یہ شعر پڑھتے ہی زندگی کی بے تبابیوں اور بے اعتنائیوں کا خیال آتا ہے اور چاروں طرف ایک اداسی کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے یوں تو اردو ادب کی تاریخ ایک جہاں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے لیکن یہی تاریخ ساغر صدیقی کے سوانحی حالات کی بابت تہی داماں نظر آتی ہے اسی لئے اس عظیم شاعر کے بارے میں ہمارے پاس بہت مختصر معلومات ہیں وہ بھی ساغر کی اپنی بیان کردہ باتیں ہیں ۔
ساغر صدیقی1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے وہ ماں کی مامتا اور باپ کی شفقت دونوں سے محروم رہے ۔کسی بہن بھائی کا بھی سہارا نہیں تھاساغر نے جس گھر میں ہوش سنبھالا اس گھر میں ساغر سے پہلے حاجی محمد حنیف اور حاجی محمد حسین نام کے دو بزرگ رہتے تھے اسی مکان میں لکڑی کے ایک پرانے صندوق میں پڑی کچھ کتابیں ساغر کی ساتھی بن گئیں ساغر نے حبیب حسن نامی ایک بزرگ سے تعلیم حاصل کی اور بچپن سے شعر کہنے کا شوق ہوا سات آٹھ برس کی عمر میں اس نے اردو زبان پر عبور حاصل کر لیا شروع میں ’’ناصر حجازی‘‘ کے نام سے شاعری کی لیکن ڈیڑھ دو ماہ بعد ہی یہ تخلص’’ساغر صدیقی‘‘ میں تبدیل ہو گیا جو آج تک موجود ہے ۔
درمیانہ قد، کشادہ پیشانی، ٹیڑھی آنکھیں مٹی سے اٹے بال، بڑھی ہوئی شیو، چپل سے محروم پاؤں ، سیاہ میلی کچیلی چادر میں لپٹا نحیف ونزار جسم لئے ساغر اپنے حال میں مست لاہور کی سڑکوں پر خاک میں خاک ہو تا رہا ساغر نے جتنی چرس پی تھی اور مارفیا کے انجکشن لئے وہ کسی بھی آدمی کو پاگل کرسکتا تھا لیکن وہ آخر دم تک خوبصورت شعر کہتا رہا ساغر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا بلکہ تقسیم ہند سے پہلے وہ ایک خوش پوش نوجوان تھا اور ادبی محفلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا ڈاکٹر تاثیر مرحوم اور شمس العلماء تاجور نجیب آبادی کے زیر سایہ اردو مجلس کے نام سے قائم ہونے والی بزم کے مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا تھا پھر تقسیم ہند کے بعد بھی ساغر کا یہ سفر اسی طرح جاری رہا وہ پتلون اور بوسکی کی شرٹ پہنتا تھا وہ بہت دلچسپ باتیں کرتا تھا اپنی شاعری اور ترنم سے مشاعرے لوٹ لیا کرتا تھا پھر اچانک ہی ساغر گردش میں آگیا تو بوسکی کی جگہ کھدر نے لے لی اور آخر کار ساغر نے یہ لباس فاخرہ بھی دنیا کے منہ پر دے مارا اور ایک کالی چادر اوڑھ لی اور یہی چادر تادم مرگ اس کے ساتھ رہی وہ اپنی ذات میں سمٹنے لگا اور لوگوں سے دور ہوتا چلا گیا وہ اپنے لئے فقیر کا لفظ استعمال کرنے لگا
*ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا*
*ہم کئی روپ دھار لیتے ہیں*
اس نے اپنی ذات کا سارا میل باہر انڈیل دیا اور اس کے اندر چراغاں ہوگیا آخر خاک میں لوٹتے اس فقیر نے 19جولائی 1974ء کو اس بے مہر زندگی سے منہ موڑ لیا اور ہمیشہ کے لئے سپرد خاک ہوگیا اس میں کوئی شک نہیں کہ ساغر ایک عظیم غزل گو شاعر تھا ممتاز شاعر ظہیر کاشمیری نے کہا تھا کہ ساغر بنیادی طور پر غزل کے میدان کا شہسوار تھا وہ جمال اور جلال دونوں کا شاعر تھا وہ مری ہوئی سماجی قوتوں کا نوحہ گر نہیں تھا نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں کا نغمہ گر تھا مرزا ادیب ساغر کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں میں نے اور کسی نے بھی ساغر صدیقی کی زبان سے کوئی فحش بات نہیں سنی برابھلا کہنا وہ جانتا نہیں تھا ہر ایک سے طلب بھی کر لیتا تھا یہاں بھی اس کی مردانگی ملاحظہ فرمائیں چار آنے مانگنے پر آپ آٹھ آنے یا ایک روپیہ دے دیں تو وہ چار آنے لے کر باقی سکے واپس کر دیتا یہ اس دیوانے کا اصول تھا۔
