حج کا سفر۔۔۔جدہ میں (۱)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

07:14PM Tue 30 May, 2023

صرف ایك تہبند اور ایك چادر میں ملبوس اور برہنہ سر ہونے كا وقت آگیا ‏، شیروانیاں ‏، سوٹ اور كوٹ ٹررین كی بش شرٹیں اور پتلون پائجامے غرض تمام الباس فاخرہ چشمِ زدن میں غائب ہوگئے ‏، ہرجوان و پیر غلاموں كی وردی زیب تن كیے مالك كے دربار میں حاضر ہونے كے لیے مستعد ہونے لگا ۔

اب تك لباسوں كے ذریعے كشمیری ‏، مدراسی ‏، لكھنوی ‏، دہلوی ‏، بنگالی ‏، افغانی اور دوسرے مختلف باشندوں كو بآسانی پہچانا جاسكتا تھا ‏، اچانك یہ تمام امتیازات اور اعتبارات مفقود ہوگئے ‏، امیر ‏، غریب ‏، چھوٹے ‏، بڑے ‏، مالك اور خادم سب ایك رنگ میں اور ایك حال میں نظر آنے لگے

سب ایك رنگ میں ہیں میكدے كے  خورد و كلاں

یہاں تفاوتِ پیر و جواں نہیں ہوتا

جہاز نے تین بجے دن كے قریب سیٹی دی كہ احرام پوش ہونے كی جگہ آگئی ‏، یعنی ہمارا جہاز ہندوستانیوں كی میقات : ‘‘یلملم’’ كے محاذات سے گزرنے جارہا ہے اور تقریباً ایك گھنٹہ تك یہ محاذات رہے گی ‏،بس اس اثناء میں تمام مصنوعی امتیازات كو خیرباد كہو ‏، اپنے تمام خیالات و رجحانات سے دامن جھاڑ كر صرف ایك تصور میں محو ہونے كی كوشش كرو ‏، اتنی دور دراز كی مسافت طے كرنے كے بعد آئے ہو ‏، تو جس مقصد كے لیے یہ مشقتِ سفر برداشت كی ہے ‏، اس كاحق اداكرنے كے لیے تیار ہوجاؤ ‏، ہرایك بس یہی آسرا لگائے رہے كہ جس دربار میں جارہے ہیں وہاں بار نصیب ہوجائے ‏، كسی كو یہ سوچنے ‏، سمجھنے كا حق نہیں كہ وہ اس دربار میں دوسرے سے زیادہ مقبول اور معزز ہے ‏، كسی كو نہیں معلوم كہ نظرِ عنایت كس پر زیادہ ہے كس پر كم ‏، یہاں بظاہر سب برابر ہیں كسی ظاہری اعتبار سے كسی كو كسی پر فوقیت نصیب نہیں

یہ مے خانہ ہے بزم جم نہیں ہے

یہاں كوئی كسی سے كم نہیں ہے

كم از كم اپنے بارے میں تو شاید ہی یہ سوچنے كا كسی نے وہم كیا ہو كہ ہم كو فلاں وجہ سے فلانے ‏، فلانے پر فضیلت حاصل ہے ‏۔

مَردوں نے جن میں بوڑھے ‏، جوان اور ذی ہوش بچے سب ہی شامل تھے ‏احرام پہن لیا ‏، عورتوں نے بھی احرام باندھا ؛ لیكن ان كا احرام لباس كی تبدیلی سے نہیں ‏، بلكہ اس حسن ظن سے پایہٴ تكمیل كو پہنچا كہ اس راہ كے جتنے مسافر ہیں ‏، ان میں سے كسی كو اس كا وقت اور موقع نہیں كہ دوسروں خاص كر‏، نامحرموں كی طرف دیكھنے میں اپنے قیمتی لمحات گنوائیں ‏، تو اب چہرہ كس سے چھپایا جائے اور كیوں نہ عجز و انكسار كے نمایاں اثرات سے متاثر چہروں كے ساتھ كھلے بندوں مالك و مختار كے سامنے حاضرہواجائے ؟ جن سے پردہ تھا وہ تو خود اپنے احساسات كے دبیز پردوں میں چھپ سے گئے ہیں اور جو چہرے كھلے ہیں ‏، وہ چہرے كہاں ہیں جن كو دیكھنے كی ہوس ‏، نفس كو ہوتی ہے ‏، یہ چہرے جو اس وقت بےنقاب ہیں جذبہ تقدیس و تعظیم كی نورانی كیفیت میں محو ہیں

