پس چہ باید کرد اے اقوام شرق معہ مثنوی مسافر از علامہ اقبال
طلوعِ اسلام، لاہور
اقبال کی ایک تازہ اور ایک کسی قدر قدیم دو فارسی مثنویوں کا مجموعہ ہے۔ اقبال کے کلام کی مدح و توصیف میں اب کچھ کہنا شاعر سے زیادہ خود اپنی سخن فہمی کا اعلان کرنا ہے اور اپنی جوہر شناسی کا اشتہار دینا ہے۔آفتاب کے روشن ہونے میں اگر آپ شہادت دے رہے ہیں تو یہ ثبوت تو آفتاب کی روشنی سے بڑھ کر خود آپ کی بصارت کے صحیح و تندرست ہونے کے حق میں ہے۔ بقول حضرت رومی:
ایں دو چشمم روشن و نا مرسدست
مادح خورشید مداح خود است
نام کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے اور ایک ہی موضوع لے دے کے اب اقبال کے پاس رہ گیا ہے۔ پرانے ہونے پر ہمیشہ نیا! کثرت کے باوجود ہر دم تازہ اور شگفتہ! عشق گننے میں ایک، کیفیت عشق ہر روز جدید، لذات عشق ہر لمحہ مزید!
زبان فارسی لیکن اتنی سلیس کہ گویا اچھے پڑھے لکھوں کی اردو، کوئی لفظ ذرا سا بھی مشکل یا نامانوسِ لغت اگر آ گیا تو اس کا حل وہیں حاشیہ میں موجود۔ شروع ہی میں پڑھنے والے سے فرماتے ہیں کہ ہوش و خِرد نے حرم میں بغاوت برپا کر رکھی تھی، میں اس کے لیے دیارِ عشق سے لشکرِ جرار لے کر آیا ہوں، یہ نہ سمجھنا کہ عقل کے لیے یوم الحساب ہے ہی نہیں:
نگاہ بندہ مومن قیامت خرد است
تمہید کا آغاز جس نام نامی سے ہوتا ہے، اس سے دنیائے عشق میں کون ناواقف ہے؟
پیرِ رومی مرشدِ روشن ضمیر
کاروانِ عشق و مستی را امیر
نورِ قرآن درمیان سینہ اش
جام جم شرمندہ از آئینہ اش
مرشد کی روحانیت مکشوف ہوکر اقبال سے کہتی ہے:
جز تو اے دانائے اسرارِ فرنگ
کس نکو تنثبت در تار فرنگ
باش مانند خلیل اللہ مست
ہر کہن بت خانہ را باید شکست
عمر تو از رمز جان آگاہ نیست
دین او جز حبِّ غير اللہ نیست
سرِّ شیری را نہ فہمد گاؤ و میش
جز بہ شیراں کم بگو اسرارِ خویش
با حریفِ سفلہ نتواں خورد مے
گر چہ باشد بادشاہِ روم درے
ہوسف مارا اگر گرگے برد
بہ کہ مردے نا کسے اورا خرد
معنیِ دین و سیاست باز گوئے
اہلِ حق را زیں در حکمت بازگوئے
ساری مثنوی اسی پیام کی شرح و تفصیل میں ہے، حکمت کلیمی، وحکمت فرعونی کے بعد ایک عنوان لا الہ الا اللہ ہے۔ اس کے تحت میں فرماتے ہیں کہ لا جلال ہے الا جمال۔ لانفی۔ الا اثبات ۔لا نیستی ۔ الا ہستی۔ سارا نظام کائنات انہیں دو حرفوں کی قوتِ عمل کا تماشا گاہ ہے۔ ابتدا لا ہی سے کرنی چاہیے اور غیر اللہ کے مقابلے میں وظیفۂ حیات اسی کو بنانا چاہئے:
ہر دو تقدیر جہانِ کاف و نون
حرکت از لا زائد از إلا سکون
در جہاں آغازِ کار از حرف لاست
ایں نخستین منزلِ مردِ خداست
پیشِ غير اللہ لا گفتن حیات
تازہ از ہنگامہء او کائنات
آگے ایامِ عرب سے گزرتے ہوئے دور حاضر کے سرمایہ سوز روس تک پہنچ جاتے ہیں اور ذرا دیکھئے اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں:
ہمچنان بینی کہ در دور فرنگ
بندگی بخواجگی آمد بجنگ
کردہ ام اندر مقاماتش نگہ
لا سلاطین لا كليسا لا إلہ
فکر اودر تند باد لا نماند
مرکبِ خود را سوئے إلا نماند
انجام جو ہونا ہے ظاہر ہے:
آیدیش روزے کہ از زور جنون
خویش را زین کند باد آرد برون
اس لیے کہ:
در مقامِ لا نیا ساید حیات
سوئے إلا می خرامد کائنات
اقبال کے سردار و آقا نے تو یہ فرمایا تھا کہ کل روئے زمین میرے لیے سجدہ گاہ ہے اور کہاں اب یہ دیکھنا پڑتا ہے، یہ مسجد اپنوں کے نہیں بلکہ بیگانوں کے قبضہ میں ہے:
