اردو زبان و ادب کی اشاعت میں انٹرنیٹ کا کردار

Bhatkallys

Published in - Other

04:45AM Thu 5 May, 2016
از: فیروز ہاشمی اس میں شک نہیں کہ انسانی زندگی کے ہر طبقہ میں انٹرنیٹ واقعی مفید ہے اور فوائد کی ایک طویل فہرست ہے۔ جہاں تک ’’اردو زبان و ادب کی اشاعت میں انٹرنیٹ کا رول‘‘ کی بات ہے تو یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو زبان و ادب بھی انٹرنیٹ پر اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ اخبارات و رسائل، کتب و دستاویزات، خواہ قانونی یا طبّی، ناول ہو یا افسانے، تحقیق ہو یا تنقید، نظم ہو یا نثر، دینیات ہو کہ غیر دینیات، درسی کتابیں اور مواد ہوں کہ غیر درسی،وغیرہ جو بھی ضروریات ہوں ، سب کی سب بذریعہ انٹرنیٹ و کمپیوٹر ترقی کے مراحل طے کر رہی ہیں۔اردو کے بہت کم ہی ایسے روزنامے ہوں گے تو انٹرنیٹ پر نہیں ہیں۔ دینی معلومات فراہم کرنے کے لئے بھی اَن گنت ویب پورٹل موجود ہیں جسے اہل اردو اپنے ذوق علم کی تسکین کر سکتے ہیں۔ یہاں اگر ہم اُن سارے ویب ایڈیشن کے بارے میں وضاحت کریں تو پوری ڈائرکٹری تیار کرنی پڑے گی۔ اس لئے ہم یہاں کس بھی پورٹل کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ کوئی بھی ایسا فن اور موضوع نہیں ہے جس کے بارے میں انٹرنیٹ پر معلومات نہ ہو، ایسا کہنا مشکل ہے۔ احادیث کی مستند کتابیں مع عربی متن انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ گوگل ایک ایسا پورٹل ہے جس نے ہر زبان کے استعمال کنندہ کو پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہے۔ اس کے ذریعہ اردو زبان میں ای میل اور چیٹ کی سہولت موجود ہے۔ جن کے سسٹم پر نستعلیق خط موجود ہے اس میں نستعلیق میں ہی ای میل اور چیٹ کر سکتے ہیں۔ اور اگر نہیں تو ڈیفالٹ فونٹ Arialکے ذریعہ استفادہ کیا جارہا ہے۔ اخبارات اور نیوز پورٹل نستعلیق میں یا نسخ میں بہتر انداز میں خبریں فراہم کر رہے ہیں۔ بیس سال قبل بہت سی عام معلومات جسے حاصل کرنے کے لئے لائبریوں اور اساتذہ سے رابطہ کرنا پڑتا تھا، اب بڑی آسانی سے سرچ انجن کے ذریعہ کسی بھی پورٹل سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اگر معلومات میں کہیں شک کی گنجائش ہے تو اساتذۂ فن سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ بذریعہ ای میل اس کی تصدیق کرائی جا سکتی ہے۔ یا پورٹل پر پیغام چھوڑ کر اہل علم سے معلومات فراہم کرنے کی درخواست کریں تو چند دنوں بلکہ چند گھنٹوں میں بھی آپ کو وافر مقدار میں معلومات فراہم ہو سکتی ہیں۔ بزم قلم ،ادب ڈاٹ کام، گزرگاہِ خیال، قلم قافلہ وغیرہ کے نام سے کئی پورٹل ہیں جس پر آپ اپنے مضامین و مقالات پیش کرکے لوگوں کو استفادہ کرنے کا موقع فراہم سکتے ہیں۔ اگر آپ کو کسی موضوع پر کوئی اُلجھن ہے تو آپ موضوع کے اعتبار سے پورٹل پر سوال کرکے اہلِ علم سے جواب حاصل کرسکتے ہیں۔ شاعری، افسانے، ناول اور دیگر ادبی مواد وافر مقدار میں پورٹل پر موجود ہیں۔ انہیں حاصل کرنے اور استفادہ کرنے لیے آپ انٹرنیٹ کی معلومات ضروری ہے۔ اگر سرچ کرنے کے معاملے میں آپ نااہل یا ناقابل ہیں تو آپ مطلوبہ معلومات فراہم نہیں ہوسکتی۔ مذکورہ بالا عنوان کے اور بھی کئی پہلو ہو سکتے ہیں لیکن سب سے اہم پہلو جو کسی بھی چیز کے استعمال، ترقی، فروغ یا کردار کے بارے میں ہوتی ہے وہ ہے مثبت اور منفی یا بہتری اور بدتری ۔ یہاں بھی یہ دونوں پہلو پائے جاتے ہیں۔ اردو والےانٹرنیٹ سے کب؟ کتنا؟ اور کیسے؟ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اس بارے میں اُن کی نوے فیصد آبادی لاعلم ہے۔ ایک مثال ملاحظہ فرمائیں: ’’آج مجھے اپنے آپ سے شرم آرہی ہے۔ محترم جناب احمد مرزا جمیل صاحب کا انتقال گزشتہ ماہ (17 فروری 2014ء کے روز) ہوا، اور اس کی اطلاع مجھے آج بذریعہ ای میل موصول ہوئی۔ نہ کسی اخبار میں کوئی خبر دیکھی، اور نہ ہی کسی ویب سائٹ پر مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ٹی وی چینلوں کا تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے کیونکہ انہیں صرف ’’ٹی آر پی‘‘ اور کسی بھی قیمت پر ’’اشتہارات‘‘ سے غرض ہے۔ آج اپنی ہی ایک بات بڑی شدت سے یاد آرہی ہے: انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اطلاعات کی ترسیل تو ضرور برق رفتار بنادی ہے، لیکن اس سے ہماری بے خبری پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے‘‘ http://urdu.globalscience.net.pk/2014/03/07/obituary-ahmed-mirza-jamil.php#comment-1544 دو عشرہ پہلے تک مقالات و کتاب کی اشاعت کے لیے کئی کئی مہینے انتظار کرنا پڑتا تھا۔ بعض دفعہ اِن کی اشاعت ہوتے ہوتے مواد پرانے ہو جاتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے اکثر لوگ افسانے، کہانی، شاعری وغیرہ میں تو دلچسپی لیتے ہیں کیوں کہ یہ پرانے ہو بھی جائیں تو نئے ہی لگتے ہیں۔ جبکہ تکنیکی موادکی اشاعت بر وقت نہ ہو تو چند مہینے میں ہی یہ پرانے ہو جاتے ہیں۔ اس کام کو الیکٹرونک میڈیا یا کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے آسان بنا دیا ہے۔ اب آپ کو اپنے مضامین چھپوانے کے لئے مدیروں کی خوش آمد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اپنا مضمون و مقالہ لکھئے اور پوسٹ کر دیجئے۔ یا خود بلاگ بنائیے اور پیش کر دیجیے، جسے ضرورت ہوگی وہ خود یہاں سے لے کر چھاپ لے گا۔ جن لوگوں کی رسائی انٹرنیٹ تک نہیں ہوئی ہے اُن کے لئے یہ نیا ہی ہے۔ جہاں تک کمپیوٹر تکنیک کی رسائی اور رہنمائی کی بات ہے تو بقول جناب عبدالمتین منیری (Director: Bhatkallys.com) ’’الکٹرونک میڈیا کے میدان میں در اصل ہم نے اردو والوں کی رہنمائی میں بڑی دیر کر دی ہے،اردو والوں کے لئے یہ سب وسائل کچھ سیکھنے اور اپنی معلومات کا معیار بڑھانے کے بجائے تفریح کے ہیں۔ ‘‘ عبدالمتین منیری صاحب کا مذکورہ جملہ بہت حد تک درست ہے۔ دیر بھی کر دی اور بہت سے لوگوں کے لئے ابھی بہت دور بھی ہے۔ یہ تو اُن لوگوں کے لئے آسانی فراہم ہو رہی ہے جو لوگ انٹرنیٹ استعمال کرنا جانتے ہیں اور آلات کی خریداری اُن کے قوت خرید میں ہیں۔ لیکن جن کو علم ہی نہیں، اُنہیں انٹرنیٹ سے جوڑنے کے ابھی تک کوئی معقول انتظام نہیں ہیں۔ کچھ پرائیوٹ اور منظور شدہ اداروں نے کمپیوٹر کی بھرپور تعلیم دینے کا بندوبست کر رکھا ہے۔ جس میں اردو ’’ان پیج‘‘ کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ اور وہ لوگ اسے سیکھ کر باروزگار بھی ہوئے ہیں اور انٹرنیٹ سے بھی جڑے ہیں۔ لیکن آج بھی اردو زبان میں کمپیوٹر تکنیک کی خبروں کو عمومیت سے پھیلانے کا کوئی معقول ذریعہ نہیں ہے۔ سن ۲۰۰۱ سے ۲۰۰۷ تک ایک رسالہ ’’نئی شناخت‘‘ کے نام سے جاری تھا۔ (جو کچھ حد تک زمینی سطح کے لوگوں کو آسانی سے کمپیوٹر تکنیک سے ہم آہنگ کرانے میں مدد کرتا تھا، جو سرمایہ کی کمی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے کسمپرسی کا شکار ہو کر بند ہو گیا۔) روزنامے، ماہنامے اور ہفت روزہ میںکچھ مواد اب بھی شائع ہوتے ہیں جن میں اکثر خانہ پری ہوتی ہے۔بعض لوگوں نے جرنل تک شروع کر رکھا ہے۔ لیکن اُن میں اکثر معلومات غیر پختہ یا غلط ہیں۔ پورٹل کے ایڈیٹروں سے پوچھنے پر یا تو جواب نہیں ہے یا بے سر پیر کا جواب ہے۔ اُس قسم کے جواب ہم گزشتہ بتیس برسوں سے سنتے آرہے ہیں۔ مواد خواہ الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ فراہم کی جائے یا پرنٹ میڈیا کے ذریعہ نوے فیصد لوگوں کا رُجحان اور مقصد پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ بقیہ جو دس فیصد ہیں اُنہیں مادی وسائل کی کمی نہ ہونے کی وجہ سے اتنی رقم وہ بطور تفریح خرچ کر سکتے ہیں۔ جو لوگ انٹرنیٹ کا استعمال اردو میں کرتے ہیں دراصل اُن کی اپنی نگارشات صرف دوسرے انٹرنیٹ یوزر تک ہیں پہنچ پاتی ہیں۔ عام آدمی آج بھی اس سے دور ہی رہتا ہے۔ اُس زمینی حقیقت کو جوڑنے کے لئے نئی شناخت جاری کیاگیا تھا۔ جس میں ناکامی ہوئی۔ حالانکہ اردو کے جن تکنیکی اداروں میں ان پیج سیکھنے کے لئے جس کتاب سے مدد لی جاتی ہے، وہ میری(راقم الحروف) ترتیب کردہ ہے۔ این سی پی یو ایل جو اردو میں کتاب چھاپ رہی ہے دراصل وہ ان پیج مینوول کا اردو کا حصہ ہے، جسے ہم نے سافٹ ویئر کے لئے ۱۹۹۶ میں تیار کیا تھا۔ بعد میں کچھ لوگوں نے اُس میں نقب لگا کر ایک دو کتابیں مختلف ناموں سے تیار کی جس کا مقصد صرف یہ بتانا کہ ہم بھی اب کچھ کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ جب کہ وہ ایک غیر مکمل اور غلط رہنمائی کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ہم نے اُن کی ویب سائٹ دیکھی، اُن سے فون پر رابطہ کیا تو بات کرنے کے لئے اُن کے پاس وقت نہیں تھا۔ کیونکہ اردو میں وہ اپنی کمپوزنگ کی غلطیاں سدھارنا نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ زبان و املا کی اغلاط سے پر کتابیں اور اخبارات و رسائل فراہم کر دینا اگر اردو زبان کی ترقی ہے تو مان لینا چاہئے کہ اردو زبان ترقی پر ہے۔ ورنہ زمینی سطح پر اس کے برعکس ہے۔ وہ اس لئے کہ پوچھے جانے پر مدیران و مصنّفین حضرات کا جواب ہوتا ہے کہ ’’میاں یہ کمپیوٹر کی غلطی ہے۔ اگر زیر تھوڑا سا اِدھر کے بجائے اُدھر لگ گیا تو کیا حرج ہے‘‘ ؟ تو میرا سوال اُن اردو دانوں سے ہے کہ کمپیوٹر کو کون سدھارے گا؟ یا سافٹ ویئر کو کون صحیح کرے گا؟ اور اگر سافٹ ویئر صحیح اور سدھرے ہوئے ہیں تو ہم استعمال کنندگان کب صحیح لکھیں گے؟ کیا یہ اردو والوں کی ذمہ داری نہیں ہے؟ انٹرنیٹ کی وجہ سے اردو ادب کا تھوڑا چل چلائو تو ضرور ہوا ہے جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے لیکن زبان کے معاملے میں کوئی خاص کام نہیں ہوا ہے۔املا اور جملہ کی غلطیاں تو عام ہیں۔چند ایک کو چھوڑ کر کسی بھی علاقے کے اردو اخبار کو اٹھا کر دیکھ لیجئے دس فیصد تک غلطیاں مل جائیں گی۔ ایک فیصد کو معاف کیا جا سکتا ہے یا معیار قرار دیا جاسکتا ہے لیکن دس فیصد غلطی کو معیار قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ لغات پر بھی تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزر گیا اردو لغت پر کوئی نیا کام نظر نہیں آرہا ہے۔ وہی پرانا ایڈیشن کو بار بار ٹائٹل پر ’’نیا‘‘ لکھ کر شائع کیا جارہا ہے۔ اردو کے جو ڈاکٹر یعنی پی ایچ ڈی پیدا ہو رہے ہیں، اُن کی حالت کو بھی بہتر نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن اب وہی زبان و ادب کے معمار کہلارہے ہیں۔ کیوں کہ باقی اردو والے کا معیار بھی گرتا جارہا ہے۔ چند ایک اگر اہل علم اردو والے ہیں بھی تو اُن کو کون پوچھتا ہے۔ یا اب اُن کی سماجی حیثیت کیا ہے؟ صرف اردو کے جلسوں میں صدارت؟ اُن کی عمریں اَسّی سال سے اوپر ہو چکی ہیں۔ اردو والے زیادہ سے زیادہ یہ کریں گے کہ اُن کے نام پر بھی اردو کا ایک نیا مزار بنا لیں گے۔ وہی اردو زبان و ادب ہوگی۔چھپائی کا تو معیار رہ نہیں گیا۔ انٹرنیٹ پر اُن کی زیارت کی جائے گی۔ ابھی تک یعنی گزشتہ بیس سالوں میں اردو کا سافٹ ویئر اور انٹرنیٹ آیا ہے اکثر اردو کے ڈاکٹر، لکچرر، پروفیسرز وغیرہ نے کمپیوٹر کو اپنی میز پر رکھ کر اسٹیٹس سمبل بنایا ہوا ہے۔بیشتر کو کمپیوٹر کی بنیادی معلومات بھی نہیں ہے۔ کمپوزنگ بھی صحیح طریقے سے نہیں آتی یا زیادہ سے زیادہ شعر و شاعری، غزل و افسانے کی کمپوزنگ تک محدود ہے۔ نہ تو نثر کو نثر کے طریقے سے پرنٹ کرنے یا بنانے کی اہلیت ہے اور نہ ہی نظم کو نظم کے فورمیٹ میں کرنے کی صلاحیت۔ اُن کی اولادیں انگریزی پڑھ کے غیرممالک میں اپنی صلاحیتیں کھپا رہی ہیں اور والد بزرگوار کو تحفتاً لیپ ٹاپ دے دیا کیونکہ اولاد کو اتنا تو معلوم ہے کہ اُن کے والد اُردو کے بہت بڑے لکھاڑی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کرناہے؟ کچھ نہ کچھ لکھنا ہے اور انٹرنیٹ پر پوسٹ کرتے رہنا ہے۔باقی زندگی اردو کی خدمت کے نام پر کٹ جائے گی۔ایوارڈ بھی مل سکتا ہے۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نئی نسل کو اردو سکھانے کے لئے وہ طریقے نہیں اپنائے جارہے ہیں جس سے رسالوں اور اخباروں کی اشاعت بڑھے۔آج بھی ہر اردو والے کے گھر میں کم از کم ایک روزنامہ ، بچے اور بڑوں کے لیے ایک ایک ماہنامہ کی ضرورت ہے۔ جب کہ اردو صرف اس حد تک پڑھی یا پڑھائی جارہی ہے کہ اردو کے نام پرچلنے والی صوبائی اکیڈمیاںحرکت میں رہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اکیڈمیوں کی حرکت میں کمی آجائے یا بے حس ہو جائیں۔ کیونکہ بے حس ہونے یا کم حرکت ہونے کی صورت میں اُس کے گرانٹ میں کمی آجائے گی یا حکومت اُسے بند کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ اب ہم تجزیہ کرتے ہیں اردو زبان کے ایک اور پہلو پر جو آج سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اگر ہم واقعی اردو زبان و ادب کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر روز کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ ۱۔ ’’کیلی گرافی‘‘ کے اسرار و رموز پر ورکشاپ اور نمائش ۲۔ ’’کمپیوٹر‘‘ ۔کمپوزنگ میں غلطیاں کیوں ہوتی ہیں؟ یا تزئین پر ورکشاپ اور نمائش ۳۔’’کیلی گرافی اور کمپیوٹر کا موازنہ‘‘ کے موضوع پر ورکشاپ اور نمائش ۴۔’’تزئین یا ڈیکوریشن‘‘ بذریعہ کیلی گرافی اور کمپیوٹر ۵۔کیلی گرافی اور کمپیوٹر کے موضوع پر مشترکہ ورکشاپ صوبائی سطح پر کم از کم سال میں ایک بار کیلی گرافی اور کمپیوٹرکے موضوع پر نمائش اور ورک شاپ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ضلعی سطح پر بھی ممکن ہو تو کیا جائے۔ اردو زبان و ادب کے بارے میں نئی معلومات بذریعہ سیمینار یا ورک شاپ عوام تک پہنچایا جائے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ میرے اِن خیالات اور تجربات سے غیر متفق ہوں لیکن حقیقت سے کافی قریب ہے۔ عام معاشرے میں شعوری فقدان تو ہے ہی گلوبلائزیشن نے اتنی تیزی سے ہمارے معاشرے پر اثر ڈالا ہوا کہ ابھی ہمارا ملک خود اِن حالات سے نبردآزما ہونے میں نااہل ہے۔ جس کے اثرات معاشرے کے دیگر شعبے کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں پر بھی پڑ رہے ہیں۔ اس وقت ہمارا معاشرہ صرف مادّیت پرست بنا ہے۔ شہروں میں تو خاص طور سے یہ اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر سنجیدگی سے مذکورہ امور پر توجہ نہ دی گئی تو آئندہ کے حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔ نوٹ: یہ مقالہ گزشتہ 30 اپریل2016 کو بہار اردو یوتھ فورم کے زیر اہتمام پٹنہ میں منعقد ہونے والے انٹرنیشنل سیمنیار میں پیش کیا گیا۔