’’ ۔۔۔مگر کم بخت۔۔ آزاد۔۔ ہوگیا ‘‘ ۔۔۔۔۔۔از: ندیم صدیقی

Bhatkallys

Published in - Other

01:52PM Mon 29 Oct, 2018
 روزنامہ’’ ممبئی اُردو نیوز‘‘ کا تازہ کالم ’’شب و روز‘‘ ہم ہندوستانی مسلمانوں میں ایک طبقہ تھا جو اپنے آپ کو پیدائشی کانگریسی کہا کرتا تھا(ہو سکتا ہے اب بھی ہو)، وہ سب سے پہلے کانگریسی ہوتے تھے پھر کچھ اور اُن کی وضع قطع بھی ایسی ہوتی تھی کہ دیکھ کر لگتا تھا کہ واقعی یہ گاندھیائی فکر و عمل کے آدمی ہوںگے مگر یہ معاملہ ہم مسلمانوں کے عام ظاہر و باطن جیسا ہی ہوتا تھا ، یہ لوگ اپنی قوم ملت کے وفادار ہوتے تھے یا نہیں مگر کانگریسی آقاؤں کے جاں نثار غلام ضرورہوتے تھے۔ ان کی وفاداریاں کس درجے کی اور اخلاص سے کتنی بھری ہوتی ہوںگی، اس مثال سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک حضرتِ والا کانگریس کے تئیں جاں نثاری کی نظیر پیش کرنا چاہتے تھے، اندرا گاندھی کے بُرے دن تھے ، مثل مشہور ہے کہ جب بُرا وقت ہوتو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے ، جاں نثاری کے مظاہرے کا ایک نادر موقع تھا، بلکہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ موصوف بہت دور اندیش تھے یا اندھیرے میں تیر چلانا جانتے تھے۔ اندرا گاندھی کو گرفتار کرکے جس گاڑی سے لے جایا جارہا تھا، موصوف نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بس میڈم کی گاڑی کے سامنے لیٹ گئے۔ قصہ مختصر کہ زمانہ پھر پلٹا اور اندرا گاندھی پھر برسر اقتدار آئیں، مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابات ہونے والے تھے موصوف نے الیکشن کا ٹکٹ مانگا اور اپنے آقاؤں کے ذریعے میڈم کو یاد دِلایاگیا کہ یہ شخص آپ کی گاڑی کے سامنے لیٹ گیا تھا، بہر طور حضرتِ والا کو ٹکٹ مل گیا۔ وہ قوم و ملت کےلئے کتنے مخلص ثابت ہوئے ہونگے آپ گمان کر سکتے ہیں دراصل اُن کی منزل یا اُن کی زندگی کا حاصل یہ تھا کہ وہ ایم ایل اے بن گئے، باقی سب خیریت ہے۔ یہ باتیں کل(۲۶ ،اکتوبر) ہمارے ہی اخبار کے جمعہ میگزین میں شائع ہونے والے (ممتاز صحافی افتخار گیلانی کے ) مضمون نے یاد دِلادِیں۔ مہاراشٹر کے مشہور ِزمانہ مسلم لیڈر ڈاکٹر رفیق زکریا بھی ہمیں یاد آگئے یہ مرحوم بھی جنم جنم کے کانگریسی تھے۔ آج سے دو تین دہے قبل مہاراشٹر کےسیاسی منظر نامے کا بہت ہی اہم کردار تھے رفیق زکریا۔۔۔۔  ایک طویل مدت وہ برسر اقتدارجماعت کے خاصے فعال کارکن ہی نہیں بلکہ وزیرِبا تدبیر‘ بھی رہے یہ اور بات کہ ان کی تمام تر تدبیریں ان کی شخصیت ہی تک محدود تھیں، جب خواص کا یہ حال ہو توعوام کیسے ہونگے ۔۔۔ !!۔۔۔ جس طرح پیدائشی کانگریسی کی اصطلاح اوپر بیان کی گئی ہے، اسی طرح عوام میں کثیر تعداد ان کی ذہنی غلام تھی۔  