تلفظ کی قرقی ۔۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی

گزشتہ دنوں ہر ٹی وی چینل پر رینجرز کے ایک افسر کا نام ’قمبر رضا‘ چل رہا تھا۔ اخبارات نے بھی یہی شائع کیا، اور ممکن ہے کہ یہ افسر اگر کبھی اردو میں اپنا نام لکھتے ہوں تو اسی طرح لکھتے ہوں، یہ ان کی مرضی ہے۔ لیکن یہ نام ’’قنبر‘‘ (ق ن ب ر) ہے، قمبر نہیں۔ یہ حضرت علیؓ کے غلام کا نام تھا جس پر لوگ یہ نام رکھتے ہیں۔ ایک شہر کا نام بھی قنبر علی خان ہے اور اخباروں میں وہ بھی قمبر شائع ہوتا ہے۔ دراصل عربی میں کسی لفظ کے بیچ میں ’ن‘ اور ’ب‘ ایک ساتھ آئیں تو تلفظ ’م‘ کا ہوجاتا ہے جیسے مسجد کا منبر یا عنبر۔ قنبر رضا نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک اصطلاح بار بار استعمال کی ’’روزِ روشن سے ظاہر ہے‘‘۔ اصل میں یہ ’’روزِ روشن کی طرح‘‘ ہے۔ موصوف کا تعلق چونکہ فورسز سے ہے اس لیے ضروری نہیں کہ وہ صحیح اردو بھی بولیں، البتہ انگریزی ضرور صحیح بولتے ہوں گے۔ لیکن یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ ٹی وی چینل پر یہ اصطلاح سن کر کہیں دوسرے، خاص طور پر طلبہ استعمال نہ کرنا شروع کردیں۔ روزِ روشن تو خود ہی ظاہر ہوتا ہے۔
ناموں کے ہجے میں عموماً گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ سب سے زیادہ گڑبڑ طہٰ نام رکھنے والے خود کرتے ہیں کہ اس میں زبردستی حائے حطی یعنی حلوے والی ’ح‘ شامل کرکے اسے طحہٰ کردیتے ہیں۔ یہ نام رکھنے والے کئی نوجوانوں سے ہم کہتے ہیں کہ ذرا اپنا نام لکھ کر دکھاؤ، اور وہ عموماً غلط ہی لکھتے ہیں۔ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صفاتی نام ہے جسے طاہا بھی لکھا جاتا ہے، جیسے اقبال نے اپنے نعتیہ شعر میں لکھا ہے ’’وہی یٰسیں، وہی طاہا‘‘۔ قرآن کریم کی ایک سورت کا نام بھی طہٰ ہے، وہی دیکھ لیں۔ ایک نام ’معز‘ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے۔ لوگ عبد کے سابقے کے ساتھ یہ نام رکھتے ہیں، لیکن بہت سے پڑھے لکھے لوگوں نے اس میں ایک ’ی‘ بڑھالی یعنی عبدالمعیز۔ اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اللہ کا نام معز ہے، عزت دینے والا۔ معیز نہیں۔
عربی میں بعض ناموں کی تصغیر کا رواج ہے جیسے اسد سے اسید یعنی چھوٹا شیر۔ ابوہریرہؓ بہت معروف صحابی ہیں۔ ان کی آستین میں بلی کے بچے دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ابوہریرہ کا لقب دیا تھا۔ عربی میں بلی کو ہرّہ کہتے ہیں اور ہریرہ کا مطلب ہے بلی کا بچہ۔ اسی طرح عبد اور عبید ہے۔
ایک لفظ ’واہیات‘ ہم سب استعمال بھی کرتے ہیں اور لکھتے، پڑھتے بھی ہیں۔ ہمارا گمان تھا کہ یہ واہیات لفظ اردو کا ہوگا، لیکن معلوم ہوا کہ یہ عربی کا ہے اور مونث ہے۔ یہ واہی کی جمع ہے۔ مطلب ہے بیہودہ اور لغو باتیں، خرافات۔ ایک نیا لفظ ’’ہمگی‘‘ دیکھا۔ فارسی کا اسم صفت ہے یعنی تمام، سب کا سب۔ یہ لفظ اردو میں نہیں دیکھا، پہلے کبھی استعمال ہوتا ہو تو کہہ نہیں سکتے۔
