مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے۔۔۔از:فضیل احمد ناصری

رمضان کی طویل رخصت گزار کر جمعہ ہی کو دیوبند پہونچا ہوں، ہمارے جامعہ میں داخلے کی کارروائیاں جاری ہیں، لکھنے کا موقع بالکل بھی نہیں مل پا رہا، اس دوران علمی شخصیات کی رحلت کی خبریں موصول ہوتی رہیں اور دل و دماغ کی دنیا زیر و زبر کرتی رہیں، دو دن قبل مراد آباد کے مشہور محدث حضرت مولانا نسیم غازی المظاہری کے انتقال کی خبر ملی تھی اور آج شیخ العالم محدثِ کبیر حضرت مولانا یونس صاحب جون پوری کے وصال کا سانحہ- انا للہ وانا الیہ راجعون-
یہ دونوں شخصیتیں اپنی اپنی جگہ آفتاب و ماہتاب تھیں، مولانا غازی مظاہری کا وطنی تعلق بجنور سے تھا، مگر شہرت انہوں نے مراد آباد کے حوالے سے پائی، مدرسہ شاہی مراد آباد میں بھی انہوں نے تدریسی خدمات انجام دی ہیں، زبردست عالم اور بلا کے ادیب و خطیب تھے، ان کی زیارت سے میں مشرف تو نہ ہو سکا، تاہم ان کے علمی کمالات اور شانِ تبحر کی خبریں متواتر ملتی رہیں، وہ ان خوش نصیب علما میں تھے جن کی طرف انتساب اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بات ہوتی ہے، برد اللہ مضجعہ-
جہاں تک حضرت مولانا یونس صاحب جون پوری کی بات ہے تو حق یہ ہے کہ ان کا تو کوئی جواب ہی نہیں تھا، وہ جس پاے کے محدث تھے، اس کی نظیر موجودہ دور میں شاذ و نادر ہی ملتی ہے، ان کی عظمت و عبقریت اور علمی جلال و جمال کا اندازہ صرف اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جامعہ مظاہر علوم سہارن پور میں شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی کے بعد انہوں نے ہی اس کی مسندِ شیخ الحدیثی کو رونق بخشی،وہ بھی حضرت شیخ الحدیث کے حکم و ارشاد پر، پھر اس پر طرہ یہ کہ اس مسند کا وقار بڑھایا ہی، گرنے کیا دیتے! میں نے اپنی طالب علمی کے دور میں بھی یہی سنا تھا کہ اس وقت روے زمین پر سب سے بڑے محدث یہی ہیں، اس وقت ہندوستان میں بڑی بڑی علمی ہستیاں تھیں، ان کے باوجود علما اور طلبہ کی زبان پر ان کی عظمت کے چرچے رہے، اب تو قحط الرجال کا دور ہے، ممتاز مصنفین اور علوم اسلامیہ کے ماہرین ایک ایک کرکے اٹھتے چلے گئے، ان کی انفرادیت میں اب کون سا شک رہ گیا تھا؟ مجھے ان سے مسلسلات پڑھنے کی سعادت حاصل ہے-
طالب علمی کے زمانے میں کسی استاذ کی عظمت کا دل میں بیٹھ جانا اور بات ہے اور تدریسی دور میں جاگزینی کارِ دیگر- حضرت یونس صاحب کی جلالتِ شان کا سکہ یوں تو طلبِ علم کے وقت ہی بیٹھ چکا تھا، مگر ان کی عبقریت اس وقت مزید آشکارا ہوئی جب ان کی کتاب "الیواقیت الغالیہ " میرے مطالعے میں آئی، یہ کتاب ان کی محدثانہ بلندی کو بیان کر دینے کے لیے کافی ہے، علم حدیث پر ان کی دستگاہ اور ذخیرۂ احادیث پر ان کی عمیق نظر کا ہی کمال تھا کہ احادیث پر حکم لگانے میں انہیں کوئی تامل نہ ہوتا، اہلِ علم کو ان کی تحقیقات پر کامل اعتماد تھا، وہ جو کہہ دیتے، پتھر کی لکیر ہوتی، اس کے ساتھ ہی وہ ایسے حنفی تھے کہ متعدد مقامات پر شوافع کی مضبوطی کا برملا اعتراف کردیتے-
وہ "علماے عزاب " میں سے تھے، یعنی وہ علما، جنہوں نے شادی نہیں کی، لوگوں میں اس کی کئی وجہیں بیان کی گئیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ نکاح کرنے کی پوزیشن خود میں نہیں پاتے تھے، اس لیے الگ ہی رہے، اپنی اولاد نہ ہونے کا انہیں بڑا قلق رہتا تھا-
آج علمی بزم ایک بار پھر سونی ہوگئی، یہ سناٹا طویل رہے گا اور شاید صدیوں تک اس کا اثر باقی رہے، اللہ انہیں غریقِ رحمت فرماے اور دونوں مرحومین کو اپنی شایانِ شان اجز جزیل عطا فرماے:
جان کر منجملۂ خاصانِ مے خانہ تجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے