تجربات ومشاہدات(۱۶)۔۔ ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی۔ کویت

Bhatkallys

Published in - Other

02:59PM Sun 4 Jul, 2021

اظہار رائے کی آزادی (حرية التعبير) كے حدود کی نشاندہی بھی  اس اہم ترین فکری كانفرنس کے مقاصد میں شامل تھی،اظہار رائے کی آزادی ، کلام اور تحریر کے ذریعہ ہو یا فنکاری اور آرٹ کے کسی اورطریقہ سے ہو اور کسی طرح کی پا بندی نہ لگائی جائے؛  بشرطیکہ اپنے افکار کوپیش کرنے میں عرف عام اور قوانین کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو؛  کیونکہ یہ ان انسانی حقوق  میں سے ہے، جن  کی حفاظت کا عالمی معاہدوں اور بین الاقوامی ضابطوں میں ذکر کیا گیا  ہے۔

اسلامی شریعت کے احکام مصالح کے حصول اور مفاسد کے ازالہ پر مبنی ہیں ، لہذا وہ  ان حقوق کی حفاظت اورایسی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں، جو انسان کی تکریم کے شایانِ شان ہوں ، لیکن وہ کسی انسان کو اس کی اجازت ہر گز  نہیں دیتے کہ وہ کوئی ایسی بات یا ایسا عمل کر ے، جس سے خود اس کویا کسی اور کو ضرر لاحق ہو؛   کیوں کہ اس دین کے فقہی قواعد  میں  ایک قاعدہ   "لا ضَررَ ولا ضِرارَ" بھی ہے، لہذا اگر اظہار رائے کی آزادی لوگوں کی مصلحتوں کےبرخلاف یاان کی کرامت کے منافی ہو،  یا اس سے معاشرہ میں بُری قدروں کو فروغ ملتاہواور فحش اور بے حیائی کی باتوں کو پھیلنے میں مدد ملتی ہو تو ایسی آزادی سلب  کر لی جا ئےگی ۔

اسلام نے  اپنے پیروکاروں اور جو مسلم معاشرے میں رہتے ہوں،  ان پر کئی طرح کی پابندیاں لگائی ہیں،  مثلا :۔

_ معاشرہ میں اباحیت اور اخلاقی انارکی پھیلانا منع ہے۔

_ملحدانہ افکار اور گمراہ کن خیالات کی نشر و اشاعت کرنا منع ہے۔

_علانیہ فسق وفجور کا ارتکاب کرنا۔

_کسی کے خلاف بھتان لگانا اور افترا پردازی کرنا۔

_برائی اور بے حیائی کی باتوں   کو پھیلانا ۔

_معاشرہ میں خوف اور دہشت کاماحول پیدا کرنا۔

_جرائم کے ارتکاب پر لوگوں کو ابھارنا۔

_ دوسروں کے راز افشاکرنا۔

یہ ساری باتیں منع ہیں۔

آج کل الکٹرانک میڈیا کی وجہ سے  ذمہ داریوں کا دائرہ اور وسیع ہو گیا ہے ، قذف اور بہتان تراشی جس طرح  زبان سے ہوتی ہے ،اسی طرح جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال سے بھی جرائم کاارتکاب کیا جاسکتا ہے، اس کی سزا کی تحدید عصر حاضر کے فقہاء کی ذمہ داری ہے۔

رائے کے  اظہار  کی آزادی  سے پہلے خود انسان کی آزادی کی حفاظت ضروری ہے، اس کی ایک مثال تو وہ ہے جس کا نمونہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے  اس وقت پیش کیا، جب مصر کے والی عمرو بن العاص ؓ کو ان کے بیٹے کے ساتھ ایک قبطی کی شکایت پر مدینہ طلب کیااور قبطی کےہاتھوں بیٹے کو دُرے لگوائے اور یہ بھی فرمایا :۔

