ادبی صفحہ ۔ ندیم صدیقی

ندیم صدیقی
مطلع
جب تک آدمی اپنے حلقے اور شناساؤں کے درمیان بے ضرر ہو کر رہتا ہے وہ اسے جینے دیتے ہیں لیکن کچھ دنوں کے بعد اس کے تعزیتی جلسے جلوسوں سے فارغ ہونے کے بعد اپنی ادبی فہرست سے اس کا نام کاٹنے میں دیر نہیں لگاتے۔ میں تو اب زندہ نہیں ہوں مگر یہ بات عالم بالا میں آجانے کے بعد لکھ رہاہوں کہ اوّل تو زیادہ تر فہرستوں میں میرا نام رہا ہی نہیں لیکن جب بھی ادبی حوالوں میں اب اگر میرا نام آئے گا وہ کاٹے جانے کے لئے نہیں آئے گا یہ گمان مجھے اس لئے بھی ہے کہ بقول ِفراق: ’ادیب کی زندگی میں ہونے والے ادبی فیصلے ان فیصلوں کے مقابلے زیادہ ناپائیدار اور غیر معتبر ہوتے ہیں جو ادیب کے مرنے کے بعد کے زمانوں میں کیے جاتے ہیں۔٭ ز بیر رَضوی
( وفاتیہ، ذہن جدید، نئی دہلی۔ مارچ تا مئی ۲۰۰۹۔ صفحہ:۹۱)
خوشبو
دیرسے رکھے ہوئے ہیں وہ اک دوسرے کے روبرو
اب چراغ اور آئنے میں ایک جیسی آگ ہے
٭مُمتاز اظہر
رات کو جیت تو سکتا نہیں لیکن یہ چراغ
کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے
٭عر فان صدیقی
مضمون
فناؔ نظامی کانپوری:کچھ یادیں
٭رشید قریشی(لکھنؤ)
یادش بخیر ۲۳؍دسمبر ۱۹۶۴ء کو لکھنؤ یونیورسٹی میں کانووکیشن کے موقع پر آل انڈیا مشاعرہ تھا۔لکھنؤ میں سردی شباب پر تھی۔ سڑکوں پر چہل پہل نسبتاً کم تھی۔ اہم شاہراہوں پر الاؤ جل رہے تھے۔
میں اپنے معمول کے مطابق شام سات بجے سنگم ہوٹل پہنچ چکا تھا۔ نظیر آباد میں آج جس جگہ اودھ لباس کا شو روم ہے اُس زمانے میں یعنی اب سے تقریباً ۵۲ سال پہلے وہ جگہ سنگم ہوٹل کے نام سے مشہور تھی۔اس ہوٹل میں شہر کے شاعر، ادیب اور صحافی یکجا ہوتے تھے۔ لکھنؤ کے مشہور شاعر، ادیب اور صحافی اپنی شام یہیں گزارتے اور تادیر بیٹھتے تھے۔ ہوٹل کے باہر عبورؔ نانپاروی کی کباب کی دُکان تھی۔ عبور نانپاروی ایک اچھے شاعر تھے جنھیں حالات نے کباب بیچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جس وقت میں ہوٹل پہنچا وہاں ناظر ؔخیامی مرحوم، والی آسیؔمرحوم، ساحرؔ لکھنوی مرحوم، سلمان عباسی مرحوم اور بشیرؔ فاروقی پہلے سے موجود تھے۔ ہم لوگ چائے پی رہے تھے ابھی چائے ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک انتہائی سرخ وسفید چہرہ، چہرے پر نور کی کرنیں بکھیرتی ہوئی داڑھی، سر پر جناح ٹوپی، جسم پر شیروانی، شیروانی کے اوپر اوور کوٹ اور ہاتھ میں خوبصورت چھڑی لئے ہوئے ایک پرکشش شخصیت ہوٹل میں داخل ہوئی۔ انھیں دیکھتے ہی سب احتراماً کھڑے ہوگئے۔ وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ ایک بار پھر چائے آئی۔ اس درمیان ساحرؔ لکھنوی نے ہمارا تعارف کرایا۔ معلوم ہوا آپ فناؔ نظامی کانپوری ہیں جو آج کے آل انڈیا مشاعرہ میں شرکت کے لئے کانپور سے تشریف لائے ہیں۔ سنگم ہوٹل میں وہ ہم لوگوں کے ساتھ ڈھائی ، تین گھنٹے رہے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ خوش مزاج ، زندہ دِل اور ملنسار انسان ہیں۔ اُن کی صحبت میں مجھے ایسا لگا جیسے میری اور ان کی عمر ایک ہی ہو۔ اُردو ادب کے حوالے سے جب انھوں نے یہ بتایا کہ شاعری اور صحافت ایسا پیشہ ہے جس پر شہری ذمہ داری کا بھاری بوجھ ہوتا ہے۔ حقیقی فن کاروں میںسے کوئی بھی ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہوتا۔ ہر حقیقت پسند شاعر، ادیب اور صحافی اس امید میں لکھتا ہے کہ اس کی تخلیق زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔ سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے انھوںنے کہا کہ ہمیں مسرت اس وقت ہوتی ہے جب ہم کوئی ایسی تخلیق پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو لاکھوں، کروڑوں لوگوں کے دل اور دماغ میں ہلچل پیدا کر دیتی ہے۔ اُردو ادب ، فن اور فن کار کے بارے میں یہ نظریات یہ خیالات اور یہ باتیں میں پہلی بار سن رہا تھا۔ میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔
اب میں انھیں چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔ ہم لوگ رات دس بجے لکھنؤ یونیورسٹی پہنچے۔ مشاعرہ شروع ہو چکا تھا۔ رشید قمرؔ لکھنوی مرحوم نظامت فرما رہے تھے۔ ثقافتی پروگراموں کے لئے کھلے ہوئے پنڈال میں جم ِغفیر اپنے پسندیدہ شاعروں کو سننے کے لئے بے چین تھا۔ اسٹیج پر پہنچتے ہی فناؔ نظامی کے استقبال کے لئے تمام شعرا کھڑے ہو گئے۔
میں نے فناؔنظامی کو تکلف، تصنع، تکبرااورتعلّی سے کوسوں دو ر پایا۔ ورنہ آج جس کو دیکھئے تکلّفات کا سہرا باندھے، تصنع کا لبادہ اوڑھے خود کو بیک وقت چھپانے اور ظاہر کرنے کے عمل میں مصروف نظر آتا ہے۔فناؔ نظامی اُس شعر کو شعر تسلیم نہیں کرتے جس میں فکری ارتقا، صوتی آہنگ ، عصری گونج اور سوز و ساز کے ساتھ زندگی کے تمام داخلی اور خارجی تاثرات نہ پائے جائیں۔ وہ کہتے تھے کہ شعر میں عصری تقاضے اگر پورے نہ ہوں تو فن کا قرض باقی رہ جاتا ہے۔
ٹی،ایس، ایلیٹ نے بھی شاعر اور ادیب کے بارے میں کہا ہے کہ ماضی کی صحت مند روایات میں حال کا شعور سموکر انھیں مستقبل کے حوالے کر دینا چاہئے۔
فناؔ صاحب میں برجستہ گوئی، بذلہ سنجی، تحمل اور ذوق جمال کے اجزا بھی مجھے بڑے متناسب انداز میں نظر آئے۔فناؔ صاحب کے اشعار میں زبان سادہ ،اظہار بے ساختہ اور لہجہ بہت مانوس لگتا ہے۔ ان کا کلام نرمی اور شائستگی کی کیفیت میں ڈوبا ہوا ہے۔ بادی النظر میں ان کے اشعار آسان اور سادہ ہیں لیکن غور کرنے پر ان کی تہہ درتہہ معنویت کھلنے لگتی ہے۔
فناؔ صاحب اپنے مسلک اور مزاج کے حوالے سے محبت اور دوستی کے پیامی ہیں ۔وہ مرنجانِ مرنج آدمی تھے۔ ان کی طبیعت میں شگفتگی، شائستگی اور خوش مزاجی ایک تہذیب یافتہ حسّ مزاح کے ساتھ مل کر ایک عجیب مسرت عطا کرتی ہے۔ آپ ان سے عمر میں جتنے بھی چھوٹے ہوں وہ کبھی آپ کو بڑے نظر نہیں آتے تھے۔
