Bat Say Bat . Fiqh Hanafi ki ktabain

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

01:11PM Sun 10 Dec, 2023

 یہ ۱۹۷۵ء بات ہے،اور اس پر نصف صدی کا عرصہ بیت رہا ہے، میں قدوائی روڈ پر واقع اپنے پھوپھا مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمیؒ کے مکان اکرمی منزل سے مولانا آزاد روڈ ہوتا ہوا، مین روڈ پر مڑا، تو بائیں طرف کچھ دکانیں چھوڑ کر جہاں پہلے ملبار بیکری ہوا کرتی تھی، اور اب قاسمجی کامپلیس کھڑا ہے، وہاں مولانا محمود خیال مرحوم سے ملاقات ہوئی، خیال صاحب انجمن اسلامیہ اینگلو اسکول کے مدرس دینیات تھے ، آپ جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل کے قدیم فارغ اور مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے ساتھیوں میں تھے،مولانا وہاں ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے،  اس وقت میرے ہاتھ میں قرافی کی کتاب الفروق کا قدیم نسخہ تھا، مولانا نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ تمھاری بغل میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی کتاب رہتی ہے،اور تمھیں کتب بینی کا شوق معلوم پڑتا ہے، میری ایک نصیحت ہمیشہ یاد رکھنا کہ *کسی مصنف کے بارے میں مرعوبیت ، نفرت یا ذاتی رجحانات کی بنیاد پر کتاب پڑھنے سے پہلے کوئی رائے قائم نہیں کرنا، رائے کتاب پڑھ کر ہی قائم کرنا*، الحمد للہ اس وقت سے اس ناچیز کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ اس سنہری نصیحت پر عمل پیرا رہوں،چاہے اس پر کوئی بھی ناراض ہوجائے، اس روئیے کا فائدہ ہمیں اپنے میدان عمل میں ہمیشہ محسوس ہوتا رہا ہے، اگر مصنفین کے بارے میں اپنے ذاتی رجحانات کی بنیاد پر چلتے،تو شاید ہمارے  پاؤں جگہ جگہ لڑکھڑا جاتے اوربھیانک غلطیوں کے سرزد ہونے کے  امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے، جس کا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑتا، کتابوں سے وابستہ ذریعہ معاش ہمارے  ہاتھوں سے چھوٹ جاتا۔ اور ایک بڑے خیر سے محرومی ہوتی۔

آج یہ بات دوبارہ ہمیں اس لئے یاد آئی اور کئی مرتبہ اس بزم میں ہم کہ بھی چکے ہیں کہ بیس تیس سال قبل تک مذہب حنفی کی ایسی کتابیں نظر نہیں آتی تھی جن کی مختلف قلمی نسخوں کو سامنے رکھ کر تحقیق وتدوین کے معیاری اصولوں کے مطابق اشاعت ہوئی ہو، ملا علی قاریؒ، شرنبلالیؒ، احمد کمال باشاؒ وغیرہ محققین کے تحقیق شدہ رسائل بھی عنقا تھے، جو ایڈیشن برصغیر کے مدارس میں رائج تھے وہ لیتھو پریس پر سوسال پرانے ایڈیشن تھے، جن میں  نہ صرف طالب علموں کی بلکہ اساتذہ کرام کی بھی دلچسپی کا سامان نہیں ہوتا تھا۔  

اس ماحول میں گزشتہ ایک دو عشرے کے دوران احناف کی قدیم کتابیں منظر عام پر آنے لگی ہیں، چونکہ اس میدان میں حنفی محققین کا تجربہ اتنا نہیں ہے جو دوسرے مذاہب کے محققین کا ہے، کیونکہ ایک طویل عرصے سے ان کی کتابوں کی اشاعت معیاری تحقیق وتدوین کے ساتھ تسلسل سے جاری وساری ہے، اب کچھ لوگ اس کام میں آرہے ہیں تو ان میں نقائص کی تلاش سے زیادہ ان کے مثبت پہلؤوں پر ہماری نظر رہنی چاہئے۔ ہمیں ان کاموں کی ہمت افزائی کرنی چاہئے، اور امید رکھنی چاہئے کہ جب ہمارے اساتذہ وطلبہ کی نظروں سے یہ ایڈیشن گزریں گے، اور ان میں وہ چند علمی وتحقیقی خامیاں یا کمیاں پائیں گے تو اس سے آئندہ ایڈیشنوں میں ان شاء اللہ ان کی تلافی ہوسکے گی۔ کسی شخص کے سلسلے میں اپنی ذاتی رائے اور رجحانات کی بنیاد پر کتاب پڑھے بغیر منفی رائے قائم کرنا علمی دیانت شمار نہیں ہوگی۔

یہاں ایک اور بات یاد آئی، فقہ شافعی کی ایک مشہور کتاب ہے امام ابو اسحاق شیرازی (ف ۴۷۶ھ ) کی المہذب، جس کے بارے میں شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ قدیم فقہی لٹریچر میں یہ سب سے فصیح اور سلیس کتاب ہے، اس کی کئی ایک شرحیں ہیں جن میں امام نووی  ( ف ۶۷۷ھ) کی المجموع شرح المہذب کو فوقیت حاصل ہے، شیخ محمد ناصر الدین الالبانیؒ کو ہم نے کئی بار کہتے سنا کہ یہ فقہ کی عظیم ترین کتاب ہے، لیکن امام صاحب کو یہ شرح مکمل کرنے کاموقع نہ مل سکا تھا، اس کی نویں جلد لکھ رہے تھے کہ فرشتہ اجل آ پہونچا، پھر اس کی تکمیل کی کوشش ایک دوسرے فقیہ امام تقي الدين أبي الحسن على بن عبد الكافي السُّبْكيؒ (ت 756 هـ) نے کی  اور بیع المرابحہ تک مزید تین جلد یں لکھ پائے تھے کہ انہیں بھی بلاوا آگیا، پھر اس کی تکمیل کا شرف سینکڑوں سال بعد  ایک  مصری عالم دین شیخ محمد نجیب المطیعیؒ (وفات ۱۹۸۵ء) کو ملا۔ اور انہوں نے ۲۳ جلدوں میں اس شرح کو مکمل کیا۔