"متى استعبدتم الناس و قد ولدتهم أمهاتهم أحرارا"

الکٹرانک جرائم یعنی غلط افکار، فحش مناظر اور اخلاق سوز پروگراموں کی ترویج میں انٹر نیٹ کے استعمال نے اس پر کنٹرول ناممکن بنادیا ہےاور مجرموں کےلئے مستعار ناموں کے ذریعہ خود کو چھپائے رکھنے کی سہولت بھی پیدا  کردی ہے،  B B C کی ایک رپورٹ کے مطابق جدید  ٹکنا لوجی نے اصولوں اور اخلاقی ضابطوں کو توڑنے والوں کے خلاف کار روائی کومشکل بنادیا ہے ، انسان کی ہر آزادی کا حق دوسرے  کے ضرر نہ پہنچانے سے مربوط ہے ؛ چنانچہ فرانسیسی قانون کی دفعہ 4 میں ہے:

’’آزادی انسان کےلئےہر کام کی ایسی قدرت کا نام ہے، جس میں کسی اور کا نقصان نہ ہو‘‘

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے قوانین کی دفعہ 20 میں ہے:

’’جنگ، نفرت، کراہیت، نسل پر مبنی قومیت، نسل پرستی اور شدت پسندی پر ابھارنے والے نعروں سے روکا جائےگا‘‘

دفعہ10 میں ہے:

’’اپنی آراءسے دوسرے کو تکلیف نہ دینا ضروری ہے ‘‘

علامہ کاسانیؒ فرماتے ہیں :

"أما إظهار شعائر الكفر في مكان مُعَد لإظهار شعائر الإسلام و هو في ديار المسلمين   فيمنعون من ذالك"

کیونکہ شعائر کفر کا اظہار اسلامی اصولوں کے منافی ہے اور یہ دینی یا مذہبی آزادی  کا مسئلہ  نہیں  ہے؛  چنانچہ مسلم ممالک میں  ان کی عبادت گاہوں سے باہر عیسائیوں کی طرح صلیب کا لٹکانا یامجوسیو ں کی طرح آگ جلا کے رکھنا  ، اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

ڈاکٹر عبد العزیز الخیاط فرماتے ہیں :۔

"إن الإسلام منع استحداث أديان جديدة تتناقض مع الأديان السماوية كما منع التلاعب بالمعتقدات والتذبذب من عقيدة إلى أخرى حسب الأهواء و المنافع، و لذالك وضع عقوبة المرتد الذي يترك دين الإسلام شديدة"

                (الحرية الدينية)

صحيح وخالص دين انسان كاسب سے قیمتی سرمایہ ہے،  اس دنیا میں جو نعمتیں بھی ملی ہوئی ہیں، ان میں سب سے زیادہ بیش بہا چیز دین ہی ہے، جس کی حفاظت کرنا اور اس کی طرف سے دفاع کرنا اور اس کے ساتھ کوئی کھلواڑ کرنا چاہےاس کو روکنا ، تمام مقاصد شریعت میں سب سے اہم اور مقدم ہے،  اسی میں انسان کے معاش ومعاد کی اصلاح اور دنیا وآخرت دو نوں کی بھلائی ہے۔

دنیا کے حالات کس طرح ٹھیک ہوں؟اور اس كا نظام کس طرح امن وسکون کے ساتھ چلے؟ اس کے کےلئے امام ماوردیؒ کے بقول چھ چیزیزیں درکار ہیں:۔