مجھے فناؔ صاحب کی شاعری میں جو عنصر سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے وہ بات کرنے اور بات کہنے کا سلیقہ اور ہنر ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں یہ سلیقہ اور یہ ہنر یوں ہی ہاتھ نہیں آتا۔
میری تقی میر کہتے ہیں:
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں مَیں
کس خوش سلیقگی سے جگرخوں کروں ہوں مَیں
معلوم ہوا کہ شاعری خوش سلیقگی کے ساتھ جگر کے خون کرنے کا نام ہے۔شعر کہنے کا یہ طریقہ، یہ قرینہ اور یہ سلیقہ صرف شاعر کا حصہ ہے۔ موزوں طبع لوگوں کو اس کی ہوا تک نہیں لگتی۔ بقول جوش ملیح آبادی :
’’ہر شاعر موزوں طبع ہوتا ہے لیکن ہر موزوں طبع شاعر نہیں ہوتا۔‘‘
فنا ؔنظامی کانپوری اپنے زمانے کے مشاعروں کے کامیاب ترین شاعر تھے۔ ملک کے گوشے گوشے میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں ان کو دعوت شرکت پیش کی جاتی تھی۔
فنا نظامی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت تھے۔ انھیں پاکستان کے مشاعروں میںبھی بلایا جاتا تھا۔
وہ کئی بار دُبئی کے بین الاقوامی مشاعروںمیں بھی شریک ہوئے۔ ان کے پڑھنے کا اندازمنفرد تھا۔ ان کی آواز میں جادو تھا۔ وہ جھوم جھوم کر والہانہ ترنم سے اپنا کلام سناتے تھے۔ اور مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ انھیں جگر مرادآبادی سے بے حد اور بے حساب عقیدت تھی وہ ان کابہت احترام کرتے تھے۔وہ ان کی روایات کو تادمِ آخر سینے سے لگائے رہے۔فناؔ نظامی کے وہ اشعار سنئے جو مجھے بے حدپسند ہیں:
دُنیائے تصور ہم آباد نہیں کرتے
خود یاد وہ آتے ہیں ہم یاد نہیں کرتے
بظاہر تم میں دیں داری بہت ہے
مگر دُنیا کی بیماری بہت ہے
…٭…
دیوانہ بنا دے گی تجھ کو تری تنہائی
دنیا سے نہ مل لیکن آئینہ تو دیکھا کر
نغمہ ہو تبسم ہو غزل ہو کہ دعا ہو
اس طرح کی ہر شے ترے ہونٹوں کے لئے ہے
…٭…
ہم آگہیٔ عشق کا افسانہ کہیں گے
کچھ عقل کے مارے ہمیں دیوانہ کہیں گے
…٭…
میں ان کے سامنے سے گزرتا ہوں اس لئے
ترکِ تعلقات کا احساس مر نہ جائے
…٭…
ترے وعدوں پر کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے
…٭…
مجھے رتبۂ غم بتانا پڑے گا
اگر میرے پیچھے زمانہ پڑے گا
…٭…
کیا خبر کوشش ناکام ہی کام آجائے
میرے آغاز پہ ہنسنا مرے انجام کے بعد
۱۹۸۷ء میں وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے۔ ایک سال شدید علالت کے بعد ۱۸؍جولائی ۱۹۸۸ء کو کانپور میںان کا انتقال ہوگیا۔ان کے اشعار آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ انھیں کے اس شعر کے ساتھ یہ مضمون تمام کرتا ہوں۔
بات ترکِ عشق کی اتنی پرانی ہو گئی
حادثہ، پھر واقعہ پھر اک کہانی ہو گئی
رابطہ :09794270445
٭مضمون نگار لکھنؤ سے شائع ہونے والے
ماہنامہ لار یب کے مدیر ہیں۔
ایوان غزل
(والدِ مرحوم حضرتِ راز بالاپوری کے سانحۂ ارتحال پر.....)
