سچی باتیں۔۔۔ محبت کا ثبوت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:03PM Thu 2 Jul, 2020

محبت کا ثبوت

آپ کو واقفیت ہے ، کہ امام حسین علیہ السلام نے کیوں دشتِ کربلا میں اپنی شہادت گوارافرمائی؟ کیا اس معرکہ سے اُنھیں ملک گیری مقصود تھی؟ کیا طمع دنیوی سے اُن کا دامن آلودہ تھا؟ کیا (نعوذ باللہ) وہ شہرت وناموری کے بھوکے تھے؟ دوست دشمن سب کو معلوم ہے، کہ ان میں سے کوئی شے امام موصوف کے پیش نظر نہ تھی۔ ایک فاسق حکمراں نے اُن سے بیعت لینا چاہی، انھوں نے انکار فرمایا، اوراُس انکار پر قائم رہے، یہاں تک کہ اس انکار کی قیمت اپنے سرمبارک سے دی، لیکن ایک بدکار وظالم حکمراں کی حکومت نہ تسلیم کی۔ وہ محض حق کی خاطر لڑے، محض حق کی خاطر اپنے، اور اپنے سارے خاندان کے لئے ہر طرح کی مصیبت گواراکی،اور محض حق کی خاطر جان دی۔ زندگی جس طرح آپ کو پیاری ہے، اُن کو بھی تھی۔ دُکھ درد کا احساس جس طرح آپ کو ہے، اُن کو بھی تھا۔ گرمی اور پیاس ، نیزہ وتلوار سے جس طرح آپ کو خوف ہے، اُن کو بھی تھا۔لیکن ظالم حکومت کو حکومتِ جائز تسلیم کرلینے کی تکلیف ، اللہ کے اُس نیک وبرگزیدہ بندہ کے لئے اُن تمام مادّی تکالیف سے بڑھ کرتھی۔ اس نے سب کچھ گوارا کرلیا، پر ظالم حکومت کو نہ گواراکیا۔

آپ کہتے ہیں کہ آپ امام حسین علیہ السلام کو اپنا پیشوا وسردرا تسلیم کرتے ہیں، آپ کو دعویٰ ہے کہ آپ کو امام مظلوم کے ساتھ محبت ہے، آپ کی کتابوں میں لکھاہواہے ، کہ شہید کربلا کے ساتھ عقیدت ومحبت رکھنادلیل ایمان ہے۔ پرآپ ذرا اپنے دل کو ٹٹولیں، کہ آپ کے یہ دعوے کہاں تک سچے ہیں۔ آپ کے عقیدہ کو اُن کے عقیدہ سے، آپ کے عمل کواُن کے عمل سے، کوئی مناسبت ہے؟ کیاآپ کے دل میں ظالم حکومت کی طرف سے ویسی ہی نفرت ہے؟ کیا آپ ظالموں کی اطاعت سے اُسی طرح بیزار ہیں؟ کیاآپ غیراسلامی حکومت سے مقابلہ وبغاوت کے لئے اپنے اندر کچھ بھی ہمت پاتے ہیں؟ خدا کے اُس حق پرست بندہ کے ساتھیوں کا شمار اُنگلیوں پر گناجاسکتاہے، آپ کیا کروڑوں کی تعداد میں بھی ہوکر اُس جرأت وقوتِ ایمان کا ثبوت دے سکتے ہیں؟ جان دینا الگ رہا، کیا آپ اس مقصد کے لئے مالی قربانیاں کرنے کو بھی تیار ہیں؟

محبت کا ثبوب، عمل، اور عقیدت کی دلیل، پیروی ،ہے ۔ مٹھائی آپ کو اچھی معلوم ہوتی ہے، آپ اُسے کھاتے ہیں، محض اُس کا نام جپنے  سے مُنہ میٹھا نہیں ہوسکتا۔ لکھناآپ ایک ضروری کام سمجھتے ہیں، تو تحریر کی مشق کرتے ہیں، محض قلم دوات کی پوجا سے کام نہیں چل سکتا۔ قرآن کو آپ کتاب آسمانی مانتے ہیں، سو اپنا پڑھنا اور اپنا امکان بھر عمل کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں، محض اس کی جلد کوچوم چاٹ لینا کافی نہیں خیال کرتے۔ پھر ، یہ کیاہے، کہ آپ امام علیہ السلام کا محض نام عقیدت وتعظیم کے ساتھ لے لینا کافی سمجھتے ہیں، اور ان کے طریقہ پر چلنے کی ایک ذرہ کوشش نہیں کرتے؟ ذرا اپنے دل میں سوچئے ، اور عقل سے مشورہ کرکے فیصلہ کیجئے، کہ ان کی یادگار قائم رکھنے کا بہترین طریقہ کیاہے؟ آیا یہ کہ عمل سچا اُن کی پیروی کی جائے، یا یہ کہ سال میں دس دن اُن کا نام لے کر بانس، اور کاغذ، شربت اور روشنی پر بہت سا روپیہ لگاکر اپنی تفریح ودلچسپی کا سامان پیداکرلیاجائے؟

19-06-1925

https://telegram.me/ilmokitab