دكھانے پر بھي بےپردہ ‏، نہ اے پردہ نشیں ! ہوتی

كلائی كی تجلی پھیل كر خود آستیں ہوتی !۔

وردی یادرباری لباس پہن سب نے لیا ‏، اپنے عمل سے اظہار سب نے كردیا كہ اب وہ محض ایك ادنیٰ خادم اورچاكر ہے ؛ لیكن كیا اس ظاہر سے باطن بھی پوری طرح مطابق ہوگیاہے اس كا ؟ بےشك بہتوں كا باطن اس ظاہر سے بھی بہت بہتر ہوگا ‏، یہ بھی ہوسكتاہے كہ بعضوں كا ظاہر اور باطن بالكل مساوی ہو ؛ لیكن وہ جس كا باطن اس درجے سے كم تر ہے جو درجہ اس نے اپنے ظاہر سے ظاہر كیا ہے ‏، اس كی اس ظاہرداری كو بھی كہیں پناہ مل پائے گی ؟؟

مشہور تابعی سفیان بن عیینہ كا ایك قول علامہ ابنِ جوزی نے نقل كیا ہے :‘‘ اذا واقفت السريرة العلانية , فذلك العدل , وإذا كانت السريرة أفضل من العلانية , فذلك الفضل , وإذا كانت العلانية أفضل من السريرة , فذلك الجور’’ .۔

۔(ظاہر ‏، باطن ایك ہو ‏، تو یہ انصاف كی بات ہوگی ‏، ظاہر سے باطن بہتر ہوا ‏، تو یہ فضیلت اور بزرگی ہے ؛ لیكن اگرظاہر تو اچھا ہو اور باطن اتنااچھا نہ ‏ہو ‏، تو یہ ظلم ‏، بے انصافی اور زیادتی ہے )۔

تو كسی ظلم كرنے والے بے انصافی اور زیادتی كے ایك مرتكب كے لیے كہاں ٹھكانا ہے ‏؟ كہیں نہیں ۔

نہ كہیں جہاں میں اماں ملی ‏، جو اماں ملی ‏، تو كہاں ملی ؟

مرے جرمہائے سیاہ كو ‏، ترے عفو بندہ نواز میں

اسی بندہ نوازی كی مضبوط رسّی كو تھامے ‏، جہاز كے بہت سے مسافر ہرلمحہ قریب ہونے والی منزل سے قریب ہوتے جارہے تھے ‏، پھر بھی قدم‏،قدم پر ڈگمگاجاتے تھے ‏، مضبوط رسی سے وابستگی كے باوجود احساس قرب منزل كے رعب میں ۔

گراپڑتا ہوں كیوں ہرہر قدم پر

الٰہی! آگئی كیا پاس منزل !۔

ليجئے ۵۔  اپریل كی صبح   ہوگئی اور سواد منزل نظر آنے لگا ‏، جدے كا ساحل اب ہمارے نظروں سے بھی قریب ہونے لگا جو ابھی تك تصورات ہی سے قریب تھا ‏، قربِ ساحل كی ابتدائی علامت بحری جہازوں كی خاصی تعداد میں آمد و رفت تھی ‏، جدے كا ساحل بڑا نہیں ہے ‏، ایك وقت میں ایك یا زیادہ دوجہاز وہاں لنگر انداز ہوسكتے ہیں اور ہمارا جہاز جس وقت وہاں پہنچ رہا تھا ‏، اس وقت صرف پانچ روز حج میں باقی تھے ؛ اس لیے ہر چہار طرف سے جہازوں كی آمد جاری تھی اور ہرجہاز كو ایك مقررہ میعاد كے اندر تین‏،یاچار گھنٹے كے اندر  اپنے مسافر ساحل پر اتار كر ساحل سے دور بیچ سمندر میں جاكر لنگر انداز ہونا تھا ‏، ہمارا جہاز ‘‘ایس ‏، ایس مظفری’’ ہندوستانی حاجیوں كا آخری بحری جہاز تھا ‏‏، جو جدہ پہنچ رہاتھا ‏، ہم سے چار ‏، روز قبل بمبئی سے روانہ ہونے والا‘‘ ایس ‏، ایس اسلامی’’ چھ سات گھنٹے قبل جدے پہنچا تھا اور اپنے مسافروں كو اتاركر بیچ سمندر میں لنگر انداز تھا ‏، انڈونیشیا‏، پاكستان اور بعض دوسرے ملكوں كے جہاز بھی بیچ سمندر میں قیام پذیر تھے ۔

ابھي ساحل ہم سے دور تھا ‏، مگر آثار ساحل نظرآنے لگے تھے كہ ہمارے جہاز كی رفتار سست ہونے لگی اور ایك لمحہ كے لیے قریب‏، قریب رك گئی ‏، دیكھاكہ دور سے انك دُخانی كشتی تیزی سے جہاز كی طرف آرہی ہے جس پر سعودی حكومت كا پرچم لہرارہا تھا ‏، كشتی قریب آئی اور جہاز سے لٹكی ہوئی ایك رسی كی سیڑھی كی مدد سے ایك عرب تیزی اور بےباكی سے ہمارے جہاز پر چڑھ آیا عربی لباس میں جس كی پیشوائی حاجیوں نے ‘‘ السلام علیكم ’’ سے كی ۔