میرا وجود مجھ سے یہ کہہ کر لپٹ گیا
سایہ تھا جس درخت کا سَر پر، وہ کٹ گیا
’’چشمہ تھا میٹھے پانی کا صحرا کی گود میں‘‘
تشنہ لبوں کی پیاس بجھا کر سِمٹ گیا
مذہب،سماجیات،سیاست، ادب نہ پوچھ
اِک شخص تھا مگر کئی شعبوں میں بٹ گیا
کہتے تھے جس کو لوگ زباں بالاپور کی
مائک سے زندگی کے مُقررّ وہ ہٹ گیا
تھا نام کا وہ راز، پَہ تھا سب پَہ منکشف
چہروں سے انگنتِ وہ نقابیں اُلٹ گیا
چھایا رہا پچاس برس تک برارؔ پر
کچھ کم صدی کی عمر جو پا کر پلٹ گیا
صد شکر، خود ستائی کے شر سے رہا وہ دُور
شہرت کے ایک چُلّو میں دریا سمٹ گیا
’’نام و نمود، حرص،ہوس،مصلحت غَرض‘‘
ہر دُھول سے جو پاک تھا چہرہ وہ اٹ گیا
موجوں سے دودوہاتھ کا اُس کو تھا اشتیاق
کشتی وہ میری پار لگا کر پلٹ گیا
مَیں اپنی سخت جانی پَہ حیران ہُوں ندؔیم
کس طرح جی رہا ہوں‘کلیجا تو پھٹ گیا؟
٭منظورندیم (اکولہ)
رابطہ: 09372501237
ادبی رسائل و جرائد کا تعارف وتذکرہ
شاعر(ممبئی) کا تازہ شمارہ اُردو نسائی ادب کے ایک جائزے کے عنوان سے خصوصی اشاعت ہے۔ جس میں شمع اختر کاظمی ( بھیونڈی) پر ایک گوشہ بھی ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ اسکے علاوہ یادِ رفتگاں، چہرہ چہرے یادیں، آثار لفظ لفظ ، خواتین کے قلم سے نکلی ہوئی’’ گیارہ کہانیاں، کشمیری کہانی کا ترجمہ، انشائیہ، نسائی شاعری کے شعری جھمکے۔‘‘ یہ اس شمارے کی خا ص چیزیں ہیں۔ اس بار شاعر میں لکھنے والوںکے اسمائے گرامی اس طرح ہیں: ہاجرہ بانو، ثروت خان، خالدہ ناز، میمونہ چوگلے، رینو بہل، شبنم عشائی، حمیدہ معین رضوی، شائستہ فاخری، شہناز شاذی، قمر سرور، شہناز نبی، افشاں ملک، صادقہ نواب اور بسمل صابری مرحومہ وغیرہ۔ شمع اختر کاظمی پر مختلف اہل ِقلم کے تاثرات کے علاوہ اُن کا ایک انٹروِیو اور دو کہانیاں بھی شامل ہیں۔ شمع کے شوہر اختر کاظمی کی تحریر’’۔۔۔ اور میری نصاف بہتر‘‘ بھی اس گوشے کی متوجہ کرنے والی چیز ہے۔ شاعر کے شعری حصے میں بسمل صابری کا مشہور ترین مطلعے( وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے٭عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے)والی غزل قارئین کے لئے دلچسپی کی چیز ہے ۔ رابطہ مدیر شاعر سے:09324515157
