حج کا سفر ۔ جہاز کا نظم کار ۔۔۔ (١) ۔۔۔ مؤلف: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

07:14PM Thu 11 Aug, 2022

ظاہر ہے کہ حج کا معاملہ مسلمانوں کا خالص مذہبی اور اعتقادی معاملہ ہے، جس سے دوسرے مذہب والوں کو کوئی دل چسپی نہ ہونا چا ہیئے؟ بہت دل چسپی ہوئی بھی تو بے تعلقی کی دل چسپی کی حد سے آگے اس کے جانے کا بظاہر کیا سوال پیدا ہو سکتا ہے؟ لیکن سفر حج کے تجربے نے باور کرایا کہ اندازہ کرنے میں ہم غلطی کر رہے ہیں، دنیش سنگھ صاحب نائب وزیر خارجہ نے جو "اصلی حج" کی برجستہ وضاحت کی اسے محض بے تعلقی کی دل چسپی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا یا انہوں نے ناکام عازمین حج کے لئے سفر حج کے انتظام میں جو سرگرمی دکھائی اسے صرف دکھاوا کہہ کر نظرانداز کردینا آسان نہ ہوگا۔

محسوس کرنا پڑتا ہے کہ مذہبی دل چسپی رکھنے والے خواہ کسی مذہب کے بھی ماننے والے ہوں ان کے دلوں کے اندر مذہبی مراسم کا احترام بہر حال ہوتا ہے، یہ دوسری بات ہو کہ بہت سے دوسرے اسباب اس احترام کے اظہار کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جائیں اور جہاں یہ اسباب سد راہ نہیں بنتے وہاں بے اختیار ایسے امور سرزد ہوجاتے ہیں جو دوسرے مذاہب کے احترام کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔

ہم لوگ لکھنؤ میں جب چیچک اور ہیضے کے سارٹیفکٹ لینے کارپوریشن کے محکمۂ حفظان صحت میں حاضر ہوئے تو سرکاری دفتروں کے مستقل تجربوں کے برعکس چند منٹ میں تمام مراحل انجام پاگئے، یہی نہیں ہوا بلکہ عملے کے جس جس آدمی کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ حج کو جارہے ہیں اس نے نہ صرف یہ کہ ایک طرح کی خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی دکھائی جو دفتری کرسیوں پر بیٹھے ہوئے انسانوں کی عادت کے سراسر خلاف تھی؛ بلکہ دو ہندو کلرکوں نے ہم سے التجا بھی کی کہ "وہاں دعاؤں میں ہمیں نہ بھولیے گا" یہ دونوں نوجوان ہمارے کبھی کے شناسا نہ تھے، ہیلتھ آفیسر سے سارٹیفکٹ پر دستخط کرانے گئے تو بغیر سابقہ تعارف کے انھوں نے محض عازمین حج کے لحاظ سے باوجود جگہ کی تنگی کے کرسیاں منگا کر ہمارے بیٹھانے کی فکر کی۔

ہمارے بہت سے غیرمسلم احباب ہیں ان کے لئے اپنے ایک دوست کو جو لمبے سفر پر جارہا ہے الوداع کہنا اور نیک تمنائیں پیش کرنا رسماً اور اخلاقاً ضروری تھا اور اس فرض کو انہوں نے انجام بھی دیا لیکن ایک ساتھی مسٹر منداکنی پرشاد سکسینہ (چیف رپورٹر "نوجیون" )نے رخصت کرتے ہوئے ایک فرمائش بھی کی:۔

"دیکھیے اگر کعبہ کا پانی اور مدینہ کی مٹی نہ لائے تو اچھا نہ ہو گا"۔

بے تکلفی سے پوچھا: "مندو! (ان کی عرفیت ہے) تمہیں ان چیزوں کی کیا حاجت پیش آگئی؟"