ساغر کی شاعری میں زندگی اور زندگی کے تلخ رویے بہت زیادہ نمایاں ہیں ساغر نے جس طرح زندگی کو اور زندگی نے جس طرح ساغر کو برتا اس نے ساغر کے لہجے میں تلخی گھول دی مثال کے طور پر ۔
*خاک اڑاتی ہے تیری گلیوں میں*
*زندگی کا وقار دیکھا ہے*
*زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے*
*جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں*
*پھرتے ہیں لوگ چاک گریباں گلی گلی*
*مجروح زندگی کو لگائے ہوئے گلے*
معروف لکھاری یونس ادیب ساغر صدیقی کے دوست تھے مداح اور عاشق تھے ساغر کے کلام کو محفوظ کرنے اور شائع کروانے میں بھی یونس ادیب ہی کی کوششیں ہیں ورنہ ساغر کے بے نیازانہ رویے کی وجہ سے ایک بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ اس کی شاعری کا ایک بڑا حصہ چرالیاگیا یا سستے داموں خرید لیاگیا لیکن یہ نقصان بھی ساغر کی عظمت کو کم نہیں کر سکا ہر سال ساغر صدیقی کی برسی پر ’’ساغر میلے‘‘ کا اہتمام بھی یونس ادیب کی کوششوں سے ہی ممکن ہوا گوالمنڈی کا خواجہ شفیع امرتسر کے وقت سے ساغر کا دوست اور مداح تھا نامور گلو کار مہدی حسن نے اسی سے ساغر کی غزل *"چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے"* لی اور گائی اس کی آواز سے یہ غزل بھارت والوں کے پاس چلی گئی ایک دن ساغر سوتر منڈی میں ایک پان کی دکان کے سامنے سے گزررہا تھا تو آل انڈیا ریڈیو کے کسی سٹیشن سے کوئی گائیک اس کی یہی غزل گارہا تھا ساغر رک گیا غزل کے اختتام پر اناؤنسر نے جب یہ کہا ’’ ابھی آپ پاک وہند کے مشہور شاعر ساغر صدیقی کی غزل سن رہے تھے’’ تو ساغر نے ہنس کر کہا‘‘ واہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ ساغر کس حال میں زندہ ہے اچھا اللہ وارث ہے ‘‘ ساغر صدیقی جو اپنی زندگی میں ہی مرگیاتھا مرنے کے بعد اس کے کلام نے اسے ہمیشہ کے لئے زندہ وجاوید کر دیا نامور ادیبہ امرتا پریتم نے صحیح کہا ہے کہ ’’ایک شاعر کی حیثیت سے ساغر صدیقی کی زندگی اس دھرتی پر پاکبازی اور سچائیوں سے پیار کی بے داغ کہانی ہے اور ہم سب کا فرض ہے کہ انسانی احترام کی بحالی کی جدوجہد میں فکرو فن کے دیے روشن کرنے والے ساغر صدیقی ایسے شاعروں کو خلوص سے یاد کیا جائے۔
*یاد رکھنا ہماری تربت کو*
*قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا*
ساغر لفظوں کے ساتھ ایک ماہر کھلاڑی کی طرح کھیلتا نظر آتا ہے اس کی شاعری چند روز کی شاعری نہیں بلکہ زمانوں کی شاعری ہے اس نے جو بات برسوں پہلے کہی تھی وہ دور حاضر پر بھی اسی طرح صادق آتی ہے ہمیں یقین ہے کہ یہ اشعار پڑھ کر آپ بھی ہم سے اتفاق کریں گے کہ ساغر صرف گزشتہ کل کا شاعر نہیں تھا بلکہ وہ آج کا اور آئندہ کا شاعر بھی ہے
*یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا*
*میرا شعور مزاج عوام بدلے گا*
*مفلسوں پر ہنس رہی ہے عظمتیں ابلیس کی*
*اور خدا کی رحمتیں منسوب زرداروں کے ساتھ*
*بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں*
*کچھ باغباں ہیں برق وشرر سے ملے ہوئے*
*یقیناً اب عوامی عدل کے زنجیر چھنکے گی*
*یہ بہتر ہے کہ مجرم خود ہی جرموں کی سزا چن لیں*
کیا ایسا نہیں لگتا کہ شاعر نے یہ اشعار حالات حاضرہ کے لئے کہے ہیں ؟ 19جولائی اس عظیم فقیر شاعر کی برسی کا دن تھاجو آیا اور گزر گیا۔ اسے زندگی نے جیتے جی کچھ نہ دیا لیکن وہ درویش مر کے زندہ ہو گیا ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ اسے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین ۔ساغر صدیقی کے بارے میں جاننے کیلئے اس کا اپنا یہ شعر ہی کافی ہے