ہم مہاراجہ ہمارے فرمان دستور

از: حفیظ نعمانی
برسوں کے بعد معلوم ہوا کہ اخبار والا ہونا بھی کتنابڑاجرم ہے۔ ۱۱ مارچ سے پہلے ہر راؤنڈ کے بعد احباب معلوم کرتے تھے کہ آپ کے نزدیک کس کو کتنی سیٹیں ملیں گے؟ اور جب ان سے معذرت کرتے تھے کہ غیب کا علم صرف پروردگار کو ہے تو جواب ملتا تھا کہ اخبار والوں کو سب معلوم رہتا ہے۔ا ور خوشی کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر فون دور دراز سے آتے تھے جس سے یہ یقین ہوتا تھا کہ ملت کے اندر کتنا اتحاد ہے۔
نتیجہ آنے کے بعد جب بی ایس پی صاف ہوگئی تو مس مایاوتی نے وہ کہہ دیا جو ہر شکست کھانے والا کہتا ہے۔ اور اب ہماری مشکل یہ ہے کہ زیادہ تر فون اس کے آرہے ہیں کہ یہی ہوا ہوگا کہ مشینوں میں کچھ کردیا ہوگا۔
مشین کوئی بھی ہو اس میں ہیر پھیر کیا جاسکتا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک راؤنڈ میں جن کو مشینیں ہوتی ہیں سیکڑوں ہزاروں آدمی لاتے لے جاتے اور رکھتے ہیں۔ کون ہے جو ہزاروں کو راز میں شریک کرسکے؟ گجرات میں ۲۰۰۲ء میں وزیر اعلی نریندر مودی نے صرف آٹھ پولیس کے بہت بڑے افسروں کی میٹنگ کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ ہندو اگر گودھرا کا غصہ مسلمانوں پر اتاریں تو ان کو اتارنے دینا۔ ظاہر ہے کہ جب اس پر عمل ہوا تو وہ افسر بھی مجرم بنے۔ اس کے باوجود کئی برس کے بعد سنجیو بھٹ نام کے ایک افسر نے یہ پردہ فاش کیا۔ اور اس کے بعد رفتہ رفتہ رٹائر ہونے کے بعد سب نے مانا کہ وزیر اعلی نے حکم دیا تھا مگرلکھ کر نہیں دیا تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب آٹھ آدمیوں کی بات راز نہ رہ سکی تو ہزاروں کے پیٹ میں اتنا بڑا راز کیسے رہے گا؟
اتر پردیش میں ۳۲۵ سیٹیں جیتنا کوئی نیا نہیں ہے ۲۰۱۴ء میں لوک سبھا کی ۷۳ سیٹیں جیت چکی بی جے پی نے ثابت کیا ہے کہ وہ اتر پردیش میں آج بھی ہندو کی پہلی پسند ہے۔ یہی پنجاب میں بھی ہوا۔ اگر عاپ پارٹی نہ ہوتی تو اس کی سیٹیں بھی کانگریس کو جاتیں اور نتیجہ یو پی جیسا ہی ہوتا وہاں مودی کو ۲ سیٹیں ملی ہیں۔ مودی کے لئے پنجاب سے زیادہ شرم ناک ہار گوا کی ہے جہاں وزیر دفاع سر جیکل اسٹرائیک کے ہیرو ایک مہینہ سے ڈیرا ڈالے ہوئے تھے۔ اور اب طاقت کے بل پر حکومت بنانا چاہ رہے ہیں۔ا ور اس کے لئے وزارت دفاع قربان کرکے سب سے چھوٹی ریاست کے وزیر اعلی بننے پر تیار ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ نریندر مودی نے ۲۰۱۷ء میں سب سے پہلا نعرہ ’کانگریس مکت بھارت ‘کا دیا تھا اور ملک کے عوام نے کانگریس کو ۴۴ سیٹوں پر سمیٹ دیا تھا۔ اب اگر مری ہوئی کانگریس زندہ ہوکر اتنی طاقتور ہوجائے کہ مودی کے منہ سے گوا جیسی حسین ریاست چھین کر لے جائے تو لعنت ہے ایسی فتح پر۔ ووٹوں کے حساب سے بی جے پی گوا میں ہار گئی ہے۔ سیاست اور انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ مودی جی شکست تسلیم کر لیں۔ لیکن مودی جس مٹی کے بنے ہوئے ہیں وہ گجرات کی ہے۔ اور گجرات یہ بھی برداشت کرتا رہا ہے کہ اسمبلی اجلاس ختم ہونے تک حزب مخالف کا داخلہ بند۔
یہ معمولی بات نہیں ہے کہ کانگریس کی صحت اچھی ہوتی جارہی ہے۔ ملک کو کانگریس کی اس لئے ضرورت ہے کہ وہ نیشنل پارٹی ہے۔ اور وہ خود اگر خود اگر کچھ نہ کرسکے تو دوسری پارٹیاں اسے حمایت دے کر اس سے کام لے سکتی ہیں۔ جیسے اب اتر پردیش میں وہ مایاوتی جن کے دماغ ہی نہیں ملتے تھے اب اکھلیش سے خود کہیں گی کہ تمہارے منہ سے بوا بہت اچھا لگتا ہے۔ ان کے غرور اور خود پسندی نے انہیں ایسے موڑ پر کھڑا کردیا ہے کہ ان کا کوئی ممبر لوک سبھا میں نہیں ہے اور راجیہ سبھا میں وہ صرف ۲۰۱۸ء تک ہیں اس کے بعد وہ میدان میں کھڑی نظر آئیں گی۔ اور اگر سیاست میں رہنا ہوگا تو اکھلیش کے بل پر ہی ہوسکتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی اتر پردیش میں اور اترا کھنڈ میں بے شک جیتے لیکن پنجاب منی پور اور گوا میں ہارے۔ وہ پنجاب کی ہار کا ٹھیکرا بادل کے سر پر پھوڑ کر بچ نہیں سکتے انہوں نے پنجاب میں جگہ جگہ تقریریں کی ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مری ہوئی کانگریس نے زندہ ہوکر ان کا داخلہ پنجاب میں بند کردیا۔ اور نوجوت سنگھ سدھو جسے وہ کھلونا سمجھتے تھے وہ اب پنجاب کی حکومت کا حصہ بنے گا۔ جس سدھو کو مودی نے راجیہ سبھا کا ممبر بناکرپابندی لگا دی تھی کہ وہ پنجاب کی سیاست سے دور رہیں گے وہی سدھو اب پنجاب کا حاکم بننے جارہا ہے۔
کانگریس کی نئی زندگی سے مودی جی اتنا خوف زدہ ہیں کہ گوا کو انہوں نے کانگریس کے قبضہ سے بچانے کے لئے دستور اور روایت کو جوتوں سے روند دیا۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے دستور کی حفاظت کی ذمہ داری سب سے زیادہ ان کی ہے۔ دستور کہتا ہے کہ کسی بھی صوبہ میں الیکشن کے بعد جس پارٹی کے ممبر یادہوں اسے حکومت کے لئے بلایا جائے۔ اگر وہ اکثریت ثابت نہ کرسکے تو دوسرے نمبرکی پارٹی کو دعوت دی جائے۔ لیکن یہ کام گورنر کا ہے۔ اور گورنر صدر کے ماتحت ہوتا ہے۔ ۲۰۱۴ء کے بعد نریندر مودی نام کے وزیر اعظم نے گورنروں کی حیثیت اپنے ذاتی نوکروں کی کردی ہے۔ انہوں نے گوا کے معاملہ میں گورنر کو حکم دیا کہ بی جے پی کو بلاؤ۔ اور یہ تب ہے جب کہ بی جے پی کا وزیر اعلی بھی ہار چکا ہے۔ اور گورنر نے بی جے پی کو بلالیا۔
آج کانگریس سپریم کور ٹ جائے گی۔ اور یقین ہے کہ اسے موقع مل جائے گا۔ لیکن وزیر دفاع منوہر پاریکر استعفی دے کر آچکے ہیں۔ اور انہیں اکثریت ثابت کرنے کے لئے جتنے ممبروں کی ضرورت تھی وہ خرید چکے ہیں اور اب سپریم کورٹ کہے یا صدر جمہوریہ حکم دیں مودی کی دادا گیری کے آگے کسی کی نہیں چلے گی کیوں کہ اب ۲۲ ممبر بی جے پی کی جھولی میں ہیں۔ گوا جیسی چھوٹی سی ریاست کے لئے دستور کا خون وزیر دفاع کا استعفیٰ صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ مودی کو یہ برداشت نہیں ہوا کہ مری ہوئی کانگریس ان کے منہ سے مچھلی چھین کر لے جائے۔ اس فیصلہ نے ثابت کردیا کہ دستور کچھ نہیں ہے۔ مودی کی زبان دستور ہے۔ اور ہم لکھ چکے ہیں کہ ملک میں ان ہندوؤں کی تعداد زیادہ ہے جو چاہتے ہیں کہ ملک میں ہندو حکومت ہو اور ایسی ہو جیسی مسلمان بادشاہ کرتے تھے۔ اور مودی ویسی ہی حکومت کر رہے ہیں اس لئے اس طبقہ کے محبوب ہیں۔
اور لیجئے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آگیا کہ اگر گورنر مطمئن ہو تو وہ چھوٹی چھوٹی پارٹی کو بھی بلا سکتا ہے۔ اس نے منوہر پاریکر کو حکم دیا ہے کہ ۱۶ مارچ کو اکثریت ثابت کردو جس کے پاس ہر وزارت ہو اور ملک کا خزانہ ہو اس کے لئے ۴ ممبروں کا خریدنا ٹافی خریدنے جیسا ہے۔ اور وزارت کی تھالی میں ۵ کروڑ رکھ کر جسے چاہو خرید لو۔ اس طرح شکست فتح میں بدل گئی۔