سچی باتیں۔۔۔روز جزاء۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

04:48PM Sat 15 Jan, 2022

1929-01-25

  کلام مجید کے تیسویں پارہ کے وسط میں سورۂ غاشیہؔ ہے، جس میں قیامت کا بیان ہے۔ اس کے شروع میں آتاہے۔،۔

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ (2) عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ (3) تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً (4)

کتنے چہرے ہیں، جو اس روز ذلیل وخوار ہوں گے، محنت کرنے والے تھکے ماندے، پڑیں گے جلتی ہوئی آگ میں۔

چہرہ سے ظاہر ہے کہ مراد اشخاص ہیں۔ یہ محنت کرنے والے تھکے ماندے اشخاص اُس روز کون ہوں گے؟ اس کے جواب میں ، صحیح بخاری میں حضرت ابن عباسؓ کا قول ملتاہے وقال ابن عباس عاملۃ ناصبۃ ،النصاری (کتاب التفسیر) کہ اس سے مراد نصاریٰ ہیں! اور متعدد مفسروں نے اسی قول کو نقل واختیار کیاہے۔

یہی وہ گروہ ہے ، جسے جلتی ہوئی آگ میں جھونکاجائے گا، جسے اُبلتے اورکھَولتے ہوئے چشمہ کا پانی پینے کو ملے گا، اور جسے اُن خشک وخاردار جھاڑیوں کی غذا ملے گی، جن سے نہ بھوک ہی کو تسکین ہوگی، اور نہ جسمانی تنومندی ہی حاصل ہوگی۔

تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً (4) تُسْقَى مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ (5) لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ (6) لَا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِنْ جُوعٍ (7)

قیامت کا دِن کشفِ اسرار کا دِن ہوگا۔ وہ گھڑی ظہور نتائج کی گھڑی ہوگی۔ اُس وقت کوئی شے سرے سے نئی پید ا نہیں ہوگی، بلکہ آج جو کچھ کیا جارہاہے، وہی اپنی آخری اور انتہائی صورت میں نمودار ظاہر ہوکررہے گا۔ آج کس قوم اپنے عاملہ ہونے کا دعویٰ ہے؟ آج کس قوم کے افراد کو اپنی قوّتِ ’’بازو‘‘ پر ناز ہے؟ آج کون قوم سارے سارے دِن، اپنے کارخانوں اور اپنی دوکانوں میں، اپنے ورک شاپ اور اپنی فیکٹری میں، اپنے انجنوں اور اپنے بجلی گھروں میں، اپنے کالجوں اور اپنی یونیورسٹیوں میں، اپنے کتبخانوں اور اپنی تجربہ گاہوں میں ، اپنی کونسلوں اور اپنی کچہریوں میں، اپنے اخباروں اور اپنی انجمنوں میں ، اللہ کو بھُلائے ہوئے مشغول عمل رہاکرتی ہے؟ آج کون قوم اپنی ساری کی ساری راتین ہوٹلوں اور پارکوں میں ، تھیٹر اور سینما میں، ناچ گھروں اور شراب خانوں میں، بغیر اپنے پروردگار کے نام کو بھولے سے بھی یاد کئے ہوئے، گَنوانا اپنی تہذیب کا کمال سمجھ رہی ہے؟ اِن دُنیا پرستوں کو اور حیاتِ مادّی کے اِن پرستاروں کو ’’اس وقت‘‘ جوہر کوشش کے آخری اور کامل اور بے پردہ ظہور کا وقت ہوگا، اگر اپنی ساری لاحاصل محنت اور بے سود جدوجہد، کا نتیجہ نری تھکن اور ماندگی، اور محض خستگی، اضمحلال کی شکل میں نظرآئے، تو کیا اس پر کچھ بھی حیرت ہونی چاہئے؟

’’آج‘‘ جن کا سارا وقت بھاپ اور دھوئیں کے کارخانوں میں ، ورک شاپ اور پاور ہاؤس کی پرستاری میں گزررہاہے، آج جن کی ساری زندگیاں آگ اور بجلی کی قوتوں کی پوجا کے لئے وقف ہیں، ’’کل‘‘ اگر یہی دہکتی ہوئی آگ اور یہی کھولتا ہواپانی، ، اُن پر عذاب ، اور دردناک عذا، اور بے پناہ عذاب کی شکل میں ظاہرہو، تو یہ ناانصافی نہیں، عین انصاف ہوا۔ اور ’’آج‘‘ جو قومیں مادی لذّتوں اور نفسانی خواہشوں پر اتنی حریص ہیں، کہ ملک پر ملک فتح کرنے کے بعد، اور کروروں بندگانِ خدا کو اپنا بندہ بنالینے کے بعد بھی اُنھیں کسی طرح سیری اور آسودگی نصیب نہیں ہوتی، ’’کل‘‘ اگر اپنے انھیں کرتوتوں کا نتیجہ اُنھیں ایسی بے ثمر اور خاردار جھاڑیوں کی صورت میں ملے، جن سے نہ بھوک کی تسکین ہوسکتی ہو اور نہ کسی قسم کی روحانی وجسمانی تنومندی حاصل ہوسکتی ہو ، تو اس فیصلہ کے بالکل منصفانہ ، اور اس جزاء عمل کے بالکل قدرتی ہونے میں کس کو شبہہ ہوسکتاہے؟