مندو نے جواب دیا: "جناب! اس سے آپ کو کیا بحث، میں کچھ کروں گا"۔

بمبئی جانے کے لئے ریل پر سوار ہوئے تیسرا درجہ "ٹو ٹائر والا" ہمارے حصے میں آیا تھا، جس میں پچاس ساٹھ سے زیادہ نشستیں تھیں ان پر بہت سے غیرمسلم مسافر تھے، چار باغ اسٹیشن پر رخصت کرنے والوں سے انہیں ہمارے سفر کی نوعیت کا اندازہ ہوا، پھر ہم نے دیکھا کہ سفر کی ساری خود غرضیاں ہمارے سلسلے میں ان سے رخصت ہوچکی تھیں، راستے بھر اس طرح وہ پیش آتے رہے جیسے ہم ان کے مہمان بن کر جار ہے ہیں، "ٹو ٹائر والے" دوسرے کمپارٹمنٹ میں کچھ خرابی پیدا ہوگئی جسے اٹارسی میں ریل سے جدا کردیا گیا، اس کمپارٹمنٹ کے مسافر تقسیم ہو کر ہمارے درجے میں بھی آئے جگہ کی تنگی ہوئی لیکن یہ تنگی ہمارے لئے نہیں تھی، جس کو یہ معلوم ہوتا کہ یہ حج کو جارہے ہیں وہ ہمیں زحمت دینے سے احتیاط کرتا۔

ریلوے کا ایک نوجوان غیرمسلم ملازم بھی جو دورے پر جارہا تھا خراب کمپارٹمنٹ سے ہمارے درجے میں آیا اور کسی طرح ہماری سیٹ پر بیٹھنے پر تیار نہ ہوا کہ آپ لوگوں کو زحمت ہوگی، کافی اصرار کے بعد بیٹھا تو اس نے بتایا کہ وہ فوج میں تھا اس نے سمندری سفر بہت کیا اورسمندری بیماری (سی سکنس) سے کیا کیا تکلیف ہوتی ہے؟ اس نے مشورہ دیا کہ سمندری نمک اور املی کی گولیاں اگر کھائی جائیں تو سمندری بیماری سے بالکل نجات رہتی ہے۔

اس نے مشورہ بھی دیا اور بتایا بھی کہ بمبئی میں ساحل کے آس پاس پان سگریٹ کی فلاں فلاں دوکانوں پر املی اورسمندری نمک کی بنی ہوئی گولیاں مل جاتی ہیں۔ بمبئی میں بعض خریداریوں کے موقعہ پر اندازہ ہوا کہ غیرمسلم دوکانداروں کا بھی وہ رویہ جو عام خریداروں کے ساتھ رہتا ہے حاجیوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔بمبئی میں کسٹم آفیسر کا جو رویہ حاجیوں کے ساتھ رہا وہ ذکر ہوچکا ہے، یہ تمام رویے اس عام رویے سے بالکل مختلف تھے جوعام طور پر ہمارے تجربے میں آتے رہتے ہیں۔ذرا ریل کے کسی تیسرے درجے میں گھس کر دیکھئے کیا سلوک بیٹھے ہوئے مسافر، نووارد مسافر کے ساتھ کرتے ہیں؟ یہ سب صرف حج کے احترام کے پیش نظر اگر نہیں ہوا تو پھر کس وجہ سے ہوا؟

جس قدر خوشی حاجیوں کے ساتھ اس عام اخلاق و احترام کو دیکھ کر ہوئی اسی قدر رنج یہ سوچ کر ہونے لگا کہ آخر عام زندگی میں ہمارا عام رویہ یہ کیوں نہیں ہوسکتا اور ایک ہی آدمی میں عام زندگی میں یہ بے مروتی اور خاص موقع پر یہ مروت کہاں سے آجاتی ہے؂

کبھی تمکین صولت آفریں کیوں؟

کبھی الطاف جرأت آزما کیا؟

بات یہی ہے کہ حصول اقتدار کی سیاست اور حکمت عملی کی گرم بازاری نے انسانیت کے تمام جوہروں پر ایسا دبیز پردہ ڈال رکھا ہے کہ آدمی کی اصلی شکل پہچاننا مشکل ہوگیا ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ مذاہب جو خیر خواہی، غم گساری، ہمدردی اور رواداری کے پیغامبر بن کر دنیا میں آئے تھے، اب بدخواہی، بے مروتی اور بدگمانی کے نقیب بن کر ابھر رہے ہیں؛ یہ سب ہوس اقتدار کی کرشمہ سازی ہے، جہاں اس سے ہٹ کر کوئی معاملہ ہو وہاں دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان اپنی انہی خوبیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے جو اس کی خلقت میں ازل سے ودیعت کر دی گئی ہیں اور ان تمام نظریوں کا ماننے والا ہے جو معاشرے کی راحت اور آسائش کے سلسلے میں تجربے نے ضروری سمجھی ہیں، وہ غیر سیاسی زندگی میں اس مشہور نظریے پرپوری طرح عامل رہتا ہے؂

آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرف ست

 با دوستاں تلطف با دشمناں مدارا

یہ انکشاف اس حج کے سفر میں پوری قوت کے ساتھ ہوا اور اگر برا نہ مانیے تو یہ کہنے کی جرات کی جائے کہ ان لوگوں سے جو حج کے معاملے میں ہم عقیدہ ہیں اور جن سے عازمین حج کو زیادہ سے زیادہ توقعات بجا طور پر ہوسکتی تھیں ہمیں اکثر خلاف توقع باتیں دیکھنے میں آئیں اور جو ہم عقیدہ نہیں تھے انھوں نے قدم قدم پر خوش عقیدگی کا ثبوت پیش کیا۔

دیکھ مسجد میں شکست رشتۂ تسبیح شیخ

بتکدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

خیر بات یہاں تک پہنچی تھی کہ ہم لوگوں کا مظفری جہاز پر دوسرا دن ہوا، طبیعتیں جو سمندری سفر کے آغاز میں بے چین ہو گئی تھیں رات کے آرام  کے بعد مائل بہ سکون تھیں۔

اب آٹھ دن جہاز پر گزارنا ہیں، نہ کہیں آنا نہ کہیں جانا اور تقریبا دو ہزار کی آبادی کی چہل پہل کے درمیان بسر کرنا ہے، یہاں کوئی گوشہ تنہائی نہیں جہاں الگ تھلگ بیٹھ رہنا ممکن ہو اور نہ اس اہم اجتماعی فریضۂ دینی کو خلوت نشینی کے بے موقع استعمال سے بے سود بنانا ہی مناسب ہے۔

خلوت نشینی فرد کی اصلاح کے لئے کتنی ہی مفید اور کتنی ضروری کیوں نہ ہو لیکن معاشرے کا تقاضا قدم قدم پر مل بیٹھنے کی دعوت دیتا ہے، معاشرے ہی کا نہیں مذہب کا بھی تقاضا یہی ہے۔

ہم نے پڑھا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ نماز اصلاح نفس کا ایک اہم ذریعہ ہے "ان الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنکر" نماز بے ہودگیوں اور غلط باتوں کا سد باب کرتی ہے

اور یہ بھی تجربہ بتاتا ہے کہ جتنی صحیح نما ز تنہائی میں ادا ہوسکتی ہے مجمع میں نہیں ہوتی، لیکن یہ کیا بات ہے کہ جماعت اور مجمع کے ساتھ نماز ادا کرنے کا حکم اس قدر اصرار کے ساتھ دیا جا رہا ہے؟ اس لئے کہ صحیح نماز میں جو فائدہ ہے وہ صرف ایک کو پہونچتا ہے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں پورے معاشرے کے لئے فائدے مضمر ہوتے ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ ہم اپنی دینی پستی کی وجہ سے ان اجتماعی فائدوں کو حاصل کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔

حج باجماعت نماز سے کہیں بڑا اجتماعی فریضہ ہے، اس فرض کو ادا کرنے والا ہی اگر اجتماع سے گریزاں ہونے لگے تو پھر تو اللہ ہی مالک ہے؛خلوت نشینی کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن حج کے عازم کے لئے خلق سے گریزاں رہنے کی فضیلت تسلیم کرنے سے ہمیں انکار ہے؂

عشق و مزدوری عشرت کی خسرو؟ کیا خوب!

ہم کو تسلیم نیکو نامی فرہاد نہیں!

جہاز پر دو ہی ہزار انسانوں سے سابقہ ہے، آگے عین حج کے دنوں میں تو لاکھوں کی ریل پیل ہوگی، دھکم پیل ہوگی، ارکان حج کی ادائیگی میں مسابقت ہوگی، تھوڑی سی خود غرضی بھی کارفرما نظر آئے گی، چھوٹا بڑے کو، غریب امیر کو، شاگرد استاد کو پیچھے کر دینے کے جذبے میں مست و سرشار ملے گا، اے عافیت کوش بندۂ خدا! کیا شاہوں کی طرح یا چوروں کی طرح چھپ کر بیٹھے رہنے سے تیرا حج ادا ہوجائے گا؟ حج ہے ہی دنیا بھر سے آئے ہوؤں کے درمیان رہنے، ان کو دیکھ کر اپنے کو سنوارنے، انہیں سمجھ کر اپنے کو سبق دینے کے لئے، نہ کہ چوروں کی طرح چھپے چھپے پھرنے کے لئے؂

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر!

نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لئے

جہاز پر امیرالحج ،حاجیوں اور جہاز کے کپتان کے درمیان ایک وسیلا اور رشتے کا کام دیتا ہے، حاجیوں کی زحمتیں، شکایتیں اور ضرورتیں امیرالحج تک آتی ہیں وہ انہیں جہاز کے کپتان تک پہونچاتا ہے، کپتان کو اگر حاجیوں کی بے ضابطگیوں سے کوئی شکایت ہوتی ہے تو باوجود اس کے کہ وہ جہاز کا مطلق العنان حکمراں ہوتا ہے امیرالحج کو توجہ دلاتا ہے۔

ایک امیرالحج تقریباً دو ہزار حاجیوں کے سارے معاملوں سے آگاہ کیسے ہو اس کے لئے ایک باقاعدہ نظام بنا دیا گیا ہے، امیر اپنے نائب مقرر کرتا ہے تعداد کا فیصلہ امیر پر ہے، عموما جہاز کے ہر درجے کے ہر حصے سے ایک آدمی نائب کی حیثیت سے چن لیا جاتا ہے کم و بیش ۱۴- ۱۵ نائب ہو جاتے ہیں جو اپنے اپنے علاقوں کی ضرورتوں سے آگاہ رہتے ہیں اور روزانہ ۱۱ بجے دن سے ایک بجے دن تک جب امیرالحج اپنے آفس میں بیٹھتا ہے توان کے سامنے معاملات پیش کر دیتے ہیں۔

ہمارے امیرالحج مولانا سید شاہد فاخری (ایم ایل سی) ممبر حج کمیٹی ہو تو گئے تھے امیر، لیکن اس پورے سفر میں ان پر بجائے لیڈری کے "قلندری" ہی سوار رہی، جنھوں نے ان کو لیڈری کرتے اور آستینیں اور مونچھیں چڑھائے دھواں دھار تقریریں کرتے دیکھا ہے وہ ان کو جہاز پر دیکھ کر صورت سے پہچان لیں تو پہچان لیں، ان شاہد فاخری کو پہچان نہیں سکتے جن سے ملنے کے وہ عادی رہے ہیں۔

انھوں نے کئی عدد اپنے نائب مقرر کر لئے بلکہ ایک نوجوان نائب مسٹر عبد الستار زری والا (ممبر حج کمیٹی) کو اپنے سارے اختیارات بھی سونپ دیئے، کپتان کے ساتھ روزانہ پورے جہاز کا دورہ کرنے اور کپتان اور ڈاکٹر کے ساتھ روزانہ کھانا چکھنے کی ذمہ داریاں بھی مسٹر زری والا نیابت میں انجام دیتے تھے۔

پانچوں وقت باجماعت نماز کا انتظام بھی جہاز کی کسی کھلی جگہ پر کیا جاتا ہے، اگر نہ کیا گیا تو امیرالحج کپتان سے تقاضا کر کے یہ بندوبست کراتا ہے، جماعت کے لئے امام اور اذان کے لئے مؤذن کا بندوبست بھی امیرالحج کرتا ہے، زری والا اگر حج سے پہلے بھی داڑھی رکھے ہوتے تو شاید مولانا شاہد فاخری انہی کو امامت بھی تفویض کر دیتے، مگر لاچار تھے خودہی یہ منصب سنبھالنا پڑا، پھر بھی کبھی کبھی دوسروں کو نماز پڑھانے پر مجبور کر دیتے تھے، مؤذن بھی ایک خوش الحان نوجوان مل گیا لکھنو میں مولوی گنج کے رہنے والے حاجی عبدالحلیم جو شاید کلکتے میں تجارت کرتے ہیں۔

ایسی کوئی جگہ جہاز میں نہیں تھی جہاں تمام حاجی ایک ساتھ نماز پڑھ سکیں۔لا محالہ دو جماعتیں باضابطہ ہوتی تھیں، ہوسکتا ہے کہ اور بھی جماعتیں ہوتی ہوں، ایک کی امامت اکثر و بیشتر امیرالحج مولانا فاخری کرتے تھے، یہ جماعت کیبن کلاسوں کے برآمدے میں ہوتی تھی، دوسری جماعت درجہ اول کے کامن روم میں ہوتی تھی جس کی امامت قاری محمد ثابق (مدرس مدرسہ فرقانیہ) کرتے تھے، تیسری جماعت کیبن کلاسوں کے پبلک روم میں بوہرہ فرقے کی ہوتی تھی، بوہرہ فرقے کے بیشتر حاجی کیین کلاس یا درجہ اول میں تھے۔ کچھ تیسرے درجہ میں ہوں گے، ان میں نوجوان کافی تھے اور عورتیں بھی، سب جماعت سے نمازیں پڑھتے تھے۔