یہ عرب ‘‘راہنمائے بحر’’ (پائلٹ) تھا ‏، جہاز رانی كا یہ مقرر دستور ہے كہ جب كسی ساحل كے قریب كوئی جہاز آتاہے ‏، تو كپتان جہاز رانی كے فرائض سے سبكدوش ہوكر اس پائلٹ كوجہاز كی باگ ڈور سپرد كردیتاہے ‏، جو ساحل كی طرف سے بھیجا جاتا ہے ‏، وجہ یہ ہے كہ ساحلوں كے قریب سمندر كی تہ یكساں نہیں ہوتی ‏، كہیں بہت اوتھلی ہوتی ہے ‏، كہیں سمندر كے اندر خشكی كے تودے ہوتے ہیں ‏، كہیں كوئی اور وجہ احتیاط ہوتی ہے ‏، كپتان سمندر كی ان مقامی كیفیتوں سے اتناباخبر نہیں ہوتا ‏، جتنا وہیں كا رہنے والا پائلٹ ؛ اس لیے پائلٹ زیادہ بہتر طریقے سے جہاز كو ساحل كے قریب لاسكتا ہے ۔

یہی معاملہ بمبئی سے جہاز كی روانگی كے وقت پیش آیا تھا كہ ہمارے جہاز كو ہمارے ہی ایك پائلٹ نے ساحل سے سمندر تك پہونچایاتھا اور بیچ سمندر میں پہونچاكر وہ جہاز سے اتركر اپنی كشتی پر سوار ہوكر واپس چلاگیا تھا ۔

صبح 8/9 بجے كے درمیان جہاز جدے كے ساحل پر لنگر انداز ہوگیا ‏، اب اترنے كی تیاریاں ہونے لگیں اور بلامبالغہ نفسی ‏، نفسی كا عالم ‏ان مسافروں میں نظر آنے لگا جن سے توقع ہوناچاہیے تھی كہ وہ ایثار سے كام لیں گے ‏، دومختصرسے راستے جہاز سے ساحل پر اترنے كے تھے اور دوہزار مسافروں میں سےہرایك سب سے پہلے اترنے میں غیرمعمولی دلچسپی لےرہاتھا  اگر چہ سب بخوبی جانتے تھے كہ جب تك ایك ‏، ایك مسافر جہاز سے اترنہ لےگا ‏، جہاز ساحل سے كھسكنے والا نہیں اور نہ یہ ممكن تھا كہ كوئی پہلے اترجانے میں كامیاب ہوكر آگے كے مراحل میں بھي اول رہے ‏، سب كو ایك ساتھ حجاج منزل میں جمع ہونا ہے ‏، وہاں پاسپورٹ وغیرہ كے اندراجات كرانا ہیں ‏، ڈرافٹ بھنوانا ہے ‏، معلم كی فیس جدے سے مكہٴ معظمہ تك جانے كے لیے بس كا كرایہ اور دوسرے ٹیكس اداكرنا ہیں ‏، یہ سب مرحلے كافی وقت لیں گے ‏، پھر دھكم پیل كركے جلدی اترنے سے حاصل ؟؟ شاید جلدی كی وجہ یہ ہو كہ آٹھ روز تك جہاز پر رہ كر زمین پر قدم ركھنے كے لیے ترس گئے تھے سب ۔

بہرحال ایك ہی گھنٹے كے اندر ‏، اندر تمام مسافر جہاز سے اتركر ساحل پر آچكے تھے جہاں سركاری بسیں منتظر كھڑی تھیں اور حاجیوں كو كسٹم ہاؤس پہونچارہی تھیں ‏، كسٹم ہاؤس بس كے ذریعہ سات آٹھ منٹ كی مسافت پر واقع تھا ‏، كوئی مسافر اپنے طور پر ساحل سے روانہ ہوكر كہیں جانہیں سكتا تھا ۔

یہاں سامان كا معاملہ عجیب رہتاہے ‏، ہرمسافر سامان جہاز پر چھوڑ كر پاسپورٹ ‏، ڈرافٹ وغیرہ اور صرف اتناسامان جو وہ ہاتھ میں لےسكے ‏، لےكر اترآتا ہے ‏، ساحل كے قلی بعد میں جہاز سے سامان اتارتے ہیں خودنہیں ‏، سامان كے بڑے ‏، بڑے بنڈل جہاز اندر رسیاں باندھ كر تیار كرتے ہیں اور آلہ جرثقیل (كرین) كے ذریعہ جہاز سے اٹھاكر ساحل پر پھنكوادیتے ہیں ‏، یہ صحیح معنوں میں سامان كی اٹھاپٹخ ہوتی ہے ‏، وہ بڑاخوش قسمت ہوتاہے جس كا سامان اس اٹھاپٹخ میں محفوظ رہ جائے ‏۔