امام نوویؒ کی کتابوں میں اللہ تعالی نے بڑی برکت دی ہے، امام تقی الدین علی السبکیؒ بھی چوٹی کے فقیہ تھے، لیکن وہ امام نووی کے درجے کو نہ پاسکے، اب چھ سو سال بعد آج کے دور کا کوئی مصنف اس مقام کو پاسکے گا تو یہ سوچنا بھی غلط ہے، لیکن مطیعی کے کام کی اہمیت کو مکمل طور پر گرادینا مناسب نہیں ہے، کیونکہ مطیعی کو عصر حاضر کے بہت سے جدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن کا سامنا قدیم علماء کو نہیں کرنا پڑا تھا، مطیعی بھی خود ایک معتبر عالم دین تھے، ان کی بھی زندگی مصر، سوڈان اور جزیرۃ العرب میں تعلیم وتعلم میں گذری ہے۔ اور اپنے دور میں ایک بڑا نام تھا۔

قدیم علماء کی جو کتابیں مکمل نہیں ہوئی ہیں ان کی اشاعت میں زیادہ  تر توجہ نہیں دی جاتی، عموما ان سے استفادے سے  محرومی ہی ہوتی ہے، امام نوویؒ کی المجموع اور امام سبکیؒ کی تکملۃ المجموع کی ہہلی اشاعت ۱۹۲۵ء میں شروع ہوئی تھی، اور شامی الاصل ناشر منیر آغا نے بڑے ذوق وشوق سے اس کی اعلی معیار پر طباعت کا اہتمام کیا تھا، قاضی اکرمیؒ کے ذاتی کتب خانے میں یہ نسخہ موجود تھا، ہماری معلومات کی حد تک ایسی اعلی معیار کی طباعت اس سے پہلے کسی کتاب میں  شاذ ونادر ہی  پائی جاتی ہے، یہ ایڈیش تین کتابوں پر مشتمل تھا، ہر صفحہ پر یہ تینوں کتابیں پائی جاتی تھی، اوپر امام نووی کی المجموع، اس کے نیچے امام رافعی کی شرح الوجیز، اور اس کے نیچے حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کی التلخیص الحبیر، چونکہ یہ ٹائپ پر چھپی تھی، لہذا طباعت کے اعلی معیار کے باوجود اس میں املائی غلطیاں بہت ساری تھیں، جو کئی کئی صفحات پر مشتمل ہوتی تھیں، جس سے کتاب پڑھنے میں بڑی اکتاہٹ محسوس ہوتی تھی، چونکہ کتاب نامکمل تھی تو نصف صدی تک اس کا کوئی دوسرا ایڈیشن نہیں نکل سکا، شیخ نجیب المطیعی کا شوافع پر احسان ہے کہ انہوں نے اس کا ایک تحقیق شدہ ایڈیشن تیارکرنے پر عمر کا ایک بڑا حصہ صرف کیا، اس ایڈیشن میں گذشتہ طباعتی غلطیوں کی اصلاح پر خصوصی توجہ دی گئی، المہذب کی شرح مکمل کی، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ المجموع اب  ایک سہل الحصول کتاب بن گئی ہے۔

کوئی شخص وقت اور محنت صرف کرکے کسی قدیم کتاب کا پاک وصاف ایڈیشن تیار کرتا ہے تو اس سے طلبہ و اساتذہ کے لئے دلچسپی کا سامان پیدا کرتا ہے تویہ قابل قدر بات ہے، اور اگر کوئی کسی نامکمل کتاب کی تکمیل کرتا ہے تو اس سے اس کتاب کو ایک نئی زندگی مل جاتی ہے، نامکمل کتابوں میں قارئین کی دلچسپی کم ہوا کرتی ہے، یہی دیکھئے علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی فتح الملھم شرح مسلم کا کتنا بڑا مقام ہے، چونکہ کتاب نامکمل تھی لہذا ایک مرتبہ چھپ کر ناپید ہوگئی، لیکن جب مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے اس کی تکمیل پر توجہ دی تومکمل ہونے کی وجہ سے یہ کتاب طلبہ واساتذہ میں متداول ہوگئی، اب کوئی علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی شرح اور مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کے تکملہ کا موازنہ کرنے بیٹھے، اور اس میں مین میخ نکالے  تو کتاب کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی، کیونکہ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ہم پلہ نہیں ہوسکتے، حالانکہ ان دونوں میں زیادہ سے زیادہ نصف صدی کا فاصلہ ہوگا، جبکہ نووی اور مطیعی میں چھ صدیوں کا فاصلہ ہے۔

جو علماء  علم اور کتاب کے لئے اپنی زندگیاں فنا کررہے ہیں، ان کے مثبت پہلؤوں پر نظر رکھنی چاہئے، ہمیں شخصیات کے سلسلے میں اپنے ذاتی رجحانات اور جذبات کی بنیاد پر کوئی رائے پیش کرنے سے بچنا چاہئے، اس سے انصاف کا خون ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

واللہ ولی التوفیق

2023-12-10