ہماری دو جماعتوں سے یہ ہوا کہ اگر کسی کو نماز ایک جماعت میں نہ ملی تو دوسری جماعت میں شرکت کا اسے موقع مل جاتا تھا، جاتے وقت یہ اندازہ ہوا کہ سب ہی ایک خیال میں مستغرق ہیں اور دینی امور میں غیر معمولی انہماک ہے، بڑی بڑی جماعتیں ہوتی تھیں، واپسی میں اس خوشگوار منظر کے دیکھنے کے لئے آنکھیں ترسا کرتی تھیں۔

تقریروں کا بھی انتظام تھا، عموماً عصر مغرب کے درمیان کوئی نہ کوئی تقریر کرتا تھا، زیادہ تر مسائل حج کا بیان ہوتا، ان لوگوں کے لیے جو پہلی دفعہ حج کو جا رہے تھے آسان نہ تھا کہ وہ پورے عبور کے ساتھ مسائل حج بیان کر سکیں؛ اس سلسلے میں ہمیں اپنے مربی اور استاد الحاج مفتی محمد عبدالقادر رحمتہ اللہ علیہ (فرنگی محلی) خاص طور پر یاد آئے، جب ان سے شرح وقایہ کی کتاب الحج پڑھتے تھے تو کئی بار انھوں نے فرما یا تھا کہ مسائل حج کا پوری طرح سمجھنا اور انھیں یاد رکھنا مشکل ہے، ایک بار حج کر لینے کے بعد ہی کتاب الحج پوری طرح سمجھ میں آپائے گی۔

ہمارا واسطہ کچھ دنوں سے مسئلے مسائل سے ہے ان میں حج کے مسائل کے بارے میں بھی استفسارات آتے ہیں مگر وہ عموما حج بدل یا عورتوں کے شرائط حج سے متعلق ہوتے ہیں، ارکان حج کے بارے میں یہاں کسی کو پوچھنے کی ضرورت بہت کم پڑتی ہے اس لئے ان مسائل پر بار بار نظر پڑنے کا موقعہ بہت کم ملتا ہے، یہی تجربہ شاید دوسرے فتوی دینے والے اداروں کا بھی ہوگا۔

حج کا فلسفہ، سفر کے آداب اور خشوع و خضوع کی اہمیت پر آپ جتنی لمبی تقریر کرنا چاہیں کر سکتے ہیں مگر مسائل حج پر کچھ کہنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، کم از کم اپنے بس سے تو باہر تھا اسی لئے جہاز پر تقریر کا شوق کبھی نہیں چرایا، ہمیں کیا کسی کو نہیں چرایا، عافیت اسی میں نظر آئی کہ حج سے متعلق کوئی کتاب کوئی صاحب سنا دیا کریں۔

*ماہنامہ "البلاغ" کے ایڈیٹر مولوی محی الدین منیری (ممبئی) بھی اس جہاز پر تھے جن سے بالکل اچانک جہاز پر تعارف ہوا، ایک تعارفی خط جو ہمارے دوست حکیم عبدالقوی دریابادی نے ان کے نام بمبئی میں کام آنے کے لئے دیا تھا، وہ تعارف کے بعد ان کو جہاز پر حوالے کیا، منیری صاحب ہی ایک ایک کو تقریر کے لئے اکسایا کرتے تھے، جب ان کو یہ نسخہ بتادیا کہ کسی کتاب سے مسائل حج سنا دیا جایا کرے تو وہ ہی بچارے یہ خدمت روزانہ انجام دیتے رہے*۔

ہمارے ساتھی متین میاں نائب امیرالحج تھے ان کا خاص کام جہاز کے مریضوں کو ڈاکٹر کے پاس پہونچانا یا اسپتال میں داخل کرانا تھا، آخر وہ دواخانے میں (ڈاکٹر فریدی کے دواخانے میں) ہی میں تو کام کرتے ہیں سینکڑوں دوائیں خود ان کو معلوم تھیں، ابتدائی طبی امداد وہ خود ہی پہونچا دیتے تھے، لیکن جب وہ کسی مریض کے داخلے کی ضرورت محسوس کرتے تو وہ واقعی داخلہ کے لائق ہی قرا پاتا تھا۔