مومنان را گفت آں سلطانِ دین
مسجدِ من این ہمہ روئے زمین
الامان از گردش نہ آسمان
مسجد مومن بدست دیگران
دوسروں کا فقر رہبانیت اور بھوگ ہے۔ مومن کا فقر تو عین بادشاہی حکمرانی ہے:
فقر قرآن احتساب ہست و بود
نے رباب و مستی و رقص و سرود
فقر مومن چیست؟ تسخیرِ جہات
بندہ از تاثیر او مولا صفات
فقر کافر خلوتِ دشت ودر است
فقرِ مومن مرزہ بحر و بر است
فقر چون عریاں شود زیر سپہر
از او بلرزد ماہ و مہر
فقر عیاں گرمی بدر و حنین
فقرِ عریاں بانگ تکبیر حسین
زمانے نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا اور عصرِ حاضر سے مقابلہ کے وقت ہم نے کیسی پہلی ہی باری میں اپنی ہی ہار مان لی، اس کا ایک جلوہ اس آئینہ میں ملاحظہ ہو:
اے تہی از ذوق و شوق و درد
می شناسی عصرِ ما باما چہ کرد
سوزِ دل از میان سینہ رفت
جوہرِ آئینہ از آئینہ رفت
عصرِ مارا از ما بیگانہ کرد
از جمالِ مصطفےٰ بیگانہ کرد
باطن این عصر را نشناختی
داد اول خویش را حاجتی
تہذیب فرنگ کی مصوری اقبال خدا جانے کتنی بار کر چکے ہیں لیکن ہر نیا نقش اپنی دل آویزی میں پچھلے نقوش سے کچھ بڑھ کر ہی رہتا ہے۔ ص 56 تا 63 ایک طویل نظم کا عنوان وہی ہے جو کتاب کا ہے پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ۔ اس کے ذیل میں فرماتے ہیں:
آدمیت زار خالید از فرنگ
تا کجا در قید زنار فرنگ
یورپ از شمشیر خود بسمل فتاد
زیر گردوں رسم لا دینی نہاد
گرگے اندر پوستینِ تیرہ
ہر زماں اندر مکینِ برّہ
دانشِ افرنگیاں تیغے بدوش
در ہلاکِ نوع انساں سخت کوش
آہ از افرنگ و از آئینِ او
آہ از اندیشہ را دین او
علم حق را ساحری آموختند
ساحری نے کافری آموختند
اے کہ جاں را باز می دانی زمن
سحرِ این تہذیب لادینی شکن
ردّ بلاتو مومن کے اپنے ہاتھ میں ہے، مومن اگر اپنے ایمان پر جم جائے اور اپنی خودداری پر ثابت قدم رہ جائے تو سارا طلسم آناً فاناً ٹوٹ کے رہ جاتا ہے:
دانی از افرنگ و از کار افرنگ
تا کجا در قید زنارِ فرنگ
زخم از نشتر او و سوزن از او
ما جوئے خون وامید رفو
خفتہ دکاّنِ شریک تخت و تاج
از تجارت نفع از شاہی خراج
کشتن بے حرب وضرب آئین اوست
مرگہا در گردش ما شین اوست
بے نیاز از کارگاہ او گزر
در زمستان پوستین او مخر
ہوشمندے از خمِ او مے نخورد
ہر کہ خورد اندر ہمیں میخانہ برد
وقت سودا قند قند و کم خروش
ما چو طفلانیم و او شکر فروش
اقتباسات بہت ہو گئے۔ جبر کر کے قلم روکنا پڑتا ہے، ورنہ اگر طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تو شاید ساری کتاب بھی اول سے آخر تک نقل ہو کر رہے۔’’اللہ مست‘‘ ملا صفات۔ خُودگداز‘‘ اور اس قسم کی حسین ترکیبیں تو اقبال کا حصہ ہو چکی ہیں ۔ ان پر کچھ کہنا تحصیل لا حاصل ہے۔
دوسری مثنوی مسافر کے نام سے ہے۔ پہلا ایڈیشن 1934 میں تھوڑی ہی تعداد میں نکلا تھا، اس لئے زیادہ پھیل نہ سکا۔ دنیا کے لئے کہنا چاہیے کہ یہ مثنوی بھی نئی ہی ہے۔ اقبال نادر شاہ شہید کی دعوت پر معہ مولانا سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے 1933 میں کابل گئے تھے۔ واپسی پر اپنے تأثرات اس مثنوی میں جمع کر دیئے ہیں اور جو کچھ بھی کہنے کے قابل باتیں تھیں سب کہہ ڈالی ہیں۔ نادر کون؟ مدح و وصف
کے شعر بہت سنے ہوں گے۔ ذراتعارف نامہ کا ایک شعر اقبال کی زبان سے سنیے:
خسروئے شمشیر و درویشی نگہ
ہر دو گوہر از محیطِ لا إلہ