برقی ذرائع ابلاغ پر تلفظ اور ورقی ذرائع ابلاغ میں املا اور زبان کا غلط استعمال تو اب اتنا عام ہے کہ کچھ کہنا ہی بے کار ہے۔ برقی ذرائع پر خبریں پڑھنے والوں کے سامنے ’پٹی‘ چل رہی ہوتی ہے جو ظاہر ہے کہ اردو میں ہوتی ہے۔ اب اگر کسی لفظ کا تلفظ ہی معلوم نہ ہو تو خبریں پڑھنے والے اپنی سمجھ کے مطابق ادائیگی کردیتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ بعد میں کوئی اصلاح بھی نہیں کرتا، چنانچہ جب بھی یہ خبر نشر ہوتی ہے، غلطی اپنی جگہ پر ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں پرویزمشرف کی منقولہ و غیر منقولہ جائداد قرق کرنے کی خبر نشر ہوئی تو کئی چینلز پر اس کا تلفظ قَرق بروزن فرق کیا گیا، یعنی ق پر زبر۔ جبکہ یہ قُرق ہے یعنی ق پر پیش ہے۔ ایک صاحب نے ’ر‘ پر زبر بھی لگادیا، یعنی بروزن فلک۔ اسی طرح فرق کو بھی فلک کے وزن پر بولتے سنا گیا ہے۔
قرق کی بات نکلی ہے تو بتادیں کہ یہ لفظ ترکی سے آیا ہے اور ترکی میں اس کا املا ’’قورق‘‘ ہے بمعنی شے محفوظ۔ اردو میں اس کا مطلب سب کو معلوم ہے یعنی ضبطی، بندش، روک۔ ان معنوں میں اردو میں اس کا استعمال نہیں، البتہ میر انیس نے اپنے مرثیے میں استعمال کیا ہے:
پانی کا قرق خاص ہے مجھ دل فگار پر
کھائے گا کیا نہ کوئی ترس شیر خوار پر
عدالت کی طرف سے قرقی کے احکامات کی تعمیل کے لیے جانے والے اہلکار کو قرق امین کہتے ہیں، یہ ناظر عدالت بھی کہلاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک قرق امین کی اصطلاح رائج تھی، اب سننے اور پڑھنے میں نہیں آتی۔ عدالتی کام بھی اگر اردو میں ہونے لگا تو شاید قرق امین بھی جی اٹھے۔ قرق بٹھانا، روک ٹوک کرنا، حکم چلانا۔ قرق لے جانا کنایتہً سبقت لے جانے کو کہتے ہیں۔ ذوقؔ کا مصرع ہے:
یہ خال پیشانی کیوں تمہارا نہ قرق لے جائے فرقداں پر
اب فرقداں کے معنی ڈھونڈتے پھریے۔ ہمارے خیال میں فرق داں پیشانی ہی کو یا اس سے اوپر کے حصے کو کہتے ہیں جہاں مانگ نکالی جاتی ہے۔ مانگ بھی تو بالوں کی تفریق کرکے ہی نکلتی ہے۔ اسی سے فاروق نکلا ہے یعنی فرق کرنے والا، اور پھر یہ حضرت عمرؓ کا لقب بن گیا۔ کسی کا مصرع یاد آیا
پھر فرق جبیں پہ تاج دیکھا میں نے
فرق ہی سے مفارقت ہے۔
گزشتہ سال 14 اور 15 مارچ کو دہلی میں جشنِ ریختہ یعنی اردو کا جشن منانے کی غرض سے ادیبوں، شاعروں اور اساتذہ کا اجتماع ہوا۔ اس موقع پر اردو ادب کی مختلف اصناف پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، لیکن بھارت کے سہ روزہ ’دعوت‘ نے اپنی رپورٹ میں اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ پورے جشن سے اردو ہی غائب رہی۔ چاروں طرف قد آدم بینر و پوسٹر آویزاں تھے لیکن ان پر خالص انگریزی میں جشنِ ریختہ درج تھا۔ اردو ذرائع ابلاغ کے ایک حلقے نے اس کا نوٹس بھی لیا اور اسے اردو کے رسم الخط سے محروم کرنے کی طویل مدتی منصوبہ بندی کی سازش قرار دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کی نوجوان نسل بھی اردو رسم الخط سے بے گانہ ہوتی جارہی ہے۔ یہ بزرگوں اور اساتذہ کی ذمے داری تھی کہ وہ کم از کم گھروں میں تو اس رسم الخط کو زندہ رکھتے۔ اپنے رسم الخط کے بغیر اردو، اردو ہی نہیں رہے گی۔
بشکریہ : فرائیڈے اسپیشل