پہلے ہم افتخار گیلانی کے مضمون کا موضوع بیان کر دیں کہ جس میں انہوں نے کانگریس کا وہ اندرون دکھایا ہے کہ جس پر بر سہا برس سے سیکولر رنگ کا خوشنما پردہ پڑا ہوا تھا۔ مذکورہ مضمون کانگریس کے صف ِاول کے لیڈر غلام نبی آزاد کےایک بیان جو حقیقت پر مبنی ہے مگر حیرانی کہا جائے یا اسے ہمارے لیڈروں کی نادانی یا وقوف کی کمی۔۔۔۔ اس وقوف کی کمی پر ایک شاعر دوست اور مشہور براڈکاسٹر جاوید ناصر بھی اپنے پورے تشخص اور گہری سنجیدگی کے ساتھ ذہن میں جلوہ بنے ہوئے ہیں ان کی سنجیدگی اس درجہ تھی کہ شاعرِ خوش کلام نظام الدین نظامؔ جب ان سے ریڈیو اسٹیشن پر پہلی بار ملا تو اس کا تبصرہ تھا کہ جاوید ناصر بولنے کی ۔۔۔کیا فیس لیتے ہیں ؟۔۔۔ جاوید ناصر جب کسی کوغبی سمجھتے تھے تو وہ اسے بے وقوف نہیں بلکہ کہتے تھے کہ۔۔۔ آپ کے ہاں وقوف کی کچھ کمی ہے۔۔۔!! ہمارا خیال ہے کہ جاوید ناصر اگر آج ہوتے تو وہ غلام نبی آزاد جیسے لیڈروں کے بارے میں یہی جملہ دُہراتے کہ ان کے ہاں۔۔۔وقوف کی کچھ کمی ہے۔۔۔ مگر ہمیں اس جملے میں۔۔ کچھ ۔۔ زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔ غلام نبی آزاد کے بارے میں ایک بات اور ذہن میں کلبلا رہی ہے سو اُسے بھی نکال دیتے ہیں کہ پندرہ برس اُدھر کا واقعہ ہوگا کہ موصوف نے اپنی کسی تقریر میں مسلمانوں کے خلاف کوئی بات کہہ دی تو اُس وقت ہمارے معاصر روزنامے کے  مدیر ِمحترم پروفیسر فضیل جعفری(مرحوم) نے اپنے اداریے میں اُن کی خوب خبر لی اور اپنی تیکھی تحریرکو اس جملے پر ختم کیا کہ ’’ ان کے والدین نے تو انھیں نبی کی غلامی میں دیدیا تھا مگر کم بخت۔۔ آزاد۔۔ ہوگیا ۔‘‘ آزادی بہت اچھی بات ہےمگر ہر عمل اور ہر بات کی کچھ حدیں ہوتی ہیں اگر یہ حدیں عبور ہوگئیں تو پھر اسکے نتائج کب اورکس طور سامنے آئیں گے، یہ قدرت کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔ ہمارے اُستادِ معنوی ظ انصاری کہا کرتے تھے کہ ’’ میاں! بچے صرف سات آٹھ سال ہی کے نہیں ہوتے بچوں کی ایک قسم اور ہوتی ہے جو آپ کو بعض عمر رسیدہ لوگوں میں ملے گی یعنی یہ بچےستر(70) اوراسّی(80) سال کے بھی ہوتے ہیں۔‘‘ غلام نبی آزاد اپنےحالیہ بیان سے مذکورہ بچوں ہی کے قبیل کے آدمی ثابت ہوئے جن سے کانگریس جیسی پارٹی بچوں ہی کی طرح کھیلتی رہی مگر جب اُن پر یہ کھلا کہ ارے یہ تو ہم سے کھیل رہی تھی۔۔۔! تو وہ قوم کے سامنےرو رہے ہیں۔ جو لوگ کانگریس کے سیکولر چہرہ بنے ہوئے تھے اب ان سے کہا جارہا ہے کہ آئندہ جنرل الیکشن کےموقع پر اِنتخابی ریلیوں اور جلسوں وغیرہ میں قریب ہی نہیں دٗور  تک نظر نہ آنا۔۔۔۔۔ افتخار گیلانی کے مذکورہ مضمون کا یہ اقتباس ضرورپڑھیے: ’’ سالِ گزشتہ وزیر اعظم نریندر مودی کے آبائی صوبہ گجرات میں کانگریس نے بی جے پی کو ہروانے کیلئے جہاں پوری مشینری جھونک دِی تھی، وہیں کارکنوں کو باضابطہ ہدایت دِی تھی کہ اسٹیج پر کوئی مسلم لیڈر نہ ہو۔ حتیٰ کہ گجرات سے کانگریس کے مقتدر لیڈر اور سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو بھی پسِ پردہ رہنا پڑا۔ اُمیدوارں کو بتایا گیا تھا کہ وہ مسلم محلوں میں ووٹ مانگنے نہ جائیں اور جلسے ، جلوسوں میں لمبی داڑھی و ٹوپی والوں کو اگلی صفوں میں نہ بٹھائیں۔ کچھ اسی طرح کی حکمت ِ عملی کانگریس اب اگلے ماہ ہونے والے پانچ صوبائی اسمبلیوں کیلئے انتخابی مہم میں اپنا رہی ہے ۔‘‘ اس بات سے ہندوستانی مسلمانوں کا سیاسی مستقبل گہری نظر رکھنے والوں کیلئے ہی نہیں ہم جیسوں پر بھی واضح ہوگیا ہے کہ اب مستقبل کے پارلیمان میں مسلمان کتنے ہونگے ۔؟۔۔۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ جیسی پرجا ویساراجہ۔۔۔  دراصل ہم مسلمانوں کو ایک خاص انداز سے مارا گیا ہے کہ انھیں چوٹ کا احساس نہ ہو اور جب یہ احساس پیدا ہو تو ۔۔ مریض۔۔ اپنے انجام کے قریب تر ہوچکا ہوگا۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ جب الیکشن کا موسم آتا ہے تو ہم ہی میں سے ۔۔۔حشرات الارض۔۔۔ ہمارے محلے، گلی کوچوں میں میز کرسی لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور امیدوار انھیں ووٹرز کا ٹھیکے دار سمجھ کر منہ مانگے دام دیتا ہے۔ سوچئے ایسے میں ہماری سیاسی قوت کس درجے کی ہوگی۔۔۔؟ یہ بات معمولی سوجھ بوجھ کاانسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ رفیق زکریا جنہوں نے پوری زِندگی کانگریس میں گزاری مہاراشٹر اسمبلی سے لے کرپارلیمان تک پہنچے اور علم و دانش کے سبب پڑھے لکھے بھی اُن سے مرعوب رہے ۔ ہم اس سے پہلے بھی لکھ چکے ہیں ، پھردُہرا رہے ہیں کہ ایسی باتوں کا آموختہ ہوتے رہنا چاہیے شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات۔ مرحوم ( رفیق زکریا)عمر کے آخری بلکہ یہ کہیے کہ زندگی کی آخری تقریب میں ہم سب پر یہ راز کھول گئے: ۔۔۔’’اقتدار کے گلیاروں میں ہمارا( مسلمانوں کا)کوئی دوست ، کوئی ہمدردنہیں۔ ‘‘۔۔۔ آزادی کے ستر برس گزر گئے مگر ہم آج بھی غلام ہی ہیں البتہ ستر برس پہلے ہمارا آقا انگریزتھا اب ہمارے ہی ہم وطن آقا ثابت ہو رہے ہیں، خیر یہ بات تو اپنی جگہ مگر کوئی یہ تو بتائے کہ ہم میں غلامی کے یہ ۔۔۔جراثیم ۔۔۔ آخر اب تک کیوں باقی ہیں۔؟  شکرِ ربی کہ اس کا جواب بھی ضمیر نے دیدیا کہ عملی زندگی میں من حیث القوم ہم نبی() کی غلامی سے بہت دور نکل گئے ہیں لہٰذا اِس جرم کی کوئی سزا تو آخرملے گی ہی ۔   (ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج تمام مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مشتمل ہے اس سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)