اس سفر میں اقبال شہنشاہ بابر کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں اور کس رنگ و بو کا گل عقیدت مزار پر چڑھاتے ہیں:
خوشا نصیب کہ خاک تو آرامیداین جا
کہ این زمیں ز طلسمِ فرنگ آزاداست
غزنی میں حکیم سنائی کی قبر پر جا کر مراقب ہوتے ہیں اور بہشت بریں سے صدا سنتے ہیں:
دینِ تو اندر کتب اے بے خبر
علم و حکمت از کتب دین از نظر
مزار سلطان محمود پر جو کچھ گزری، ویرانہ غزنی میں مناجات پڑھنے والے نے کیا دیکھا اور کیا سنا اور کیا کہا، اس قسم کے سارے دلکش منظروں کے لئے تو اصل کتاب کو ملا حظ فرمائے۔ آخر میں صرف اتنا اور سن لیجئے کہ اقبال کو شاہ شہید کی اقتدا میں نماز عصر پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا تھا۔ آہ! کہاں وہ ایک نماز شاہ اسلام کے پیچھے اور کہاں دوسری صدہا نمازیں! شاعر اگر ان مقامات کی شرح کرنا چاہے بھی تو بیان پر قدرت کہاں لاسکتا ہے۔ مجبوراً بس اتنی سی کسک دلوں میں پیدا کر کے رہ جاتا ہے:
راز ہائے آن قيام و آں سجود
جز بہ بزمِ محرماں نتواں کشود
(صدق نمبر: 23، جلد: 2، مورخہ 11 دسمبر 1936)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#تبصراتِ_ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (9)
اقبال کا تصور زمان و مکان از ڈاکٹر رضی الدین صاحب
ادارہ اشاعت اردو، حیدرآباد
زمان و مکان کے مسائل فلسفہ و قدیم دونوں کے اہم ترین عنوانات میں سے ہیں، یونان دفرنگستان دونوں جگہ فلسفہ اور الٰہیات کے علماء نے ان پر بہت کچھ لکھ ڈالا ہے اور متکلمین کو بھی بادل نخواستہ ان بحثوں میں پورا حصہ لینا پڑا ہے، اقبال کو بھی اپنی منظومات نیز مقالات میں ان منزلوں سے گزرنا ناگزیر تھا، اب دنیائے اسلام کے شاید سب سے بڑے مسلم سائنٹسٹ ڈاکٹر رضی الدین صاحب نوبل پرائز پانے والے نے اقبال کے نظریات پر گفتگو کی ہے اور جوحقیقتیں کہنا چاہیے کہ ناقابلِ فہم ہیں، انہیں بڑی حد تک قابلِ فہم بنانے کی کوشش کی ہے، کتاب خالص علمی ہے اور مسائل اتنے دقیق کہ عوام کیا اکثر خواص کی دسترس سے بھی باہر، تاہم فاضل مصنف کی کاوش قابلِ داد ہے کہ انہوں نے اپنی والی کسر مقالہ کو سلیس و عام فہم بنانے میں اٹھا نہیں رکھی اور مثالیں جابجا کثرت سے دیتے گئے ہیں۔ حیرت ناشر کی ہمت پر ہوتی ہے کہ آخر کیا سمجھ کر انہوں نے سینکڑوں اور چلتے ہوئے نظر فریب عنوانات کو چھوڑ کر یہ ٹھوس علمی موضوع اختیار کیا اور تجارتی پہلو سے یوں منہ موڑ لیا۔
(صدق نمبر 9، جلد 10، مورخہ 26 جون 1944)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#تبصراتِ_ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (10)
اقبال کا فلسفہ خودی اور مسلمان کی زندگی از ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب
استادفلسفہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد
فاضل مصنف کے رسالوں مقالوں کا ذکر ان صفحات میں بارہا آچکا ہے۔ وہ نام اور عنوان کچھ بھی رکھیں۔ ہیر پھیر کر ان کا قلم فلسفۂ کلام اور تصوف قرآنی کا ایک خوش گوار امتزاج بھی پیش کرتا ہے۔سلیس زبان میں ادب کی چاشنی خاصی لیے ہوئے۔ یہی رنگ ان دونوں رسالوں کا بھی ہے۔ گو ان کا مقصد قریب اقبال کی بعض تعلیمات کی تشریع و تعلیل ہے، دونوں رسالے مصنف ہی سے ملیں گے اور ہر ایسے پڑھے لکھے کے پاس رہنے کے قابل ہیں جو اقبال سے دلچسپی رکھتا ہو یا علمی تصوف اسلامی، فلسفہ و کلام سے ذوق رکھتا ہو۔