تحریر نو(نوی ممبئی) کی نئی اشاعت ہر چند کہ خاصی تاخیر سے بازار میں آئی ہے مگر اس کے مشمولات حسبِ سابق دِلچسپ اور تو جہ طلب ہیں۔ اس بار تحریر ِنو کے لکھنے والوں میں عبد الحمید مخدومی، ابو ذر عثمانی، محمود حسن الہ آبادی(مرحوم) مسرت فردوس، بدر محمدی، سید حبیب امام قادری، ممتحنہ اختر، ایم اسلم صدیقی، معین الدین جاوید (کراچی)، ہما ملک، شائستہ انجم نوری، شمس الدین آغا، شوکت پردیسی،غلام مرتضیٰ راہیؔ، عَالم ندوی جیسے معروف اور مشہور لوگ شامل ہیں۔ جبکہ تحریر نو کا ایک خاص کالم’’ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ اس بار پروفیسر عبد الستار دلوی نے لکھا ہے جو اختلافی ہونے کے سبب فوراً توجہ کا دامن پکڑتا ہے۔
’’ فروغ اُردو یا فریب اُردو‘‘ اور ’’ آسام سے پَرے ‘‘ جیسے عنوانات کے ادار یے بھی ہمیں اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ رابطہ:09833999883
تمثیل نو دربھنگہ(بہار) سے امام ِاعظم کی ادارت میں شائع ہونے والا ماہنامہ ہے۔ اس کا موصولہ خاص شمارہ 416 صفحات کا حامل’’ اکیسویں صدی میں اُردو صحافت‘‘ کے زیر عنوان ہے جبکہ اس عنوان کے علاوہ بھی دیگر موضوعات پر تخلیقات اس کا حصہ ہیں۔ جس کے لکھنے والوں کے چند ممتاز نام اس طرح ہیں: انجم عظیم آبادی، مناظر عاشق ہرگانوی، سید احمد قادری، حقانی القاسمی، مجیر احمد آزاد، نصرت جہاں، عبد المنان، سید تقی عابدی، ایم نصر اللہ نصر،سرور کریم، شگفتہ یاسمین، رفیق جعفر\ حسن رہبر، معرا ج احمد معراج، ابو للیث جاوید، عشرت بیتاب، ارشد مینا نگری، قیصر صدیقی، شمس فریدی، فراغ روہوی،ڈاکٹر نریش، اقبال انصاری، اختر کاظمی وغیرہ۔ ’’مجھے کچھ کہنا ہے‘‘ کے ضمن میں مدیر تمثیل نو نے خاصی گفتگو کی ہے جو کم وبیش پچاس صفحات پر محیط ہے جس میں وفیات اور دیگر ادبی سرگرمیوں وغیرہ کا قدرے تفصیلی ذکر ہے۔ رابطہ:06272 258755
آمد(پٹنہ) فی زمانہ اُردو ادب کا ایک ممتاز ترین سہ ماہی ہے۔ شب خون ، استعارہ، ذہنِ جدید اور اثبات جیسے جرائد کے بعد اگر اب کسی مؤقر ادبی رسالے پر نظر ٹھہرتی ہے تو وہ ’’آمد ‘‘ ہی ہے۔ ہمیں ’’ آمد‘‘ ایک طویل مدت بعد ملا ہےجس کے معیاری مشمولات کی روایت دیکھ کر جی خوش ہوا۔ اس کے عنوانات یا ابواب کہیے، خوب ہیں۔ مثلاً شہر انتخاب، شہر امکانات، شہر تحقیق، شہر آہنگ، شہر اشتراک، شہر ملال وغیرہ۔ اس کےلکھنے والوںمیں اختر کاظمی( فتح پور)، ظفر اقبال ظفر ( فتح پور)، آفاق عالم صدیقی، شرجیل احمد خان، سید خالد قادری، اسیم کاویانی، شہاب ظفر اعظمی، صغیر افراہیم، ساجد ذکی فہمی، سلطان اختر، عبد الرحیم نشتر، علی عباس امید، رونق شہری، شکیل اعظمی، زاہد کونچوی، سردار آصف، عبد الاحد ساز، رئیس الدین رئیس، سبودھ ساقی، اقبال مجید، حسن منظر، راجیو پرکاش ساحر، قاضی عبد الستار، فاروق راہب اور خود مدیر اعزازی خورشید اکبر (وغیرہ) شامل ہیں۔( یہ شمارہ448 صفحات پرمشتمل ہے) رابطہ: 07677266932