_     قابلِ اطاعت واتباع  محفوظ دین

 _     با اختیار حاکم

_عدل و انصاف کادور دورہ

_پر سکون ماحول

_ بھر پور خوش حالی

_اور لوگوں میں ترقی کا جذبہ

ان چھ با توں میں بھی سب سے اہم اور بنیا دی چیز صحیح اور مستند دین ہی ہے۔

مرتد كی سزا كا مسئلہ ایسا ہے،   جس کے بارے میں روشن خیال مفکرین کو شرح صدر نہیں ہوتا؛  بلکہ اب تو بہت سے معتبر مفتیوں کو بھی اس سلسلہ میں تردد ہونے لگا ہے ، جس میں اس نشست کے صدر مصر کے سابق مفتی شیخ نصر فرید و اصل بھی شامل ہیں ، اس لئے میں نے اس کی کچھ زیادہ وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی ،  اس ضمن میں مذاہب اربعہ کی واضح تصریحات،  تکفیر کے اصول کے بارے میں علامہ انور شاہ  کشمیری ؒ کےبصیرت افروز ارشادات،  امام ابو حنیفہ کے یہاں’’مفتی ماجن ‘‘کی خطرناکی اور اس کی سزا اور قتل مرتد کی حکمت،  صحابہ کے عہد میں اس کے نفاذ کی شکلیں اور اس طرح کے کئی مسائل کی وضاحت ضمنی طور پر ہوگئی ہے ، صدر محترم کی رائے الگ تھی،  لیکن انہوں نے میرے مقالہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

اس کانفرنس میں ... بھی تھے،  انہوں نے اس بات کا کھل کر اعلان کیا کہ مجھے طویل عرصہ تک شیعوں کے بارے میں خوش فہمی رہی اور ان پر تنقید کرنے والوں کو میں غلط سمجھتا رہا،  لیکن اب یقین ہوگیاہے کہ ان علماء کی رائے صحیح تھی اورمیری خوش گمانی غلط تھی،  شیعوں سے کسی خیر کی امید نہیں کی جاسکتی،  ان کے خیالات غلط ہیں ، یاد رہے کہ ... صاحب کاطویل مکالمہ خود رفسنجانی صاحب سے  ہوچکا ہے اور ٹیلیویڑن پر لوگ  اس کامشا ہدہ کر چکے ہیں ۔

آخر میں مسلم ممالک میں  فکری انحراف کی بڑھتی ہوئی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے میں نے لکھاتھا :۔

"و مما يبعث على القلق ظهور نزعة إلحادية قوية لدى فئة من الشباب المسلمين في العديد من الدول الإسلامية مقابل نزعة الغلو و التطرف لدى فئة أخرى منهم، إن هذه الظاهرة الخطيرة بدأت تنتشر في العقول الناشئة انتشار النار في الهشيم من غير أن تكون هناك متابعة للظاهرة أو محاولة جادة من أجل إنقاذ مجموعة غير قليلة من أبناء المسلمين"

 انحراف كے اسباب کا خلاصہ :۔

  *امت اسلامیہ کی مجموعی صورت حال سے نو جوانوں میں مستقبل كے بارے میں سخت مایوسی کا احساس۔

*   متدین لوگوں کی شکل میں  ظاہر ہونے والےانتہا پسند گروپ کی طرف سے قتل وتعذیب کے وحشیانہ مناظر ۔

 *نو جوانوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کی طرف سے لا پرواہی اور ان کے ازالہ کی کسی سنجیدہ کوشس کا فقدان۔

*تعلیم کا فرسودہ نظام جس سے نہ ایمان میں تازگی آتی ہے اورنہ  روح میں بالیدگی  پیدا ہوتی ہے ،  خاص طور پر جبکہ نیک لوگوں کی صحبت بھی میسر نہ ہو۔

*سوشل میڈیا کے ذریعہ گمراہ کن افکار کی مسلسل ترویج و اشاعت اثر انداز ہوتی ہے۔

* بعض گمراہ کن تنظیموں کی طرف سےلالچ اور حیا سوز و ایمان شکن امور کی پیشکش ، جس سے کمزور طبیعت کے لوگ بہک جاتے ہیں۔

لہذا نئی نسل کو فکری انحراف سے بچانے کے لئے فوری اقدامات بے حد ضروری ہیں _

 واللہ المستعان