اسی جہاز پر ہمارے ننہیال اور متین میاں کی سسرال کاکوری کے ایک سن رسیده بزرگ حکیم شکور بیگ صاحب بھی اپنی اہلیہ اور بھائی کے ساتھ تھے غالباً وہ بیمار ہی سوار ہوئے تھے، متین میاں نے ان کو دیکھ کر ان کی مرضی کے خلاف اسپتال میں داخل کرایا، ڈاکٹر دعا کرتا تھا کہ خیریت سے جدے میں اتر جائیں اور وہ جدے میں خیریت سے اترے اور وہیں ہسپتال میں دوسرے دن انتقال کر گئے۔

ہمارے جہاز کے وہ تمام مسافر جو پہلی دفعہ حج و زیارت کو جار ہے ہیں ۔۔۔ اور انھیں کی تعداد غالب ہے ۔۔۔ صحیح معنوں میں بیم و رجاء کے درمیان ڈولتے معلوم ہوتے ہیں، ایک انجانی منزل کی طرف قدم بڑھتے جارہے تھے لیکن پہونچنے کا انجام دھندلکے میں لپٹا محسوس ہو رہا تھا۔

یہ نہیں کہ منزل مقصود پر کیسے پہنچیں گے بلکہ یہ کہ منزل پر پہنچ کرکیا بیتے  گی؟ عدالت کے کمرے میں مدعی یا مدعا علیہ کے داخلے کا تصور کیجئے کہ دونوں ثبوت و صفائی کے تمام امکانات حاکم عدالت کے سامنے پیش کر چکنے کے بعد بھی دھڑکتے دل کے ساتھ ہی وہاں حاضر ہوتے ہیں خداجانے فیصلہ کیا ہونے والا ہے، ایسی عدالت میں حاضری کا تصور کیا کچھ ہو گا جہاں سوگند اور گواہ کی بھی کوئی حاجت نہیں ہوتی۔

شاید ہی کوئی ایک متنفس جہاز پر ایسا ہو جسے اپنی پاک دامنی اورمعصومیت کا یقین تو رہا ایک طرف گمان غالب ہی ہو! ایسے اللہ کے بندے ضرور ہوں گے جن کی لغزشیں اور غلطیاں گناہوں میں پنہاں ذائقہ کے شوق کا نیتجہ ہوں گی، وہ پھر سستے چھوٹیں گے، لیکن وہ جن کی معصیتیں سرکشی اور استکبار کی مرہون منت رہ چکی ہیں دوہرے مجرم ہوئے نا؟

مشہور عابد و زاہد حضرت سفیان بن عیینہؒ نے جو تبع تابعین میں درجہ اول کے صوفی مزاج عالم تھے (متوفی ١٩٣ھ) فرمایا تھا:من كان معصيته في الشهوة فارج له التوبة فاذا كانت معصيته في كبر فاخش على صاحبه اللعنۃ۔(جوگناہ گار خواہش نفس کے تحت مبتلائے معصیت ہوا اس کی مغفرت کی امید رکھناچاہیئے، لیکن اگر کسی نے سرکشی کے جذبے سے گناہ کیا ہے تو اس کے حق میں تو ملعونیت ہی کا اندیشہ رکھنا ہوگا)

حاجیوں کے جہاز پر اگر کوئی ایسا مسافر بھی ہے جس نے مزے اور ذائقے کے شوق بے اختیار سے نہیں بلکہ انکار اور استکبار کے جذبے سے مالک کی نافرمانیاں کی ہیں، اس کی دھڑکن کا کوئی دوسرا کیسے اندازہ کر سکتا ہے؟ اور اب اگر وہ انقیاد اور اطاعت کا اظہار اپنے عمل سے کر رہا ہے تو اسکی ضمانت کیا کہ یہ واقعی ندامت اور انفعال ہے یا ناطاقتی اور بے چارگی کا مظاہرہ؟

عام دیکھنے والے چاہے اس ضمانت کی ضرورت محسوس نہ کریں مگر خود وہ جس کا معاملہ ہے اپنے نفس کی باریک ترین بیماریوں سے بھی ناواقف نہیں ہوتا، چاہے ان کی صحیح تشخیص نہ کر سکے، یہ تو حاذق اور ماہر معالج ہی بتا سکے گا کہ بیماریاں لا علاج ہیں یا قابل مداوا۔

*پیشکش: شکیل احمد مئوی*