انشا(کولکاتا) کی نئی اشاعت حسبِ سابق دلچسپ ہے جس کےسرورق پر گلزار کی نظم’’ سنو! اس بار بھی رمضان کے دن تھے‘‘تاثر اور تاثیر سے مملو ہے۔ انشا کے اداریے میں ’’نئےادیبوں کو ترغیبِ عمل‘‘ کے عنوان سے گفتگو کی گئی ہے ۔ جس میں مدیر موصوف نے نوجوانوں کو ترغیب دی ہے کہ
’’ ۔۔۔ اپنی زبان میں تخلیقی ہنگامے مچائیں۔ انشا ان کےلئے حاضر ہے۔ آئیے مستقبل کے کارواں میں شامل ہوجائیے۔ ادب سے خالی قوم کی تہذیب کھوکھلی ہوتی ہے ۔ فکری اور تخلیقی دیوالیہ پن کا شکار ہونے سے بچیں‘‘۔ رمضان کی مناسبت سے اس شمارےمیں مولانا رومی کی غزل کا ترجمہ ، مولانا سید ابو الحسن ندوی کی تحریر پر نظر ٹھہرتی ہے ۔ جبکہ اس بار انشا میں ذکیہ مشہدی، عبد الصمد، یعقوب نظامی، شہناز خانم عابدی، رؤف خوشتر، رونق جمال، نسیم محمد جان، معین الدین، قاضی مشتاق احمد، دیپک بدکی، نصر ملک، نوشین عثمانی، مامون ایمن، مہدی پرتاپ گڑھی ایس بی جین جوہر، صبا اکرام محسن با عشن عشرت، عبرت مچھلی شہری،خالدہ حسینی اور سید یحییٰ نشیط کےقلم سے نکلی ہوئی چیزیں خوب ہیں۔ عید کےحوالے سے جو تحریریں اس شمارے میں ہیں وہ بھی دل چسپی کی حامل ہیں۔ رابطہ:09830483810
شگوفہ (حیدر آباد) سے ڈاکٹر سید مصطفےٰ کمال کی ادارت میں شائع ہونے والا اپنے موضوع پر ممتاز ہی نہیں بلکہ اکلوتا جریدہ ہے۔ جو جلد ہی اپنی اشاعت کے پچاس برس مکمل کر لے گا۔ یقیناً یہ ایک اہم بات ہوگی۔ اس بار شگوفہ میں مشتاق احمد یوسفی، معین قریشی، نصرت ظہیر، عارف مصطفیٰ، محمدرفیع انصاری، ممتاز مہدی، محمد اسد اللہ، نسیمہ تراب الحسن، وجاہت قریشی، مہتاب عالم فیضانی، خالد سرحدی، سرفراز شاہد، نٹ کھٹ عظیم آبادی، محبوب راہی، ظفر کمالی، محمد توحید الحق، ایوب صابر، اقبال شانہ، انور قادری، کے ساتھ قندِ مکرر کے طور پر دلاور فگار رضا نقوی واہی، رشید عبد السمیع جلیل فضل جاوید وغیرہ کی تحریریں قاری کی دلچسپی کا سامان بنی ہوئی ہیں۔
اُردو کا یہ واحد رسالہ ہے جس میں اداریہ آخری حصے میں شامل ہوتا ہے اس بار مدیر موصوف نے دکن کی مشہور اور ممتاز محقق و ناقد اور اُردو کی استاد محترمہ سیدہ جعفر کے انتقال پر انھیں خوب خوب یاد کیا ہے۔ اسی اداریے کے دوسرے حصے میں اُردو قبیلہ( ممبئی) کی کتاب’’ پُرسہ‘‘ پر بھی کلام کیا گیا ہے۔ کسی اداریے میں کسی کتاب کا تذکرہ بھی ’شگوفہ‘ ہی کا امتیاز ہو سکتا ہے۔ دلاور فگار اور رضا نقوی واہی کی جو نگارشات ہیں وہ اس شمارے کی خاصے کی چیز ہیں۔ رابطہ:09885202364