ۴۔ جس علمی مواد کے دوبارہ شائع ہونے کے امکانات شاذونادر ہیں ، انہیں اسکین کرنے کا انتظام کیا جائے ، کمپوئٹر ٹیکنالوجی کی وجہ سے اب یہ کام پہلے کی طرح زیادہ مہنگا نہیں رہا ہے ۔ اس میدان میں فنی رہنمائی و تعاون کے لئے بھٹکل میں کئی افراد پائے جاتے ہیں ، دبی کے عالمی شہرت یافتہ قلمی کتابوں کے مرکز جمعۃ الماجد میں جامعہ کے کئی ایک فارغین خدمات انجام دے رہے ہیں۔ صدیق لائبریری کا باوقار احیاء وقت کی اہم ضرورت ہے ، یہ اپنے محسنین کی یادگار کو زندگی دینے کا اہم ترین ذریعہ ہے لیکن یہ سب اسی وقت ہوگا جب واقعی ہمارے معاشرے میں کتب بینی اور مطالعہ کی اہمیت اجاگر ہو، ہے کوئی جو نقارخانے میں طوطی کی آواز میں سر ملائے ۔ 13-06-2012 http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/