بات سے بات: یاجوج ماجوج مولانا دریابادی کی نظر میں... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Other

12:45PM Fri 3 Jul, 2020

 آج کل کورونا اور قرنطینہ کا جگہ جگہ چرچا ہے۔ اسی مناسبت سے ہم نے علم وکتاب گرو پ پر مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کے معرکۃ آراء سفر حجاز سے جزیرہ کامران میں عازمین حج کے قرنطینہ سے متعلق باب پوسٹ کیا تھا، اس میں مولانا دریابادی ؒ نے یاجوج ماجوج کی طرف جو اشارے اور تلمیحات کی ہیں اس سے بعض احباب نے اس خیال کر اظہار کیا ہے کہ((  شاید ایسا لگتا ہے کہ مولانا یوروپین اقوام کو ہی یاجوج کا مصداق مانتے ہیں))۔

چونکہ مولانا دریابادی کا یہ سفر ۱۹۲۹ء میں ہوا تھا، اور اس وقت  یورپی سامراج کا دنیا پر مکمل غلبہ تھا، پورے عالم میں مسلمان انتشار اور پژمردگی کا شکار تھے۔ خلاف عثمانیہ کے اختتام کے بعد کے اس عشرے میں اپنی قیادت پر سے مسلمانوں کا اعتبار اٹھ گیا تھا، اور آج مسلمانوں کی جو صورت حال نظر آرہی ہے، کچھ اس سے ملتی جلتی ہی صورت حال تھی، جس طرح آج کے زمانے میں نعیم بن حماد کی کتاب الفتن سے احادیث و روایت   منتخب کرکے ان کی تطبیق آج کے زمانے پر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کچھ یہی صورت حال اس زمانے میں بھی تھی، اور بہت ممکن ہے کہ مولانا بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے ہوں، یہ بات اس لئے کہ رہا ہوں کی کہ غالبا   سید عبد اللہ شاہ قادری کے نام سے اس زمانے میں حیدرآباد کے ایک اہل قلم نےمولانا کے پرچے میں ایک سلسلہ مضامین شروع کیا تھا، جس میں احادیث الفتن کی تشریح میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ قیامت کے جملہ آثار نمایاں ہوچکے ہیں، امریکہ کے مغرب  جاپان سے سورج طلوع ہونے لگا ہے،انگریزوں  کی ہیٹ دیکھئے کفر کا لفظ نظر آتا ہے،  یاجوج ماجوج اور دجال کا ظہو ہوچکا ہے، بعد میں یہ سلسلہ مضامین سید عبد اللہ شطاری کے نام سے اضافوں  کے  ساتھ کتابی شکل میں ہم نے کوئی نصف صدی پیشتر دیکھا تھا، اسلوب بیان دلچسپ اور موثر تھا،  ہمیں یاد نہیں کہ اس کتاب پر مولانا دریابادی کی کوئی تقریظ دیکھی ہو، بہت ممکن ہے مولانا دریابادی ؒ ، مولانا شطاری حیدرآبادی کے افکار سے وقتی طور پر متاثر ہوئے ہوں۔ لیکن ضروری نہیں کہ آخر  عمر تک آپ انہی نظریات  پررہے ہوں ۔ کیونکہ مولانا دریابادی کی بعد کی تحریروں میں ایسی کوئی فکر ہمیں نظر نہیں آئی۔

کسی کثیر التصانیف اورعظیم  مفکر ین یا مصنفین کے افکار   کا محاسبہ کرتے وقت  ہمارے ذہنوں میں یہ بات  رہنی چاہئے اعتبار ان کی آخری رائے کو ہوتا ہے۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ ایسے مصنفین جنہوں نے بڑی عمریں پائیں، اور زندگی کا بڑا حصہ انہوں نے لکھنے پڑھنے میں گذارا، ان میں سے کوئی نصف صدی تک تو کوئی ساٹھ سال تک لکھتا رہا ،تو  ایسے کثیر التصانیف  بزرگ اسوقت  سامنے جو مواد ملتا ہے اس کے مطابق تحقیق وجستجو کرکے ایک رائے قائم کرتے ہیں، مرور زمانہ کے ساتھ مزید مواد ملتا ہے، تو اپنی رائے بدل دیتے ہیں، لیکن زیادہ تر  سابقہ رائے سے رجوع کا انہیں موقعہ نہیں ملتا، یا پھر  انہیں  آئندہ کسی ایسے مواد کے ملنے کی امید ہوتی ہے، جو انہیں اپنی موجودہ رائے کو مزید بدلنے پر آمادہ  کرے ،اور باربار اپنی رائے سے رجوع ان کی تحریروں سے قاری کے اعتبار کو اٹھادینے کا خوف ہوتا ہے، جو مصنفین صرف نقل نہیں کرتے ، بلکہ اپنی ذہنی اور فکری صلاحیتوں سے کام لے کر کسی مسئلے کے تجزیہ کے عادی ہوتے ہیں ، ان کے یہاں ایک ہی مسئلہ پر دو رائیں عام سی بات ہیں، اس سے شاذ ونادر ہی کوئی بڑا مفکر یا مصنف بچ پاتا ہے، قدیم لوگوں میں امام ابن تیمیہ ؒ اس کی مثال ہیں، قریبی دور کی بھی  جلیل القدر  کئی ایک شخصیات کے یہاں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔

 03-07-2020

https://telegram.me/ilmokiab